ساحل انکل: ذہن کے پردوں سے نہ مٹنے والا نام

بچوں کے ہر دل عزیز ادیب مرتضی ساحل تسلیمی صاحب کے سانحہ ارتحال پر خصوصی تحریر

سلمیٰ نسرین، آکولہ

دن کے اجالے، شب کے اندھیروں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں  اور رات کی سیاہیاں دن کی روشنیوں کو نگلتی جارہی ہیں، لیکن اداسیوں کا موسم لگتا ہے بس ایک ہی جگہ ٹھہر گیا ہے—نیا دن نیا زخم۔

ادبی دنیا میں اگر پہلے پہل کسی نام سے آشنائی ہوئی تھی تو وہ نام تھا ’مرتضیٰ ساحل تسلیمی‘

ہلال کے سرورق پر دل فریب منظر اور خوب صورت سے کارٹون کے ساتھ انکل کی نظم ہمارا ننھا ہاتھ جکڑ لیتی۔ ہم ان سےخوب لطف اندوز ہوتے۔ ان نظموں کو یاد کرنے کی ضرورت کبھی نہیں پیش آتی تھی، کیونکہ وہ بغیر یاد کیے ہی گنگناتے ہوئے ذہن نشین ہوجاتی تھیں۔

کہتے ہیں ساحل انکل بچوں کا ادب تخلیق کرتے تھے۔ نہیں، وہ ’بچوں کا اسلامی ادب‘ تخلیق کرتے تھے۔ ان کے قلم نے نونہالوں کو صالح فکر دی ہے۔ دین سے، رب تعالیٰ سے، اپنے رسول ﷺ سے محبت کرنا سکھایا ہے۔ ننھے ذہنوں میں نیکیوں کا اشتیاق پیدا کیا ہے۔

بچوں کی نفسیات کو سمجھنا، ان کے جذبات و احساسات اور دل چسپیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ بچوں کے لیے بہت لوگ لکھتے ہیں لیکن ساحل انکل کی تحریروں نے ننھے منے دلوں کو فتح کیا تھا۔

مجھے انکل کی کتنی ہی نظمیں آج بھی ازبر ہیں۔ وہ جو بھی لکھتے تھے ہمارے دلوں پر اثر کرتا، پھر عمل میں ڈھلتا۔

چاہے چاندنی راتیں ہوں، گرم دوپہریں ہوں یا بارشوں کے بھیگے موسم ہوں کتابیں ہر پہر کی ساتھی ہوا کرتیں۔ حتی کہ امتحانات کے ظالم ایام میں بھی کتابوں اور ادارۂ الحسنات کے رسائل کا مطالعہ ہمارے لیے ناگزیر تھا۔

ماہنامہ ہلال تیسری جماعت سے میرے زیر مطالعہ تھا۔ درجہ پنجم میں نور سے تعارف ہوا۔ ساتویں جماعت سے لکھنے کا شوق ہوا اور نویں تک پہنچتے پہنچتے کہانیاں بنانی شروع کیں۔ انکل نے منی سی تحریروں کو شرف قبولیت بخشا میری سب سے پہلی کہانی نور میں ہی شائع ہوئی تھی۔

شمامہ ساحل، میری اولین قلمی دوست، انکل کی بیٹی ہے۔ اس دوستی کی اجازت انکل نے بخوشی مرحمت فرمائی تھی۔ اسی دوستی کی وجہ سے ان کی فیملی سے بھی تعلقات استوار ہوۓ تھے۔ غرض یادوں کا ایک جہان آباد ہے، جسے ضبط تحریر میں لانا دشوار ہے۔

ساحل انکل، ادارہ الحسنات کے لیے گھر کے فرد کی طرح تھے۔ یہ ادارہ اور اس کے مکین انکل کی اتنی عزت کرتے تھے جتنا وہ جناب مولانا عبدالحی صاحب اور عبدالملک سلیم صاحب کی کرتے ہوں گے۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ جب دور دراز کے رہنے والوں پر ان کی رحلت کی خبر نے ایسا اثر ڈالا ہے تو یقیناً جناب عبدالباری وسیم صاحب اور ان کے دیگر اہل خانہ کے لیے بھی یہ غم اتنا ہی بڑا ہوگا جتنا عبدالملک سلیم صاحب سے جدائی کا رہا ہوگا، کیونکہ ان سارے نفوس کو ہم نے ہمیشہ ساحل انکل کے لیے بہت احترام کرنے والا پایا ہے۔

آہ ساحل انکل، آپ چلے گئے! ہر نوری اور ہلالی آج رنجیدہ ہے، کبیدہ خاطر ہے۔ ان کی آزردگی سے عیاں ہے کہ سبھی کو آپ سے کتنی محبت تھی۔

ان رسائل کے بند ہوجانے کا آپ کو بہت قلق تھا۔ شاید شکوہ بھی کہ بچے آپ کو بھول گئے۔ نہیں انکل، بچے صرف بڑے ہوۓ تھے اپنے بچپن کو بھی کوئی بھلا سکتا ہے بھلا۔

ان تین مہینوں میں میں نے بہت سی تعزیتیں لکھی ہیں کچھ ہستیوں پر آنسو بھی بہاۓ ہیں، لیکن یہ غم کا وہ پہاڑ ہے جو ہمارے اندر کے بچے پر ٹوٹا ہے، اس بچے کا معصوم دل لہو لہو ہے۔ تعزیتی خط لکھتے ہوئے دیگر لوگوں سے جس طرح کہتے رہے کہ ہم آپ کے غم میں شامل ہیں، ویسے میں شمامہ سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں اس کے غم میں شریک ہوں۔ نہیں، کیونکہ یہ میرا اپنا بھی غم ہے۔ کوئی آۓ اور اس غم کو بٹالے۔ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

آج لگتا ہے گویا ابو کی دوبارہ میت ہوگئی ہے!

پیارے ساحل انکل، آپ ہمارے روحانی باپ تھے ہمارے وجود سے اگر ابو کی خوشبو آتی ہے تو ہماری روح میں آپ کی بھی تربیت کی مہک ہے آپ نے صرف اپنی اولادوں کی نہیں بلکہ کئ پیڑھیوں کی تربیت کی ہے۔

آپ کے لکھے ڈرامے ہم نے اسٹیج پر پرفارم کیے ہیں۔ آپ کی نظمیں ہم نے گنگنائی ہیں۔ آپ کی نصیحت ’بولو بچو!‘ پر اللہ اللہ بولنا سیکھا ہے۔ آپ کے لکھے گئے لطیفوں پر ہم کھلکھلا کر ہنسے ہیں۔

آپ نے ہمارے بچپن کو سنوارا ہے۔ لڑکپن میں ہمیں بہکنے سے بچایا ہے۔ ہم کیا سوچتے ہیں، کیا چاہتے ہیں سب آپ کو پتہ ہوتا تھا۔ انکل آپ ہمارے احساسات کو الفاظ دیتے تھے۔ لیکن آج ہم اپنے ہی دلی جذبات کو لفظوں میں پرونے سے قاصر ہیں۔

رب ذوالجلال اپنے بندے کے حق میں دی گئیں محض چار گواہیاں بھی قبول کرلیتا ہے، جبکہ دنیا بھر میں موجود مرتضیٰ ساحل تسلیمی کو پڑھنے والے، محبت کرنے والے ان کے لیے دعا گو ہیں۔ انکل کی ٹائم لائن دعاؤں سے اور ان کے اخلاق و کردار کے بہترین ہونے کی شہادتوں سے بھر گئی ہے۔ ملک و بیرون ملک بسنے والے ہلالی و نوری اس خبر کی تصدیق کے بعد غم سے نڈھال ہیں۔ ہم سب کا دکھ آج سانجھا ہے۔

ہمارے مربی کو سپرد خاک کیا جاچکا۔ ایک تاب ناک عہد تھا جو تمام ہوا۔

لیکن جو کتابوں میں بستے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے۔ ساحل انکل بھی ہر اس بچے کے اندر زندہ رہیں گے جو ان کو پڑھتا رہا ہے۔ اور پڑھتا رہے گا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے