امام ابو حامد محمد غزالیؒ
حقیقی روزہ کے لیے جو اعضا کو گناہوں سے روکتا ہے چھ آداب ملحوظ رکھنا ضروری ہیں۔
١۔ نگاہ کا روزہ
پہلا ادب یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو۔ جن چیزوں کی طرف نگاہ ڈالنا اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے، ان کی طرف نگاہ کو نہ جانے دو۔ جن چیزوں کو دیکھنے سے دل بھٹکتا ہو اور اللہ کی یاد سے غفلت طاری ہوتی ہو ان کو نہ دیکھو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نظر ڈالنا (ایسی چیزوں پر جن سے اللہ نے روکا ہے) شیطان کے تیروں میں ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے۔ جو کوئی اللہ کے خوف سے نگاہ بد سے رک جائے، اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ایمان کی حلاوت کا مزا عطا کرے گا۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ چیزیں ایسی ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک جھوٹ ، دوسرے غیبت، تیسرے چغلی ، چوتھے جھوٹی قسم اور پانچویں شہوت کی نظر‘‘۔
۲۔ زبان کا روزہ
دوسرا ادب یہ ہے کہ زبان سے بے ہودہ بات نہ کرو، جھوٹ نہ بولو، غیبت نہ کرو ، چغلی نہ کھاو، فحش گفتگو نہ کرو، ظلم کی بات نہ کرو، جھگڑا نہ کرو، اور بات نہ کاٹو۔ زبان کا روزہ یہ ہے کہ خاموش رہے، ان گناہوں سے بچے اور اسے اللہ کی عبادت اور تلاوت قرآن میں مشغول رکھے۔
سفیان ثوریؒ کہتے ہیں کہ غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مجاہدؒ نے کہا کہ دو چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے: ایک غیبت، دوسرے جھوٹ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے (گناہوں سے بچاو کے لیے)۔ تم میں سے کوئی روزہ سے ہوتو نہ فحش بکے، نہ بدکلامی اورفضول گوئی کرے نہ چیخے چلائے اور اگر کوئی گالی دے یا لڑنے پر اتر آئے تو کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں‘‘۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔ دن گزرنے کے ساتھ بھوک اور پاس کی شدت سے ان کی حالت خراب ہوگئی۔ انہوں نے حضورؐ کی خدمت میں آدمی بھیجا اور افطار کی اجازت طلب کی۔ آپؐ نے اس آدمی کو ایک پیالہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ ان دونوں سے کہنا کہ جو کچھ تم نے کھایا ہے اس پیالہ میں قے کردو۔ ایک عورت نے قے کی تو آدھا پیالہ تازہ گوشت اور خون سے بھرگیا۔ دوسری نے قے کی تو پیالہ پورا بھرگیا۔ لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ ان دونوں نے اس غذا سے روزہ رکھا جو اللہ نے حلال کی ہے اور جو چیز اس نے حرام کی ہے اسے کھاتی رہیں۔ ایک دوسرے کے پاس بیٹھیں تو دونوں نے لوگوں کی غیبت شروع کردی۔ دونوں نے لوگوں کا جو گوشت کھایا تھا، وہی گوشت پیالے میں ہے۔
۳۔ کان کا روزہ
تیسرا ادب یہ ہے کہ کانوں کو بری بات سننے سے روکو۔ اس لیے کہ جن باتوں کا زبان سے نکالنا حرام ہے، ان کا سننا بھی حرام ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کانوں سے جھوٹ سننے والوں اور حرام کا مال کھانے والوں کا ذکر ساتھ ساتھ فرمایا ہے
سَمَّعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّلُونَ لِلسُّحْتِ
’’یہ کان لگاکر جھوٹ سننے والے اور حرام کا مال کھانے والے‘‘
اسی طرح اس نے یہ بھی ارشاد فرمایا
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ
کیوں ان کے علما اور مشائخ انہیں گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے۔
غیبت سننا اور خاموش رہنا بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر تو تم بھی انہی کی طرح ہوئے۔ اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا: غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔
۴۔ اعضا کا روزہ
چوتھا ادب یہ ہے کہ ہاتھ پاوں اور دیگر اعضا کو گناہوں سے روکو اور افطار کے وقت ایسے کھانے سے بچو جس کے بارے میں حرام ہونے کا شبہ بھی ہو۔ اگر دن بھر تو وہ کھانا بھی نہ کھاو، جو حلال ہے اور افطار حرام کھانے سے کرو، تو کاہے کا روزہ ہوا؟ ایسے روزہ دار کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص محل تعمیر کرے مگر پورے شہر کو منہدم کردے۔ اگر ضرورت سے زیادہ کھایا جائے تو حلال کھانا بھی روح کے لیے مضر ہوتا ہے۔ اسی لیے روزہ کھانا کم کرنے کی تربیت کرتا ہے۔ وہ بہت بے وقوف ہوگا جو دوا تو زیادہ نہ کھائے کہ ضرر سے بچے لیکن زہر کھالے۔ حرام کھانازہر ہے جو دین کو برباد کرتا ہے، حلال کھانا ایک دوا کی طرح ہے جس کا کم کھانا مفید ہے اور زیادہ کھانا مضر۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزہ سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا‘‘۔ بعض کہتے ہیں یہ وہ روزہ دار ہے جو حرام کھانے سے روزہ افطار کرے۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ شخص مراد ہے، جو روزہ کے دوران طعام حلال سے تو رکا رہے لیکن لوگوں کا گوشت کھاتا رہے یعنی غیبت کرتا رہے جو حرام ہے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو اپنے اعضا کو گناہ سے نہ بچائے۔
۵۔ رزق حلال
پانچواں ادب یہ ہے کہ افطار کے وقت حلال کھانا بھی کم ہی کھاو۔ اتنا نہ کھاو کہ پیٹ پھول جائے۔ اس لیے کہ اللہ کے نزدیک حلق تک بھرے ہوئے پیٹ سے زیادہ نا پسندیدہ کوئی بھرجانے والی چیز نہیں، اگرچہ کھانا حلال ہو۔ شیطان پر غالب آنے اور شہوت کا زور توڑنے میں روزہ سے کیا مدد ملے گی اگر روزہ دار افطار کے وقت دن بھر کی بھوک پیاس کی تلافی کردے اور ایک وقت میں اتنا کھالے جتنا دن بھر میں کھانا تھا۔ افطار کے وقت کھانے کی انواع واقسام زیادہ ہوتی ہیں۔ چناں چہ رمضان کے دنوں میں اچھے اور نفیس کھانے اتنے زیادہ کھا جاتے ہیں کہ اور دنوں میں کئی مہینے بھی نہ کھائیں۔
ظاہر ہے کہ روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہش نفس کو قابو میں رکھنا ہے تاکہ نفس میں تقویٰ پیدا ہو۔ اب اگر کوئی صبح سے شام تک معدہ خالی رکھے، پھر لذیذ کھانوں سے خوب پیٹ بھر لے، تو نفس کی خواہشات اور لذتیں دو بالا ہوجائیں گی اور ایسی خواہشات بھی بیدار ہوجائیں گی جو روزہ نہ رکھتا ہو نہ ابھرتیں۔ بہتر یہ ہے کہ رات کو بھی اپنا پیٹ اتنا خالی رکھے کہ تہجد اور دیگر وظائف میں آسانی ہو ، شیطان دل کے پاس نہ آنے پائے اور عالم ملکوت کے دیدار سے فیض یاب ہوسکے۔ اگرچہ صرف پیٹ کا خالی رکھنا بھی کافی نہ ہوگا جب تک وہ اپنی فکر اور ارادہ کو اللہ کے علاوہ ہر مقصود سے خالی نہ کرلے۔
۶۔ خوف و رجا
چھٹا ادب یہ ہے کہ روزہ افطار کرنے کے بعد خوف و رجا کی کیفیت طاری ہو۔ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کا روزہ قبول فرمائے گا اور اسے مقربین میں شامل کرے گا۔ ساتھ ہی ڈرے کہ شاید اس کاروزہ قبول نہ کیا جائے اور وہ اللہ کے غضب کا مستحق ٹھہرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عبادت سے فارغ ہونے کے بعد یہی کیفیت ہونا چاہیے۔
یہ روزہ کے وہ چھ آداب ہیں جن کو ملحوظ رکھنے ہی سے روزہ حقیقی معنوں میں صحیح ہوتا ہے ۔ ابو درداؓ کہتے ہیں کہ عقل مند آدمی کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی خوب ہے اور بے وقوف آدمی کا روزہ رکھنا اور جاگنا بھی برا ہے۔ !کہا گیا ہے کہ یقین اور تقویٰ کے ساتھ ذرہ برابر عبادت، غلط کاریوں کے ساتھ کی ہوئی پہاڑ کے برابر عبادت سے افضل ہے۔ بعض علما نے کہا ہے کہ بہت سے روزہ دار در حقیقت بے روزہ ہوتے ہیں اور بہت سے بے روزہ، روزہ دار۔ بے روزہ روزہ دار وہ ہیں جو کھانے پینے سے تو رک جاتے ہیں لیکن اپنے اعضا کو گناہوں سے نہیں روکتے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ایک امانت ہے ، ہر ایک کو اپنی امانت کی حفاظت کرنا چاہیے‘‘۔ جب آپ ؐ نے یہ آیت پڑھی
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کردو‘‘ تو اپنے دست مبارک کو اپنے کان اور آنکھ پر رکھا اور فرمایا کہ کان سے سننا اور آنکھ سے دیکھنا بھی امانت ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اپریل 2022