سائنسی تحقیقات پر کووڈ لاک ڈاؤن کے ہمہ گیر اثرات
مختلف میدانوں کے علمی کاموں پر وبا کے اثرات کا ایک جائزہ
اسامہ حمید،علی گڑھ
مئی ١٦٦٥ میں لندن میں طاعون پھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے موسم گرما کے آخر تک لندن کی ۱۵ فی صد آبادی اس بیماری کی نذر ہو گئی۔ جب کوئی شخص اس بیماری کی لپیٹ میں آ جاتا تو اسے اس کے خاندان کے ساتھ گھر میں قید کر کے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ گھر کے باہر سرخ نشان لگا کر لکھ دیا جاتا ’خدا تم پر مہربان ہو‘۔ تمام کاروبار زندگی کے بند ہو جانے کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی درہم برہم ہوا۔ کیمبرج یونیورسٹی بند کر دی گئی اور تمام طلبہ کو ان کے گھر روانہ کر دیا گیا۔ گھر لوٹنے والے ان طلبہ میں ایک سر آئزک نیوٹن بھی تھے جنہوں نے اس تنہائی کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اگلے سال جب وہ کیمبرج واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی کلاسیکل میکینکس کی تھیوری پیش کی جسے جدید سائنس کا پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔ مشکل حالات میں سائنسی کاوش کی یہ مثال حیرت انگیز تو ہو سکتی ہے لیکن اسے ایک اتفاق ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔ آج کے دور اور سائنسی تجربات کے گنجلک کاروبار میں اس طرح کے خوش کن اتفاق کی گنجائش کم ہی بچی ہے۔
سائنسی ترقی کا ایک نہایت اہم نتیجہ علمی تخصص کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ سائنس جتنی تیزی سے آگے بڑھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کے علمی میدانوں میں، مختلف جہات، نظریات، ضروریات کے اعتبار سے تقسیم ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ آج کی حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک حالت میں سائنس کے تمام رسپانس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات کووڈ-۱۹ کے تناظر میں بھی درست ہے۔ ہم یہاں سائنس کے مختلف میدانوں اور مختلف سطح پہ ہوئے تجربات اور علمی کام پر اس وبا کے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
سائنس کے مختلف میدان
نیچرل سائنس کو عام طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، حالانکہ ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہے کہ تحقیق کی سطح پہ یہ تقسیم اتنی حقیقی نہیں ہے اور اکثر تحقیقی کام سائنس کے مختلف حصوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔ بہر حال یہ اقسام اس طرح ہیں:
طبیعیاتی، یعنی Physical سائنس
کیمیائی، یعنی Chemical سائنس اور
حیاتیاتی، یعنی Biological سائنس
ان اقسام کے علاوہ بھی سائنس کے میدانوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس پر بات کی جا سکتی ہے مثلاً، کمپیوٹر سائنس، میڈیکل سائنس، جغرافیائی سائنس اور علم طبقات الارض وغیرہ۔ آج کل معاشیات کو بھی اس کی اہمیت اور طریقہ مطالعہ کے سبب نیچرل سائنس کے ساتھ ہی دیکھا جانے لگا ہے ۔ امید ہے کہ ہم اس بحث کے ذریعے کووڈ-۱۹ کے ان تمام میدانوں پر پڑنے والے اثرات کو سمجھ سکیں گے۔
یہاں آسانی کے لیے ہمیں ان تمام میدانوں سے متعلق کام کو مزید ایک اور تقسیم دینا ہو گا۔
اس تقسیم کو ہم وٹ لیب ورک (Wet Lab Work) اور ڈرائی لیب ورک (Dry Lab Work) کہیں گے۔
وٹ لیب ورک وہ سائنسی کام ہیں جن میں ایک منظم، قائم تجربہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی، خاص قسم کی عمارت، آلات، کیمیکلس، ماحول، اور کبھی کبھی زندہ مخلوقات کی موجودگی کے بغیر یہ سائنسی کام ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں لگ بھگ تمام کیمیائی سائنس، حیاتیاتی سائنس، طبی سائنس کے ساتھ طبعی سائنس کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔
ڈرائی لیب ورک سے ہماری مراد سائنسی کام کا وہ حصہ ہے جس میں ہمیں ایک مخصوص تجربہ گاہ کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے ایک طرح کا ڈسک ورک بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں ان کاموں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس میں محقق کو سفر کر کے فیلڈ میں بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ اس میں تمام کمپیوٹر سائنس، طبیعیات اور علم طبقات الارض کے ساتھ معاشیات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
ان دونوں قسم کے تجرباتی کاموں کے لیے ایک اہم ضرورت سائنسی ادب (Science Literature) ہے جس کا ذکر ہم تفصیل سے کرنے کی کوشش کریں گے۔
وٹ لیب ورک پہ کووڈ کا اثر
سائنس دانوں کے کام کو سائنسی حواصل (Scientific productivity) کے پیمانہ پر جانچا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے ایک سائنسی تجربہ کار، دی گئی مدت میں کتنے تجربے کرتا ہے اور ان تجربات کی روشنی میں کتنا سائنسی ادب تخلیق کر پاتا ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے سائنسی تحقیق کے طریقہ کار کا مختصر تعارف بھی پیش کر دیا جائے۔ سائنسی تحقیق کی آغاز ایک مناسب مسئلہ (Problem) کے تعین سے ہوتا ہے۔ پھر اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک طریقہ عمل (Method) کا تعین کیا جاتا ہے، اس طریقہ عمل پر تجربات انجام دیے جاتے ہیں جن سے سب سے اہم جزو ڈیٹا (Data) کی تخلیق ہوتی ہے۔ اب اس ڈیٹا کے تجزیہ کی باری آتی ہے جس کی بنیاد پر ایک نتیجہ پر پہنچا جاتا ہے لیکن سائنسی تحقیق کا کام یہاں مکمل نہیں ہوتا۔ اس سارے کام کے بعد بھی یہ تحقیق تب تک قابل قبول نہیں ہو گی جب تک یہ کام کسی تسلیم شدہ سائنسی مجلہ (Science Journal) میں شائع نہ ہو جائے۔
اس پس منظر میں کووڈ-۱۹ کے اثر کو سمجھنا قدرے آسان ہو سکتا ہے۔ وبا کے پیر پسارتے ہی زیادہ تر لیبوں کو بند کر دیا گیا جس کی وجہ سے سب سے زیادہ اثر تجربہ کے مرحلہ میں پہنچے ہوئے کام پر ہوا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ان تجربات کے لیے مخصوص آلات کی ضرورت پڑتی ہے جنہیں منتقل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے کیمیکلس کی ضرورت ہوتی ہے جن کے استعمال کی اجازت بھی خاص مقام پر ہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ مخصوص درجہ حرارت بھی ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔ حیاتیاتی سائنس میں زیادہ تر تجربات خاص قسم کے جانوروں جیسے، مینڈک، مچھلی، چوہا یا خرگوش وغیرہ پر کیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی خون کے نمونوں، بیکٹیریا کےنمونوں وغیرہ کا اہتمام اور اس کا مطالعہ ناممکن ہو گیا۔ اکثر سائنسی تجربہ مختلف مراحل سے ہو کر گزرتا ہے مثلا ایک کیمیکل ری ایکشن کو مکمل ہونے میں دسیوں مراحل سے گزرنا پڑ سکتا ہے جن کو مکمل ہونے میں مہینوں یا سال سے زیادہ کا وقت درکار ہوتا ہے یا کسی جانور پر کسی دوا کا اثر روزانہ کئی بار، مہینوں تک جانچا جاتا ہے۔ علم نباتات وعلوم زراعت کے میدان میں پودوں کی پرورش وحفاظت کا کام ایک مستقل کام ہے۔ اب جبکہ اس طرح کا کام ایک بار بیچ مرحلہ میں متاثر ہو گا تو اسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے پہلے قدم سے شروع کرنا ہو گا۔ اس طرح لاک ڈاؤن سائنس کے کام پر کریک ڈاؤن ثابت ہوا حالانکہ کووڈ ویکسین پر کام کرنے والی لیبوں میں کام مسلسل جاری رہا لیکن وہاں بھی دوسرے میدانوں کا کام متاثر ہوا ہے۔ یونیورسٹی آف ارکنساس کے شعبہ حیاتیاتی سائنس کی ڈاکٹر سارہ دراں کا کہنا ہے کہ مستقبل آج بھی غیر واضح ہے۔ یعنی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ حالات کب تک رہیں گے اور اس نقصان کی بھرپائی کی کیا سبیل ہو سکتی ہے۔
ڈرائی لیب ورک پہ کووڈ کا اثر
سائنسی تحقیق کے اس حصہ کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ کچھ سائنسی جریدوں کے مطابق ڈرائی لیب ورک کرنے والے تجربہ کاروں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے کام پہ پڑنے والے اثر پر تسلی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے انہیں سوچنے، منصوبہ بنانے اور کام کرنے کے لیے زیادہ وقت حاصل ہوا ہے اور کام کے نتیجہ میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی آف ساوتھیمپٹن، برطانیہ (University of Southampton) کے پروفیسر مارٹن سولان کا خیال ہے کہ تالابندی کے دوران انتظامی امور اور میٹنگوں وغیرہ کے کام میں جبری کٹوتی نے مفید ذہنی کشادگی کا امکان بڑھایا ہے،تناؤ کو کم کیا ہے اور ذہنی صحت پر واضح مثبت اثرات ڈالے ہیں۔ اس کے ساتھ طرز زندگی اور خاندانی زندگی میں بھی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ ایک فطری نتیجہ معلوم ہوتا ہے لیکن ہم اسے ایک آفاقی نتیجہ نہیں کہہ سکتے۔ گھر سے کام کرنے کے کئی سارے منفی اثرات بھی ہوئے ہیں جن میں خاص طور سے کام کے دورانیہ میں کمی، چھوٹے بچوں کی پرورش کی مشغولیات اور گھریلو مسائل کی وجہ سے پڑنے والا خلل شامل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تحقیقی کام کے لیے وقف اوقات میں ۲۴ فی صد کی بھاری کمی رپورٹ کی گئی ہے۔
مختلف سطحوں پہ سائنسی کام پہ کووڈ کا اثر
اب ہم یہاں مختلف سطحوں پہ ہونے والے سائنسی کام پر کووڈ کے اثر کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ سائنسی تحقیق کا کام عام طور پر چار سطحوں پر ہوتا ہے۔ اول سطح کل وقتی سائنس دانوں کی ہے جن کا مکمل وقت تحقیق کے لیے ہی وقف ہوتا ہے۔ یہ حضرات مختلف لیبوں یا تجربہ گاہوں جیسے ہندوستان میں CDRI, NISER, IISER وغیرہ کے علاوہ بڑی بڑی کمپنیوں کی تحقیقی لیبوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اساتذہ ہیں جن کا تحقیقی کام جز وقتی ہوتا ہے اور وہ تحقیق کے ساتھ تدریسی کاموں میں بھی مشغول ہوتے ہیں۔ ان تدریسی کاموں کا ایک حصہ مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شمولیت بھی ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران لیب میں ہونے والے کام میں جہاں ایک جانب کمی آئی ہے، ان سیمیناروں اور لیکچروں کے آن لائن ہو جانے سے ایک تیزی آ گئی ہے۔ اب بغیر سفر کی دقتیں اٹھائے، کم خرچ میں دنیا کے عظیم سائنسدانوں سے استفادہ کافی آسان ہو گیا ہے۔ ان فوائد کے ساتھ اس ضمن میں سب سے زیادہ نقصان ان ریسرچ اسکالروں کو ہوا ہے جن کا کام ابھی تجرباتی مرحلہ میں تھا۔ ہمیں معلوم ہے کے پی ایچ ڈی کا کام ایک مخصوص دورانیہ میں مکمل کرنا ہوتا ہے، مزید اس کے لیے الاٹ کیا گیا فنڈ بھی مخصوص وقت کے لیے ہی جاری ہوتا ہے۔ اس حالت میں تحقیق سے جڑے طلبہ اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک رپورٹ کے مطابق جن محققین کا تجرباتی کام مکمل ہو چکا تھا ان کے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی شرح میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے لیکن ان کے لیے ایک دوسری مصیبت نوکری اور مستقبل کی بے چینی کی شکل میں سامنے آئی ہے کیوں کہ کووڈ بحران نے انڈسٹری اور سرکاری شعبہ جات دونوں کو متاثر کیا ہے۔ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح کے طلبہ بھی اپنے کورس کے سلسلے میں یا مختلف پروجکٹس کی شکل میں تحقیقی کام سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کا کام بھی حد درجہ متاثر رہا ہے۔
متفرقات
مندرجہ بالا بحث میں ہم نے کوشش کی ہے کہ کووڈ-۱۹ وبا اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے اثرات کا ایک مختصر خاکہ سامنے آ جائے۔ ان میں کچھ اور جہات کو شامل کر لینے سے تصویر مزید واضح ہو جانے کا امکان ہے۔ مثال کے طور پر یہ اثرات دنیا میں ہر جگہ یکساں نہیں رہے ہیں۔ جہاں مغربی ممالک میں، انفراسٹرکچر، صحت عامہ کے بہتر وسائل اور تحقیقی کام کی لبرل پالیسیوں کی وجہ سے سائنس کا کام کم متاثر ہوا ہے وہیں ہندوستان اور دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک میں تحقیق کا کام بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ یہاں کی سرکاریں آج بھی اداروں کو کھولنے کے معاملے میں بے اعتمادی کا شکار ہیں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ایک تحقیق شدہ امر ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین محققین کا کام کہیں زیادہ متاثر رہا ہے۔ اس کے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں جیسے گھریلو زندگی کی زیادہ ذمہ داری یا بچوں کی پرورش میں ماں کا کردار وغیرہ۔
سائنسی ادب کے بارے میں چند باتیں
سائنسی مواد یا ادب یعنی Scientific Literature سائنس کی دنیا میں علمی و تحقیقی کام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی بھی تحقیقی کام موجودہ ادب کے مطالعہ اور حوالہ کے بغیر نا ممکن ہے یعنی اگر کسی تجربہ کار کو کوئی نیا کام شروع کرنا ہے تو اسے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ متعلقہ موضوع یا اس سے منسلک کوئی بھی کام کتنا ہو چکا ہے اور اب اس نئے کام کی کیا معنویت ہو سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں محقق کے کام کا جواز موجودہ سائنسی لٹریچر ہوتا ہے۔ یہ ادب مختلف مجلوں کی شکل میں دنیا بھر میں یکساں طور پر مہیا ہوتا ہے لیکن اس کے لیے سبسکرپشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ سبسکرپشن اداروں کو دیے جاتے ہیں جن کی لاگت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرد کے لیے ان مجلوں سے استفادہ کے لیے محض انٹرنیٹ کنکشن کافی نہیں ہے۔ اس پس منظر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے طلبہ کی گھر واپسی کے ساتھ اس لازمی ادب سے استفادہ نا ممکن ہو گیا اور اس کا اثر وٹ لیب محققین اور ڈرائی لیب محققین دونوں پر یکساں پڑا۔
(مضمون نگار شعبہ کیمسٹری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرہیں )
***
***
سائنسی تحقیقات پر پڑنے والے اثرات دنیا میں ہر جگہ یکساں نہیں رہے ہیں۔ جہاں مغربی ممالک میں، انفراسٹرکچر، صحت عامہ کے بہتر وسائل اور تحقیقی کام کی لبرل پالیسیوں کی وجہ سے سائنس کا کام کم متاثر ہوا ہے وہیں ہندوستان اور دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک میں تحقیق کا کام بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ یہاں کی سرکاریں آج بھی اداروں کو کھولنے کے معاملے میں غیریقینی کیفیت کی شکار کا شکار ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021