ثمینہ شاہ نواز فلاحی
سوچیے! آپ نے ایک پودا لگایا، اسے محنت سے دن دن بھر سیراب کیا، رات رات بھر جاگ کر اس کی نگہداشت کی اور جب وہ پودا کچھ توانا ہوا تو اسے پانی دینا چھوڑ دیا پھر وہ مرجھا گیا۔ آپ کو اس کے پھولوں کی خوشبو بھی نہیں ملی اور اس کے فرحت بخش پھلوں سے بھی محرومی ہوئی۔ دانائی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس طرح شروع میں پودے کی دیکھ بھال اور خدمت کی اسی طرح بعد میں بھی کرتے۔
رمضان کا مبارک مہینہ گزر گیا۔ اس کے گزرنے سے بہت سے لوگوں پر افسردگی اور مایوسی طاری ہے، جیسے کوئی عزیز مہمان رخصت ہو گیا ہو اور بہت دنوں تک اس کے واپس آنے کی امید نہ ہو۔ جب کہ بہت سے لوگوں پر عجیب اطمینان طاری ہے جیسے ان کے ذمے کا کام ختم ہو گیا اور اب ان پر کوئی ذمہ داری نہیں رہی۔ یہ دونوں ہی کیفیتیں رمضان کی روح اور پیام کے منافی ہیں۔ رمضان اگر رخصت ہوا تو ایمان اور اس کے تقاضے، شریعت اور اس کے احکام، اللہ اور اس سے تعلق تو باقی ہے۔
رمضان حقیقت میں ایک سفر کا اختتام نہیں بلکہ ایک سفر کا آغاز ہے۔ رمضان انتہا نہیں ابتدا ہے۔ رمضان سب کچھ لے کر اور رب کی ساری رحمتیں اور برکتیں لپیٹ کر اپنے ساتھ نہیں لے نہیں جاتا ہے، بلکہ وہ تو بہت کچھ دے کر جھولیاں بھر کر اور نعمتوں سے مالا مال کر کے جاتا ہے۔ رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہوتا ہے، لیکن اس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ رمضان چلا گیا اب کیا کریں؟
سب سے اہم اور ضروری کام جس کے لیے کسی زمانے اور مقام کی قید نہیں، مگر رمضان اس کی تحریک اور تقاضا پیدا کرتا ہے اور اس کو آسان بنا دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑیں اور مضبوط جوڑیں۔ توبہ کی قرآن اور حدیث میں اس قدر ترغیب و تاکید ہے اور اس قدر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ایمان کے بعد وہ سب سے اہم چیز معلوم ہوتی ہے۔
قرآن میں ہے: وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور:31)
اے مومنو! تم سب اللہ کی طرف رجوع کرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحريم:8)
اے ایمان والو! اللہ کی طرف پلٹو اور سچی توبہ کرو۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ صرف ضرورت کی چیز اور مجبوری کا معاملہ نہیں ہے کہ جب آدمی کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو توبہ کرے نہیں! بلکہ توبہ تو ایک مستقل عبادت ہے یہ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے اور اللہ سے لو لگائے رکھنے کا نام ہے۔
رمضان کے بعد سب سے مقدم اور سب سے اعلی و افضل کام یہ ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور پھر توبہ واستغفار والی زندگی گزاریں۔ حدیث میں ہے کہ وہ شخص بڑا خوش نصیب ہو گا جو حشر کے دن اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے گا۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان ایک مرتبہ لے آنا کافی ہے اس کے بعد اس کو تازگی غذا اور تجدید کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایمان اسی طرح پرانا ہو جاتا ہے جیسے کپڑا پرانا ہو جاتا ہے۔ اس کو اجلا کرتے رہو، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اس کو کس طرح اجلا کریں فرمایا لا الہ الا اللہ کا کثرت سے ورد کرو۔ رمضان میں ایمان تازہ ہو جاتا ہے، اس کے بعد ایمان کی تجدید کا کام مسلسل کرتے رہنا چاہیے۔
رمضان المبارک کا بڑا تحفہ قرآن مجید ہے۔ رمضان تو سال بھر کے لیے رخصت ہوا مگر ہمیں اپنی سوغات سے مانوس کر گیا۔ ضروری ہے کہ رمضان کے بعد بھی ہم اس تحفے کو سینے سے لگائے رکھیں، اس کی تلاوت کرتے رہیں، اس میں تدبر کریں اور اس کے تمام تقاضے پورے کریں۔
بہت سے لوگ رمضان میں بڑی مستعدی کے ساتھ قرآن سنتے اور پڑھتے ہیں، مگر رمضان ختم ہوتے ہی اس کو طاق پر ایسا رکھتے ہیں کہ پھر اگلے رمضان ہی میں دوبارہ اتارتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی بڑی ناقدری اور ہماری بڑی نادانی ہے۔ رمضان اس لیے آتا ہے کہ آپ سال بھر اس کو پڑھتے رہیں۔ رمضان کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق باقی رکھیں، اس کی تلاوت اور اس پر غور و تدبر کریں۔
رمضان المبارک ہمدردی و غم خواری، امداد واعانت اور حسن و سلوک کا خاص مہینہ ہے۔ اس کو نیکی اور مواسات کا مہینہ کہا گیا ہے۔ اس کے جانے کے بعد بھی ہمیں اس شعبہ کو زندہ رکھنا چاہیے اور ان لوگوں کی خبر لیتے رہنا چاہیے جو ہماری مدد کے مستحق ہیں۔ رمضان گزرنے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت، غربا پر ترس اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کی کوشش ہونی چاہیے۔ یہ سارے وہ کام ہیں جو رمضان کے بعد بھی جاری رہنے چاہئیں اور جن کے لیے رمضان ہمیں خاص طور پر تیار کر کے جاتا ہے۔
رمضان میں ہماری زبانیں بہت سی برائیوں سے پاک رہتی ہیں۔ غیبت، چغل خوری، گالم گلوج، فحش اور بے حیائی کی باتیں وغیرہ۔رمضان کے بعد اگر یہ سب غلاظتیں دوبارہ ہماری زبانوں پر لوٹ آئیں تو یہ بڑی بد نصیبی کی بات ہے۔ ہم نے رمضان میں اپنی زبانوں کو اللہ کے ذکر کا عادی بنایا تھا، اب ہماری سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ اپنے دل اور زبان کو ذکرِ الہی سے تر رکھیں اور لسانی گندگی سے دور رہیں۔
رمضان کے ساتھ عید کا پیغام بھی یاد رکھیں۔ عید ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم رمضان کے مہینے کی طرح پورے سال بھر اللہ کی بڑائی بیان کریں، اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں۔ پیارے رسولﷺ کی سنتوں پر عمل کریں۔ جس نے عید سے یہ پیغام لیا، اللہ کے نزدیک اس کا ہر دن عید کا دن ہو گا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 01 تا 07 مئی 2022