سازشی تھیوریز اور جدید سماج

صرف بے معنی بے خبری کاپردہ جمال

شبیع الزماں( پونہ)

 

انسانی سماج میں سازشیں اور سازشی تھیوریز تو ہمیشہ سے رہی ہیں لیکن موجودہ زمانے میں سازشی تھیوریز کو پھیلانے کا تصور بہت عام ہوگیا ہے۔ ٹکنالوجی کی ترقی کے سبب فاصلے سمٹ گئے ہیں اور دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ اس لیے ایک واقعہ یا خبر سے پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔موجودہ دنیا چونکہ مسابقت کی دنیا ہے اسی لیے یہاں مختلف اقوام، ممالک، کارپوریشنز، تنظیموں، افکار و نظریات اور افراد کے درمیان ایک مقابلہ جاری رہتا ہے جس میں ہر ایک اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے اور دوسرے کو اپنے سے کم تر رکھتا ہے۔ ان کوششوں میں جہاں مثبت طریقوں کا استعمال ہوتا ہے وہیں منفی طریقے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ سازشی تھیوریز کو گڑھنا اور اسے پھیلانا بھی زیادہ تر اسی طریقہ کار کا حصہ ہے۔
موجودہ زمانے میں سازشی تھیوریز کا تصور بہت عام ہے۔ ہر واقعہ سے متعلق سازشی تھیوری موجود رہتی ہے۔ بلا شبہ سازشیں ہوتی رہتی ہیں اور اتنی مخفی ہوتی ہیں کہ اس کی خبر نہ عام ہوتی ہے اور نہ فوری طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں تو ہر فرد کو نہ صرف سازش کا علم ہوتا ہے بلکہ اس کی پوری تفصیلات بھی معلوم رہتی ہے اور دوسرے یہ کہ سازش شروع ہوتے ہی خبر بن جاتی ہے۔ گویا کہ ادھر بریانی پکی ادھر خوشبو پھیل گئی۔
بعض اوقات تو سازش ہونے سے پہلے ہی بعض اہلِ بصیرت جان جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سازشی تھیورییز صرف مسلمانوں میں پھیلتی ہیں بلکہ سبھی اقوام یکساں طور پر اس کے شکار ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں زیادہ تر جن واقعات سے متعلق سازشی تھیوریز کو پھیلا گیا وہ چاند پر انسانی قدم، پرل ہاربر اٹیک، پرنسس ڈائنا کا قتل، نائن الیون حادثہ، مختلف وبائیں بالخصوص کورونا وائرس وغیرہ رہی ہیں۔
ہر سازشی تھیوری میں ایک ماسٹر مائنڈ ہوتا ہے اور وہ اتنا پاور فل ہوتا ہے کہ سبھی چیزوں کو بیک گراؤنڈ میں رہ کر کنٹرول کرتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی واقعے کے پیچھے مختلف گروپس مختلف سازشی تھیوریز بتاتے ہیں۔ جیسے آج کل کورونا وائرس کو سازش بتایا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھی سیاستداں اسے چین کی سازش بتا رہے ہیں۔ لندن میں ایک دوسری تھیوری چل رہی کہ ٹرمپ نے سماج میں چھپی شیطانی طاقتیں جیسے paedophiles کے خلاف لڑائی چھیڑ رکھی ہے تو ان لوگوں نے ٹرمپ کو روکنے کے لیے کورونا وائرس کی سازش کی ہے۔ اسی طرح امریکی عوام کی بڑی تعداد اسے بل گیٹس کی سازش بتا رہے ہیں تاکہ وہ علاج کے بہانے الیکٹرانک چپ بٹھا کر پوری دنیا کے لوگوں کو کنٹرول کر سکے۔ یورپ میں کورونا وائرس پھیلانے کی سازش کا الزام یہودیوں اور مسلمانوں پر لگایا جا رہا ہے جبکہ ہندوستان میں اس کے لیے مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں ایک بڑی تعداد اسے فارما کمپنیز کی سازش بتا رہی ہے اور حسب روایات بعض مسلمان مفکرین اسے یہودی سازش بتا رہے ہیں۔
اسی طرح بعض اوقات ایک ہی شخصیت کے گرد مختلف بلکہ مخالف گروپ سازشوں کا الزام لگاتے ہیں۔ جارج سورس اس کی واضح مثال ہے۔ جارج سورس ایک ہنگری نژاد 90 سالہ امریکی یہودی ہے۔ جارج سورس دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں اور مختلف سماجی، سیاسی اور رفاہی تنظیموں کو ڈونیشن دیتے رہتے ہیں۔ ٹرمپ حکومت کا الزام ہے کہ جارج سورس امریکہ کے اندر ایک تخریبی انقلاب کی سازش کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اینٹی فاشسٹ مظاہروں میں فنڈنگ کی تھی۔ یو کے کے لبرلز اور کمیونسٹوں کا کہنا کے جارج سورس عرب اور افریقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یو کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اردوغان کا الزام ہے کہ یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں ہندوتوادیوں کا کہنا ہے کہ وہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہندوؤں کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور اربن نکسل اور شاہین باغ تحریک میں انہیں کا پیسہ لگا ہوا ہے۔امریکہ کے عیسائیوں کا کہنا کہ جارج سوروس یہودیوں کے ساتھ مل کر عیسائیوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور یہودیوں اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ جارج سوروس نازیوں کے ساتھی رہے ہیں، ہولو کاسٹ میں ہٹلر کا ساتھ دیا ہے اور اب اسرائیل کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ یعنی ایک ہی فرد پر متضاد گروپس کی جانب سے سازشیں رچنے کا الزام ہے۔
عام طور سے سازشی تھیوری بنانے اور پھیلانے کے پیچھے سیاسی یا نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ اجمالاً اس کی وجوہات ذیل میں بیان کی جا سکتی ہیں۔
1۔ سب سے زیادہ سازشی تھیوریز سیاسی مفادات کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔ سیاست داں اپنی ناکامیوں کو چھپانے، لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے اور مقابل کو بدنام کرنے کے لیے تھیوریز بناتے اور پھیلاتے ہیں۔ فی الوقت ہندوستان سازشی تھیوریز کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہر روز ایک نئی سازشی تھیوری پھیلاتی ہے۔
2۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں بعض واقعات و حادثات کچھ اس طرح وقوع پزیر ہوتے ہیںکہ عام انسانی عقل اس کو نہیں سجھ پاتی ہیں یا وہ ان واقعات کی کوئی عقلی توجیہ نہیں کر پاتی ہے تو اپنی اس ذہنی خلا کو سازشی تھیوریز سے پُر کرنے کی کوشش کرتی ہے جیسے کورونا وائرس سازشی تھیوریز یا اڑن طشتری اور ایلین کی تھیوریز وغیرہ۔
3۔ تیسرا یہ کہ سماج کے وہ افراد جو دوسروں کے بالمقابل خود کو زیادہ باخبر، حالات کا بہتر فہم و ادراک رکھنے والے سمجھتے ہیں اور دوسروں پر اپنی علمی وتجزیاتی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بھی سازشی تھیوریز کو پھیلانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ سماج سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ ایسی چیزوں پر مدلل گفتگو کے بجائے اپنی بات تھوپنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
4۔ اسی طرح وہ گروہ یا قومیں جو محکوم ہوتی ہیں اور اپنی محکومی یا غلامی کے اسباب اپنے اندر تلاش کرنے کے بجائے دوسروں کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہیں وہ سازشی تھیوریز بناتے بھی ہیں اور انہیں پھیلاتے بھی ہیں جیسے بعض دلت تنظیمیں اپنی ہر ناکامی کے پیچھے برہمن سازش بتاتی ہیں اسی طرح مسلمانوں میں بھی بعض افراد مسلمانوں کی تمام تر ناکامیوں کے لیے یہودیوں اور دوسرے سپر پاورس کو ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ سبھی سازشیں یا تھیوریز غلط ہی ہوتی ہوں کیونکہ سازشیں تو انسانی سماج کا حصہ ہیں۔ زمانہ قدیم سے آج تک سیاستدانوں نے اپنے اقتدار اور مفادات کے لیے سازش اور سازشی تھیوریز دونوں کا استعمال کیا ہے۔ البتہ یہ مزاج کہ ہر فطری اور غیر فطری واقعہ میں سازشیں ڈھونڈنا اور تھیوریز بنا بنا کر اسے پھیلاتے رہنا نقصان دہ ہے۔ جو لوگ عام طور پر سازشی تھیوریز پھیلاتے ہیں ان کے پاس کسی سازشی تھیوری کا کوئی حل نہیں ہوتا بلکہ ان کی تھیوریز کا لب لباب ہی ہوتا ہے کہ اب کچھ کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ ایک ایسی سازش ہے جس کے پیچھے بہت طاقتور لوگ ہیں اور دنیا کے تمام پاور سنٹرس پر ان کا قبضہ ہے۔ سازشی تھیوریز سے ایک شکست خوردہ اور مایوسیت زدہ ذہنیت پیدا ہوتی ہے جو کسی مسئلہ کا تجزیہ کر کے کوئی لائحہ عمل کا اختراع نہیں کر سکتی بلکہ صرف راہ فرار اور بے عملی کے لیے راہیں ہموار کرتی ہیں۔ اس لیے ان سازشی تھیوریز کا بہت زیادہ سختی سے نوٹس لینے کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ کسی بھی سازشی تھیوری پر اگر تنقیدی نگاہ ڈالی جائے یا تھوڑا سا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اس کا کھوکھلا پن واضح ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر سازشی تھیوری پر یقین کرنے اور اسے پھیلانے کے بجائے اس کا تنقیدی جائزہ اور عقلی محاکمہ کرنا ضروری ہے۔

سازشی تھیوریز سے ایک شکست خوردہ اور مایوسیت زدہ ذہنیت پیدا ہوتی ہے جو کسی مسئلہ کا تجزیہ کر کے کوئی لائحہ عمل کا اختراع نہیں کر سکتی بلکہ صرف راہ فرار اور بے عملی کے لیے راہیں ہموار کرتی ہیں۔ اس لیے ان سازشی تھیوریز کا بہت زیادہ سختی سے نوٹس لینے کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ کسی بھی سازشی تھیوری پر اگر تنقیدی نگاہ ڈالی جائے یا تھوڑا سا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اس کا کھوکھلا پن واضح ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر سازشی تھیوری پر یقین کرنے اور اسے پھیلانے کے بجائے اس کا تنقیدی جائزہ اور عقلی محاکمہ کرنا ضروری ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020