روحانیت

نام کتاب : روحانیت
مصنف : ڈاکٹر محی الدین غازی
صفحات : 120
قیمت : 115
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی
مبصّر : سہیل بشیرکار

سماج کو تشکیل دینے والے ہر انسان کی خواہش حصولِ تسکین ہے۔ وہ ایسی زندگی گزارنے کا متمنی ہے جس سے اسے داخلی مسرت حاصل ہو؛ اس کے لیے وہ دنیا کے سبھی وسائل بروئے کار لاتا ہے، یہ بات مشاہدہ میں آتی ہے کہ اگر انسان کو دنیا کے سبھی وسائل دیے جائیں تب بھی اس کا اندرون سکون کی تلاش میں رہتا ہے۔ بنیادی طور پر انسان کو جب پیدا کیا گیا تو اس کو جہاں جسم دیا گیا وہیں روح بھی دی گئی، یہی روح ہے جو انسان کو انسانیت کے درجہ پر لاتی ہے، انسان کے لیے جہاں جسم کی ضروریات اہم ہیں وہیں روح کی ضروریات بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ روح کی ضرویات کیا ہے؟ اس کو کیسے غذا پہنچائی جائے؟ یہ ہمیشہ سے مصلحین کا موضوع رہا ہے، اس موضوع پر اکثریت افراط و تفریط کا شکار رہی ہے، کچھ کے نزدیک دنیا چھوڑنا ضروری ہے۔ کچھ کے نزدیک روحانیت نام کی اسلام میں کسی چیز کی گنجائش نہیں۔ اس موضوع کی مناسبت سے حال ہی میں ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کی کتاب ’روحانیت‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ پہلے یہ مباحث موقر رسالہ ’’زندگی نو‘‘ میں شائع ہوئے؛ جنہیں بعد میں ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے حذف اور اضافہ کے ساتھ کتابی شکل دی، کتاب کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں: ’’ روح اور روحانیت کی تعریف سے الگ ہٹ کر ہم روح کی معرفت کی راہ اختیار کریں گے۔ روح کی معرفت کا تجربہ کام یاب ہو جائے تو پھر اس کی تعریف کی زیادہ اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔ روح کی معرفت کا مطلب روح کی حقیقت کو جان لینا نہیں ہے ۔ روح کی حقیقت کا ادراک تو اس دنیا میں ناممکن ہے۔روح کی معرفت کا مطلب ہے روح کے بارے میں یہ جاننا کہ اسے کیا مطلوب ہے اور کیا نامطلوب ہے۔ وہ کون سی چیزیں ہیں جو اسے توانائی عطا کرتی ہیں اور کون سی چیزیں اسے لاغر وبیمار کردیتی ہیں۔‘‘(صفحہ 9)
روح کے تقاضے جاننا صرف اکیڈمک طور پر ہی ضروری نہیں ہے بلکہ یہ ایک مجبوری ہے کیونکہ اسی سے انسان کو سکون مل سکتا ہے، چونکہ جسم کا تعلق ظاہر سے ہے لہذا اس کا جاننا ضروری ہے جبکہ روح کا تعلق باطن سے ہے لہذا اس کا مشاہدہ اس دنیا میں ممکن نہیں، برادر محی الدین غازی لکھتے ہیں : ’’روح کی غذا کے تعلق سے ایک نکتہ یہ بیان کیا جا تا ہے کہ جسم مٹی سے بنایا گیا ہے اور اس کی غذا کا انتظام بھی زمین میں رکھا گیا ہے۔ جب کہ روح آسمان سے آتی ہے اس لیے اس کی غذا کا انتظام بھی خصوصی طور پر اللہ کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جسم کو زمین سے غذا اور طاقت ملتی ہے اور روح کو آسمان سے غذا اور طاقت ملتی ہے۔ غذا وحی کی صورت میں نازل ہوتی ہے۔
روح کو طاقت پہنچانے کے دوطریقے ہو سکتے ہیں ، ایک یہ کہ انسان کو روحانی غذا ملے اور دوسرے یہ کہ انسان روحانی ریاضت کرے۔ اسلام میں دونوں طریقے بہت اعلی توازن کے ساتھ موجود ہیں۔ جیسے ذکر روح کی غذا ہے اور روزہ روح کی ریاضت ہے ۔ نماز میں غذا بھی ہے اور ریاضت بھی ہے، وغیرہ۔ خاص بات یہ ہے کہ انسان کی روح کے لیے یہاں غذا بھی میسر ہے اور ریاضت بھی مہیا ہے۔ آگے کی تفصیل سے یہ حقیقت اور واضح ہوگی۔ ‘‘(صفحہ 47)-
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک روحانیت کی پہلی منزل روح کی طہارت ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع پر خوب بحث کی ہے، ڈاکٹر صاحب کے نزدیک روح کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ رہے تو جسم میں ہی مگر پاکی کے ساتھ، روح کی طہارت اللہ کو پسند بھی ہے اور بندوں سے اللہ کا تقاضا بھی یہی ہے اس سلسلے میں مصنف قرآن کریم اور ان احادیث سے قارئین کو آگاہ کرتے ہیں جس میں وضو، غسل کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ اس باب میں مصنف روح پاک کرنے کے طریقے بتاتے ہوئے ان اعمال کی تفصیل پیش کرتے ہیں جن سے روح پاک ہو جاتی ہے جیسے نماز، صدقہ، حج اسی طرح ان چیزوں سے بھی مختصر مگر جامع چیزیں بیان کرتے ہیں جن سے روح گندی ہوجاتی ہے جیسے حرام کمائی، جھوٹ اور گناہوں میں غرق رہنا۔ اگر بندہ کبھی گناہوں میں ملوث ہو جائے تو توبہ سے روح پاک ہوجاتی ہے، نیکیاں برائیاں مٹا دیتی ہیں، اسی طرح مصنف سمجھاتے ہیں چونکہ روح دل کے سب سے قریب ہوتی ہے لہذا دل پر نفسیاتی خواہشات کا ڈیرہ نہیں رہے، اسی طرح روح کی طہارت کے لیے نیت کا پاک رہنا بہت ہی ضروری ہے اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی پاک کیجیے۔ اسی باب میں مصنف نے احادیث کی روشنی میں روحانی طہارت کے طاقتور محرکات بیان کیے ہیں، مصنف کی تحریر ایسی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ دل سے نکلے ہیں اور دل پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ باب کا اختتام یوں کرتے ہیں: ’’نماز اللہ سے ملاقات کی تعبیر ہے اور وضو اس ملاقات کے لیے پاک ہو جانے کی علامت، اللہ سے ملاقات کی آرزو رکھنے والی روحیں اپنی پاکیزگی کے لیے فکر مند رہتی ہیں، کیونکہ اس عظیم سعادت کا پہلا زینہ روح کی طہارت ہے۔‘‘ (صفحہ 43)
اس باب میں مصنف نے ثابت کیا ہے کہ اسلام میں روح کی طہارت کے لیے نہایت طاقتور محرکات موجود ہیں۔
مصنف نے کتاب کے دوسرے باب میں روحانیت کی دوسری منزل’’ کے تحت لکھا ہے: ’’روح جسم پر حکومت کرے اس کے لیے جسم کو کمزور کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ جسم وروح دونوں کو طاقتور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ (صفحہ 45) مصنف نام لیے بغیر اس سوچ کی تردید کرتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ روح کے لیے جسم کو چھوڑنا پڑتا ہے؛ لکھتے ہیں :’’روح کی حکومت کمزور جسم پر اتنی شان دار نہیں ہو سکتی، جتنی صحت مند اور طاقت ور جسم پر ہوتی ہے۔ ‘‘جسم و روح دونوں کو طاقت ور کرنے کی ضرورت ہے۔ روح کی حکومت کسی بھی جسمانی وجود پر ہو، بہر حال مطلوب ومحمود ہے، تاہم روح کی پرشکوہ حکومت وہ ہوتی ہے جو دولت مند وجود پر، طاقتور وجود پر، چست اور پھر تیلے وجود پر صاحب اقتدار وجود پر اور صاحب علم و دانش وجود پر ہو۔ جسمانی وجود خواہ کتنی ہی زیادہ شوکت وسطوت والا ہو، روحانی وجود کو اس سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے تاکہ حکومت روحانی وجود کی ہونہ کہ جسمانی وجود کی۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر اور محبوب ہے کمزور مومن سے اور اچھائی سب میں ہے۔‘‘(صفحہ 46)
روحانی طاقت کے کرشمے بیان کرتے ہوئے مصنف نے صاحب عزیمت افراد کے واقعات درج کیے ہیں، عام طور پر یہ بات دیکھی گئی ہے یا کہی جاتی ہے کہ تحریکی افراد کے ہاں روحانیت کی کمی ہوتی ہے؛ مصنف لکھتے ہیں:’’یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ روحانیت اور تحریکیت میں تضاد نہیں ہے کہ روحانیت کی طرف دھیان بڑھے تو تحریکیت سے منھ موڑ لیا جائے ۔ روحانیت اور تحریکیت میں گہرا رشتہ ہے۔ تحریکیت روحانیت کو مقصد عطا کرتی ہے اور روحانیت تحریکیت کو منزل سے قریب کرتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ 65)
مصنف کتاب کے تیسرے باب میں روحانیت کی تیسری منزل کے تحت روح کی فرحت کے تحت سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر دنیا میں جسمانی لذتوں اور مسرتوں کا انتظام خوب موجود ہے تو روح کی خوشی کا انتظام کیوں دکھائی نہیں دیتا، پھر وہ سمجھاتے ہے کہ کس طرح جسم کی مسرت کا سامان آسانی سے میسر آجاتا ہے، اس کے لیے کسی جستجو کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ روح کی مسرت کا سامان جستجو کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ (صفحہ 67)۔مصنف بتاتے ہیں کہ کس طرح دنیا میں بھی روح کی جنت ہے، اس سلسلے میں وہ کئی لوگوں کے واقعات بیان کرتے ہیں، ساتھ ہی مصنف روح کی لذت جوکہ لافانی ہے کے لیے بیان کرتے ہیں کہ کس طرح قرآن روح کو مسرور کرتا ہے البتہ قرآن سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت ہے تبھی حلاوت ملے گی۔ ابن قیم کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ دل کے لیے اس سے زیادہ نفع بخش کوئی اور چیز نہیں کہ قرآن تدبر و تفکر کے ساتھ پڑھا جائے ۔ یہ وہ عمل ہے جو سالکوں کی تمام منزلوں ، عاملوں کے تمام احوال اور عارفوں کے تمام مقامات کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔ اس سے محبت شوق ، خوف، امید، انابت، توکل ، رضا، حوالگی ، شکر، صبر اور وہ تمام کیفیتیں حاصل ہوتی ہیں جن سے دل کی زندگی اور اس کا کمال ہے ۔ اسی طرح یہ عمل ان تمام صفات و افعال سے باز رکھتا ہے جو مذموم ہیں اور جن سے دل میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور دل کی موت واقع ہوتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ 74)
یہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری بار بار محسوس کرتا ہے کہ اس کے ایمان اور روحانیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مصنف نے کئی ایسے سچے واقعات بھی لکھے ہیں جن سے بندہ کی ایمانی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کتاب کے چوتھے اور آخری باب میں روح کی خدا سے قربت کیوں ضروری ہے بیان کیا ہے، روح کو اپنے رب کی بارگاہ میں باریابی مل جائے؛ مومن کی یہی تمنا ہوتی ہے اور آخرت میں وہ سب سے زیادہ خوش نصیب وہ ہوگا جسے اللہ رب العزت اپنے مقرب بندوں میں شامل کرے لیکن مصنف لکھتے ہیں کہ محبت سے سرشار روحیں اللہ کی مقرب بننے کے لیے آخرت کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اللہ سے قربت کی راہیں تلاش کرتی ہے، مومن اس دنیا میں دعا اور ذکر کرتا رہتا ہے، لوگوں کے کام آنے سے اسے حلاوت ملتی ہے۔
مصنف وحدت الوجود جیسے غیر فطری نظریہ کے تعلق سے لکھتے ہیں: ’’وحدت الوجود کے فلسفے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ سے قریب ہونے کے راستے سجھانے کے بجائے حلول و اتحاد کے جھوٹے احساس میں مبتلا کر دیتا ہے جس کے بعد بندہ خود اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے اس طرح بندہ اللہ سے قریب ہونے کے بجائے دور ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (صفحہ 103)۔
غرض مصنف کی یہ کتاب پڑھ کر جہاں قاری روحانیت سے قریب ہوتا ہے وہیں رہبانیت سے دور ہو جاتا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں’’ایسے تمام طریقوں کے لیے جو ایک مشترکہ نام ہوسکتا ہے، وہ رہبانیت ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی طرف یکسو ہونے اور اس سے قریب ہونے کی کوشش کی جائے ۔ اللہ کی طرف سے صاف اعلان کر دیا گیا کہ رہبانیت انسانوں کی ایجاد ہے۔ وہ ہرگز اللہ کو مطلوب نہیں ہے۔ اللہ کی مرضی تو یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ، اس کے تمدنی وتہذیبی عمل میں شریک رہتے ہوئے ،اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ۔ اسی کے لیے انسان کو زمین میں خلیفہ بنا کر بسایا گیا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں روح کو قرب الہی کا مسرت بخش احساس حاصل رہے، رب کریم کی طرف سے اس کا بھر پور انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے لیے دنیا سے باہر جانے یا دنیا سے رشتہ کاٹنے کی چنداں ضرورت نہیں کی۔‘‘ (صفحہ 105)کتاب کے خاتمہ میں وہ لکھتے ہیں کہ روحانیت روح کو آزادی سے ہم کنار کرنے اور اسے شوق عطا کرنے کا نام ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ روح کو کیسے آزاد کیا جائے؟ لکھتے ہیں:’’روح کی آزادی کے لیے نفس کی زنجیروں کو توڑنا ضروری ہوتا ہے ۔ جب زنجیریں ٹوٹتی ہیں تو روح کو آزادی کا نہایت فرحت بخش احساس ہوتا ہے اور اس کی قوت پرواز پھر سے لوٹ آتی ہے ۔ کائنات کی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے اور قرآن کی آیتوں پر تدبر کرنے کے لیے روح کا آزاد ہونا ضروری ہے ۔ آزاد روح ہی کائنات کا مشاہدہ کر سکتی اور قرآن میں غوطہ زن ہوسکتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ 114)
میرے خیال میں یہ کتاب تحریکی لٹریچر میں فی والواقع ایک اضافہ ہے اورخاص طور پر تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اسے لازماً پڑھنا چاہیے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022