سال 2021 مسلم دنیا کے لیے کیسا رہا؟

افغانستا ن میں طالبان کی فتح اہم واقعہ ۔عرب۔ اسرائیل تعلقات امت مسلمہ کےلئے اضطراب کا سبب

محمد مجیب الاعلیٰ

سال 2021ء کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ مسلم دنیا میں گزشتہ 12ماہ کے دوران پیش آئے کچھ اہم واقعات کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔ جو سال رفتہ کا حال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی دیتے ہیں کہ آنے والا سال عالم اسلام کے لیے کیسا ہوسکتا ہے۔
عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ میں بے چینی کی اصل وجہ اسرائیل ہے۔ پانچ عرب مسلم ممالک نے 2020ء میں معاہدات ابراہیمی کے تحت اسرائیل سے جو تعلقات استوار کیے تھے 2021ء ان تعلقات کے مزید پختہ ہونے کا گواہ بنا ہے۔ اس صورتحال نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے اضطراب میں اضافہ ہی کیا ہے۔ کورونا وبا نے دنیا بھر میں اپنی دہشت سے انسانوں کے درمیان فاصلے ضرور پیدا کیے ہیں لیکن بعض مسلم ممالک نےعوامی جذبات کے علی الرغم امت مسلمہ کا سکون چھین والے وائرس سے دانستہ طور پر قربت پیدا کی ہے۔ اس قربت کی تازہ مثال مراقش کی ہے جس نے 24نومبر کورباط میں اسرائیل کے ساتھ پہلا سیکیوریٹی تعاون معاہدہ کیا ہے اور دوسری طرف واشنگٹن ڈی سی میں مراقش اور اسرائل کے سفارتخانوں نے 10 دسمبر کو تعلقات معمول پر لانے کا ایک سال مکمل ہونے کا جشن منایا ہے۔ ادھر متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے ایف 35طیاروں اور ڈرونس تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ سوڈان دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے اپنا نام حذف کرانے، تحدیدات کی برخاستگی اور مغربی صحارا پر خود مختاری تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ سعودی عرب کا اگرچہ خاندان کے اندر سے اٹھنے والے آوازوں کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ کوئی معاہدہ تو نہیں ہوا ہے لیکن صیہونیت کے ساتھ اس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ غرض عرب دنیا کی بادشاہتیں اسرائیلی ٹکنالوجی اور سیکیوریٹی کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاوز میں اسرائیل کے اثر ورسوخ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ اسرائیل کی طرح عرب حکمراں بھی ایران اور اس کے اتحادیوں کو ایک بہت بڑے خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی اسلام (اخوان المسلمون کی فکر ورسوخ) سے بھی وہ خائف ہیں اور اپنی آمریتوں کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ 11 سال قبل عرب بہار کے نام سے مصر، تیونس، شام اور یمن سمیت ایک درجن سے زائد ممالک میں اٹھنے والی عوامی تحریکات کو بزور کچلا تو گیا ہے لیکن انقلاب کی دبی ہوئی چنگاریاں کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ مسلم عرب ملکوں کی بڑھتی ہوئی قربت کے جلو میں قبلہ اول 2021ء میں بھی اسرائیلی جارحیت کا گواہ بنا۔ مسجد اقصیٰ کے تقدس کو جہاں بار بار پامال کیا گیا وہیں اسرائیل نے 2008ء 2009ء اور 2012ء کی جنگوں کے بعد 2021ء میں پھر ایک مرتبہ غزہ پر جنگ مسلط کی۔ واقعات کا سلسلہ ماہ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں شر انگیزی سے شروع ہوا۔ اسرائیلی فورسیس نے 12 اپریل کو دمشق گیٹ پلازا کا محاصرہ کیا جو مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔ ماہ رمضان میں یہ فلسطینیوں کے اکٹھا ہونے کی پسندیدہ جگہ ہے، جہاں اسرائیل کی مداخلت کے بعد احتجاج شروع ہوگئے جو دیکھتے ہی دیکھتے غزہ اور مغربی کنارہ تک پھیل گئے۔ شیخ جراح کے علاقہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے اسرائیلی منصوبے نے اس کشیدگی کو زبردست ہوا دی۔ 11روز تک جاری اس خونچکاں لڑائی کے بعد 20مئی (جمعرات) کو دیر رات جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ اس جنگ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں 232فلسطینی جاں بحق اور 1500سے زائد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 65 بچے اور تین درجن سے زائد خواتین شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے دو فوجیوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں 129عام شہری تھے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 200 کے قریب حماس کے جنگجووں کو ہلاک کیا ہے جبکہ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کے مطابق ان کے 80 جنگجو جاں بحق ہوئے ہیں۔ جنگ زدہ علاقہ کی سیٹلائٹ تصاویر اوراموات کی تعداد دل دہلا دینے والے حقائق بیان کرتی ہیں جبکہ غزہ زبردست تباہی کے بعد تعمیر نو کے مشکل چیلنج سے ایک مرتبہ پھر نبرد آزما ہے۔
ادھر اسرائیل نےعین اس وقت جب ایران کے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید کے بارے میں مذاکرات شروع ہوئے ہیں، تہران کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور ایران پر چڑھائی کے لیے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ اسرائیل نے جہاں امریکا کی لاک ہیڈ کمپنی سے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر مالیت کے ہیلی کاپٹر کا سودا طے کیا ہے وہیں وہ امریکا پر زور دے رہا ہے کہ ایران کے خلاف فی الفور فوجی کارروائی کی جائے۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں ان عرب ممالک کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی جائے جن سے اس نے سفارتی تعلقات استوار کیے ہیں جبکہ معاشی پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ایران اپنی تنہائی کے باوجود بغداد اور دمشق کے راستے بیروت تک اپنا اثر ورسوخ قائم رکھے ہوئے ہے۔ طویل عرصے سے جاری ایران اور اسرائیل کی دشمنی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ایک خطرناک موڑ پر آن پہنچی ہے۔ایران نے11اپریل کو اسرائیل پر ایک پُراسرار دھماکے کا الزام لگایا ہے جس کی وجہ سے نطنز میں واقع یورینیم کی افزودگی کے جوہری مرکز میں بجلی کے نظام میں خرابی پیدا ہوئی تھی۔اسرائیل نے کھلے عام تسلیم نہیں کیا کہ وہ اس حملے میں ملوث تھا۔ ایران نے اسے ’سبوتاژ کا منصوبہ‘ قرار دیا ہے۔تاہم امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے کئی اہلکاروں کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد ہو سکتی ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ وہ ’اپنے وقت پر اس (حملے) کا انتقام لے گا۔
سعودی عرب بھی ایران کو اصل مسئلہ کے طور پر دیکھتا ہے۔ یمن میں جاری جنگ میں سعودی عرب کو ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں سے زبردست مزاحمت کا سامنا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ جنگ ریاض کی معاشی تباہی اور یمنیوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کرنے کاسبب بن رہی ہے۔حوثیوں کے آئے دن ڈرون حملوں سے سعودی تیل صاف کرنے والے کارخانے اور یمن سرحد کے قریب ہوائی اڈے نشانہ بن رہے ہیں۔
سال 2021 میں 5 عرب ممالک شام، لیبیا، عراق، لبنان اور یمن بدستور خانہ جنگی کا شکار رہے اور سیاسی طور پر ناکام ریاست بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ عرب حکمرانوں کو کھٹکنے والے ترکی کی پالیسیوں کو خلافتِ عثمانیہ کے احیا کی کوششوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اسرائیل سے کبھی رسم وراہ رکھنے والے ترکی نے 31 مئی 2010ء کو فلسطین کے لیے روانہ کردہ اپنے بحری امدادی قافلے پر اسرائیلی حملے کے بعد سے اپنے موقف میں واضح تبدیلی کی ہے اوروہ قبلہ اوّل کے تحفظ، اسلاموفوبیا اور مظالم کے خلاف مظبوطی سے آواز اٹھا رہا ہے۔ بحیرہ روم میں ترکی کی پالیسیوں کو نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود یورپی اتحاد کے خلاف نئی طاقت شمار کیا جا رہا ہے۔ ترکی جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے۔ شام، عراق اور لیبیا میں ترکی کی مداخلت اور نگورنو-کاراباخ میں ترکی کی مدد سے آذربائیجان کی فتح دراصل ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے مظاہر ہیں۔ نیٹو کے اصل حریف روس کے ساتھ بھی جو مشرق وسطیٰ میں اپنا رسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے انقرہ کے بہتر تعلقات ہیں۔ عربوں کے عتاب کا نشانہ بننے والے قطر کے ساتھ ترکی کے پرجوش تعلقات سعودی عرب کو کھٹکتے رہے ہیں لیکن اب ریاض کو اپنے قریبی ہمسایہ سے تعلقات کی بحالی ہی میں عافیت نظر آنے لگی ہے چنانچہ ولی عہد نے 8 ڈسمبر کو بائیکاٹ کے خاتمہ کے بعد دوحہ کا اوّلین دورہ کیا ہے۔
دوسری جانب چین خطے میں بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے قدم جما رہا ہے جبکہ ترکی نے ایغور نسل کے باشندوں پر مظالم کے خلاف چین کو خبردار کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے 3 بڑے ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ ترکی کے کشیدہ تعلقات 2021 میں بھی برقرار رہے لیکن اب ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ ترکی ان ممالک کے ساتھ تناو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس ضمن میں آنے والے دنوں میں وہ اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کرسکتا ہے۔
15 اگسٹ2021 کو طالبان کی فتح کابل کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ یہ گزشتہ کئی سو سال کی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ امریکی اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد اگسٹ میں طالبان نے برق رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرل کرنا شروع کیا۔ بہت سے صوبائی دارالحکومتوں پر گرفت مضبوط کرلینے کے بعد 14 اگست کی شام طالبان کابل کے نواحی علاقوں میں پہنچے اور صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کی اطلاعات کے بعد طالبان صدارتی محل میں داخل ہوگئے ۔یہ کامیابی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ طالبان نے نہ صرف 50 سے زائد ممالک کے امریکی اتحاد کوشکست فاشت دی ہے بلکہ تین لاکھ افغان قومی فوج کے خلاف بھی تنہا جنگ لڑی ہے۔ پچھلی جنگ عظیم یا کسی علاقائی جنگ میں بھی سرمایہ دار دنیا کو اس قدر ذلت آمیز شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست نے پوری مغربی دنیا میں صدمے کی لہر دوڑا دی ہے۔ امریکا بہادر ابھی تک اس کے اثر باہر سے باہر نکل نہیں سکا ہے جو وسائل کی کمی سے دوچار غریب افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال نہ کرنے پر ہنوز بضد ہے۔ طالبان نے ایمان اور صبر واستقامت کے ساتھ 20 سالہ مزاحمت کے بعد اس جنگ میں فتح تو حاصل کرلی ہے لیکن اب انہیں شکست خوردہ طاقتوں کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرتے ہوئے جنگ زدہ ملک کے پریشان حال عوام کی امنگوں کو پورا کرنے، دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح نمائندگی کرنے اور حکمرانی کا ایک بہتر ماڈل پیش کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26  دسمبر تا 1 جنوری 2021