ایاز احمد اصلاحی، لکھنو
علم، اجتہاد، مخلصانہ جدوجہد اور روح جہاد اس کا شعور کتابی علم سے نہیں مومنانہ کردار سے ملتا ہے۔ جو فرق اس میں ہے وہی فنکارانہ ( یا مقررانہ) ملمع بازی اور قائدانہ شان میں ہے، وہی مومنانہ عزیمت اور منافقانہ مداہنت میں ہے اور وہی روح اذان اور رسم اذان میں ہے۔ یہ معمولی فرق نہیں ہے، یہ زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلی چیز جس سیہ بخت قوم کا نصیب بنتی ہے وہ اپنا مادی وجود رکھنے کے باوجود حیات و ناموس حیات دونوں سے محروم رہتی ہے جب کہ جس قوم کا امتیاز دوسری چیز بنتی ہے وہ ایک زندہ و ثابت قدم قوم بن کر ابھرتی ہے۔
جی چاہتا ہے رمضان مبارک کی پر سعادت ساعتوں میں سے چند لمحے اسی بات کی مختصر وضاحت پر صرف کروں۔ یاد رہے رمضان جس طرح روزوں کا اور نزول قرآن کا مہینہ ہے اسی طرح وہ معرکہ بدر کا شاہد بھی ہے جو یوم فرقان کی شکل میں آج ہی کے دن ( یعنی 17 رمضان 2 ہجری بمطابق 13 مارچ 624ء کو) رونما ہوا تھا اور دنیا کو دکھا دیا تھا کہ ان چیزون میں کتنا واضح فرق ہے۔
اسلامی کردار اپنے دو بنیادی عناصر ترکیبی سے تشکیل پاتا ہے،ایک ایمان باللہ ہے اور دوسرا انکار غیر اللہ ہے۔ ان بنیادوں پر جس انسان کی صورت گری ہوتی ہے وہی وہ انسان کامل ہے جو مرد مومن کہلاتا ہے۔ بے شک بدر جیسے معرکوں میں ایسے ہی کردار کے لوگ ثابت قدم رہ پاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ایسی رزم گاہیں ہوتی ہیں جہاں اللہ پر ایمان کا زبانی اقرار کافی نہیں ہوتا بلکہ یہاں تلواروں کے سائے میں انکار کے تیور بھی دکھانا پڑتا ہے، یعنی غیر اللہ کی مرضی کے سامنے جھکنے سے انکار کرنا پڑتا ہے۔ کسی شخص کے ہاتھ میں شمشیر ہو یا قلم دونوں چیزیں وہی جوہر دکھاتی ہیں جو اس کی شخصیت میں رچا بسا ہوتا ہے۔ لیکن جس کی صورت گری ان دو بنیادوں پر مکمل ہوتی ہے اس میں کوہستانی عزیمت و جفاکشی کے ساتھ ایک ایسا اجتہادی شعور بھی ہوتا ہے کہ وہ رزم یا بزم جہاں بھی ہو وہاں ایمان کی چنگاری ہمیشہ روشن نظر آتی ہے۔ اسے اپنی شناخت کے لیے کبھی خارجی روشنی کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ تو خود ایک روشنی ہوتا ہے جو اس کے ہمراہ رہتی ہے۔ وہ کبھی بدر کبری میں یوم "فرقان” تو کبھی مکہ میں "فتح مبین” بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بندہ مومن اپنی شان فقیہانہ فتووں کی چمتکاری سے نہیں دکھاتا اور نہ ہی نئے پرانے عجوبوں کی نمائش سے مداریوں کی طرح لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے، بلکہ وہ نازک ساعتوں میں اپنے بے خوف مومنانہ طرز عمل سے اجتہاد کے دروازوں پر دستک دیتا ہے اور جب بھی اس کی ملت ازمائشوں سے ٹکراتی ہے وہ اپنی اذان توحید سے اسے جہاد اور جدوجہد کی طرف بلاتا ہے۔ جہاں جہاد کا تقاضا ہو وہاں اجتہاد کے نام پر شوسہ بازی کرکے فرار کی راہ اختیار کرنا، جہاں وقت کے شاہوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کا موقع ہو وہاں غیر متعلق تعبیرات میں پناہ ڈھونڈنا اور جہاں باطل پر سیدھا وار کرنا ضروری ہو وہاں
غلط فہمیوں کے ازالہ کی آڑ میں مداہنت کا راستہ اپنانا اس کا شیوہ نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ باطل نہ تو حق کو برداشت کرتا ہے اور نہ اسے انعامات سے نواز سکتا ہے، وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوتا ہے کہ منکرین حق اور دشمنان حق سے تمغے اور انعامات حاصل کرنا کبھی اہل حق کا ہدف نہیں ہو سکتا، کیونکہ جس حق پر باطل مہربان ہو اس کا حق ہونا ہی غیر معتبر ہوجاتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہر ایسی تاویل جو اسلام کی روح کے منافی ہو اور ہر ایسی شرح جس کے غبار کے نیچے سچ کے دب جانے کا اندیشہ ہو اور گریز کی ہر وہ روش جو خوف سے آواز حق کو دھیمی کرنے کے حق میں ہو یا اہل سطوت کو راضی کرنے کے لیے ہو وہ کبھی "اننی من المسلمین” کا اعلان کرنے والے انسان کی پسندیدہ راہ نہیں ہو سکتی۔ امام غزالی نے ایسے علماء کو "علماء دین اللہ” کی فہرست سے خارج کیا ہے "جو علم فقہ و فتوی میں غرق ہوتے ہیں اور اسے لے کر خود کو صاحب اقتدار کی خدمت میں لگا دیتے ہیں، ان کے درمیان خود کو نمایاں کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس طرح ان سے رتبے اور نوازشات کے طالب رہتے ہیں”۔
امام مالک نے ہوس کے ایسے بندے سے دین کا علم و فہم لینے سے ہمیں صاف منع کیا ہے جو ہوس کا پرستار ہو اور اپنی من گھڑت خرافات کی طرف لوگوں کو بلاتا ہو۔
ظاہر ہے اس اخلاقی گراوٹ کا وہ نظریہ توحید اور ابراہیمی و محمدی تصور حیات متحمل نہیں ہوسکتا جس کے نزدیک خالق کی مرضی پر اس کی مخلوقات کی مرضی کو ترجیح دینا کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے۔ یہ وہ جہان توحید ہے جہاں حق کی بے کم و بیش شہادت اور سچ کا کما حقہ اعلان اپنے ماننے والوں کو زندگی کی نئی رمق عطا کرتا ہے اور اس سے گریز کرنے والوں اور مداہنت برتنے والوں، دونوں کی قسمت میں ذلت و خواری لکھتا ہے۔
اب آئیے ایک قدم اور آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ بندہ مومن کی قائدانہ شان پر بزدلانہ فنکاری کا رنگ کیوں نہیں چڑھ پاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اجتہادی شعور اور مجاہدانہ شان رکھنے والا شخص بنیادی طور سے ایک جری و بے باک انسان ہوتا ہے، وہ نہ تو باتیں بنانا جانتا ہے اور نہ ہی کسی مرحلے میں حق کے بالمقابل باطل کو۔قبول کرتا ہے۔ وہ حکمت و دانائی کا ہتھیار اپنے پاس ضرور رکھتا ہے لیکن وہ اس کا استعمال غلط فہمیوں کے ازالہ کے نام پر اپنا یا اپنے دین کا یا اپنے کسی دینی شعار کا حلیہ بگاڑنے کے لیے نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کفر و طاغوت کے طوفانوں کے دباؤ میں اپنا رخ بدلتا ہے۔ یہ تو وہ قدوسی و قہاری ہے کہ ایک طرف اس کے اجتہاد میں ضرب مومن کی شان ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کا اقدام جہاد بھی ضرب مومن کی دھار لیے ہوتا ہے۔ گویا اس کا اجتہاد اور جہاد دونوں مداہنت اور پست ہمتی سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ جہاں معرکہ علم و حکمت میں اس کی بے باک زبان و قلم اپنا فرض ادا کرتی ہیں وہیں رزم حق و باطل میں وہ اپنی تمام تر قوت مزاحمت کے ساتھ اپنی امت کے دفاع میں سر بکف رہتا ہے ۔ یہ وہ امتیازی کردار ہے جس کی ہمیں آج کے ہندوستان میں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
اسی طرح ہر معتبر و مضبوط قیادت کا پہلا ہتھیار اس کا وہ عظیم نظریہ ہوتا ہے جو اسے لے کر بڑھنے والے قائد اور اس کے عام تابع داروں کے قدموں میں ثابت قدمی ہی نہیں ان کی رگوں میں برقی حرارت و اضطراب پیدا کرنے کا کام کرتا ہے۔ جہاں قیادت کی یہ شان ہو گی وہاں نظروں میں اپنی فکر بدلنے کی بجائے فضا بدلنے کا ہدف ہوتا ہے اور ہر ایسی جگہ جہاں اللہ کی کبریائی کا اعلان اہل شرک پر گراں گزرتا ہے، ان کی کوششیں رسم اذان، شرح اذان اور ترجمہ اذان پر نہیں بلکہ روح اذان پر مرکوز ہوتی ہیں۔ بندہ مومن کی یہ اذان شبستان وجود پر لرزہ طاری کرنے کے لیے اور ایمانستان وجود کو بیدار و تازہ دم کرنے کے لیے ہے، یہ نہ تو کسی ترجمے کی محتاج ہے اور نہ کسی لاؤڈ اسپیکر کی۔ اسے تو بس وہ داعیانہ کردار چاہیے جو زنجیروں کی قید اور باطل کی پابندیوں کے سامنے بھی "من احسن قولا ممن دعا الى الله” کا مصداق ہو۔ یہ زندہ کردار اگر آج کے ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں حرکت میں آجائے تو دیکھتے دیکھتے سب کچھ بدل سکتا ہے، سیاہ رات سحر بن سکتی ہے، آتش نمرود بردا و سلاما بن کر ٹھنڈی پڑ سکتی ہے اور طوفانی لہریں ہمارے پیروں پر سر جھکا سکتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بدر کبری کی کشکمش میں حق فتح یاب ہوکر ہم تک کبھی نہ پہنچتا اور ایک ۲۵ سالہ اکیلی مسلم ہندوستانی طالبہ مسکان کی زبان سے اللہ اکبر اللہ اکبر کی پکار عربی سے نا بلد ایسے وحشی و بے رحم بھیڑیوں کو پیچھے نہ دھکیل پاتی جو اس کے خون کے پیاسے اور اس کا حجاب نوچنے کے درپے تھے۔
بدر سے بالا کوٹ تک مسلمانوں کے لیے یہی پیغام ہے اور اس پیغام کی ایک موثر ترسیل علامہ اقبال کے اس شعر نے بھر پور طریقے سی کی ہے:
فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
ان باتوں کی یادہانی ہمیں اس دن سے بڑھ کر اور کون سا دن کر سکتا ہے جسے ہم یوم بدر کے نام سے جانتے ہیں، آج ہی کے دن اہل اسلام اور اہل کفر کے بیچ وہ پہلی جنگ واقع ہوئی تھی جس نے عالم انسانی کی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا اور قائد انسانیت کی سر براہی و سپہ سالاری میں انسانیت کو ایک ایسی دھارا پر ڈال دیا جو ظلم و نا انصافی اور طاغوت کی طغیانی کے علی الرغم بہتی ہے۔ یہی وہ دن تھا جس نے ہمیشہ کے لیے یہ طے کردیا تھا کہ اب اسلام مکہ و مدینہ تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی نظریاتی سرحدیں مصر سے مراقش تک اور کابل سے کاشی تک ہی نہیں بلکہ ان سے بھی کہیں آگے تک پہنچیں گی۔ یہی وہ دن تھا جب رسول اللہ نے اپنے رب سے رو رو کر یہ دعا کی تھی کہ ” اے اللہ تو وہ وعدہ پورا فرما جو تو نے مجھ سے کیا ہے” اور اے میرے رب ” اگر یہ (تیرا نام لینے والی) مختصر جماعت آج مٹ گئی تو پھر (یہاں) تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا” (مسلم)۔ اور بالآخر اللہ تعالی نے اپنا وہ وعدہ پورا کیا جس کی بشارت اپنے رسول کو کچھ اس طرح دی تھی: (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ (سورہ قمر 45)۔ یہی وہ خاص دن تھا جب اہل کفر نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ قبل اس کے کہ اسلام یثرب میں ایک ناقابل تسخیر قوت کی شکل اختیار کر لے اسے صفحہ ارضی سے مٹا کر ختم کردینا ہے، لیکن کفر کے اس تہیے پر اہل ایمان کا یہ یقین و ارادہ غالب آ گیا کہ بالآخر نور حق ظلماتی قوتوں پر بھاری ہوکر رہے گا اور شہادت گہ بدر میں جان و مال کی ہر قربانی دے کر وہ اس دین کی حفاظت کریں گے جو حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کرنے کے لیے اتارا گیا ہے۔ یہی یقین مرد مومن کی اصل پونجی ہے جس کا سب سے بڑا گواہ میدان بدر ہے جو حق و باطل کا پہلا بڑا معرکہ اور تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ انسانیت کا سب سے فیصلہ کن غزوہ ہے۔
اس غزوہ نے اہل ایمان کے دامن میں جو سب سے بڑا ثمرہ ڈالا وہ یقین و ایمان کی وہ گہرائی اور عزم و ارادہ کی وہ بے مثال پختگی ہے جو کلمہ شہادت لا الٰہ الا اللہ۔۔۔ نے مسلمانوں میں پیدا کی لیکن بدر نے اسے نقطہ عروج پر پہنچا دیا تھا۔ ۱۷ رمضان کو واقع ہونے والے غزوہ بدر کی عظیم فتح فتح مکہ کی پہلی تمہید تھی جو اتفاق سے اسی ماہ مبارک ۲۰ تاریخ کو مسلمانوں کا مقدر بنی، یہ نصرت الہی کا وہ کرشمہ تھا جس نے کفر و اسلام کے درمیان جنگ کا نقشہ ہی نہیں اسلام کے تعلق سے انسانوں کا نظریہ بھی بدل دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پورے عرب کو اسلام کے سامنے سرنگوں کرنے والی فتح مکہ کو جہاں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں "فتح مبین” کہا ہے وہیں جنگ بدر کی فتح کو "یوم الفرقان” ( حق و باطل کا فرق واضح کرنے والی اور یوم فیصل) کہا ہے۔
اس عظیم فتح نے مسلمانوں کے عزم و اعتماد اور عام انسانی ذہنوں پر کتنا گہرا اثر مرتب کیا تھا اس کا اعتراف مسلم مورخین نے ہی نہیں خود یورپی مورخین نے جا بجا کیا ہے۔ اس فتح نے کون سا فرق پیدا کیا، ہمیں اس فرق کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن بدر نے یقین کی اضافی دولت کی شکل میں مسلمانوں کے کردار کو جو تاریخی امتیاز بخشا اس کا اندازہ یورپی مورخین کو بخوبی ہے، چنانچہ مستشرق عالم جوزف ہیل بدر کے گہرے اثرات کے اس پہلو کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے لکھتا پے: ” بدر کی فتح۔۔۔اس کا سب سے بڑا اثر خود محمد (ص) اور ان کے ساتھیوں کے اندر پیغمبرانہ کام کے تعلق سے یقین کی گہرائی اور پختگی کا پیدا ہونا ہے۔ یہ برسوں مصائب اور مشقتیں سہنے کے بعد ایک حیرت انگیز فتح کا حصول تھا، یہ فتح ( اسلام کا) غلغلہ پیداکرنے والی تھی ” ۔ امریکی مصنف پی کے حتی لکھتا ہے: "فوجی لحاظ سے یہ جنگ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس دنیا میں محمد کے اقتدار کی بنیاد رکھ دی۔ اسلامی تاریخ کے اس پہلے معرکہ میں نظم و ضبط اور جانی قربانی کا ایک بے مثال مظاہرہ کیا گیا جس نے اسے ایک امتیازی شکل میں بعد میں پیش آنے والی فتوحات میں قائم و باقی رکھا”
(PK Hitti, History of The Arabs:127)
. مورخ ٹور اینڈر (Tor Andree) کہتا ہے، "ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ایک معمولی اور چھوٹی جنگ اس قدر دور رس نتائج کی حامل ہو۔ اس کے اخلاقی اثرات و نتائج کو بہ مشکل ہی بیان کیا جا سکتا ہے”
(Mohammad, The Man and His faith: 246)
غور کرنے کا پہلو یہ ہے کہ بدر میں مسلمانوں نے اپنے برابر یا اپنے سے کمزور گروہ کو شکست نہیں دی تھی، بلکہ ان کا مقابلہ ایک انتہائی طاقت ور اور ظالم اکثریت سے ہوا تھا۔ لیکن ان کے گہرے یقین اور اپنے دینی وجود سے ان کی مخلص و بے لوث محبت کی طاقت کا کرشمہ دیکھیے کہ بدر میں وہ ہوا جس کا دشمنوں کو کچھ اندازہ بھی نہ تھا۔ مسلمان جو اس وقت تک ایک ناقابل ذکر اور معمولی گروہ تھے وہ اللہ کی نصرت اور اس کی بخشی ہوئی آسمانی قوت سے حقیقت میں ایک ناقابل شکست طاقت بن گئے اور آگے چل کر اپنے زمانے کے دو بڑے سامراج روم و فارس کو سرنگوں کرکے دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ کوئی ملت خواہ کتنی ہی کم اور کمزور ہو جب وہ یقین کی طاقت اور رب العالمین کی نصرت کے ساتھ حالات سے نبرآزما ہوتی ہے تو جیت اس کا ہی نصیب بنتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ اپنے نظریے کی صداقت اور خدا کی طاقت پر اس کا یقین و اعتماد کبھی متزلزل نہ ہو۔ یہ امت خیر مظالم سے نجات کے لیے اپنے رب سے "متی نصر اللہ” کی دعا تو کر سکتی ہے لیکن باطل کی مسلسل یلغار سے گھبرا کر وہ غیر اللہ کو راضی کرنے میں لگ جائے یہ ناموس اسلام اور غیرت توحید کے منافی ہے۔ یہ وہ عملی و اخلاقی شرک ہے جس کی دین توحید میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ جہاں معرکہ بدر ہوگا، جہاں حق کی فتح یابی پر یقین کامل ہوگا، جہاں ایمان کفر سے اللہ کی راہ میں بر سر جہاد ہوگا، جہاں بلال ہوں گے اور بلال کی اذان ہوگی وہاں اہل حق خواہ ظاہری و مادی طور سے کتنے ہی کمزور ہوں آخری جیت ان کی اور ان کے دین کی ہی ہوگی۔ کفر و شرک پر چاہے جتنا گراں گزرے، زمین سے آسمان تک کلمة الله کی ہی بازگشت سنائی دے گی اور یہ دنیا اس آیت کی عملی تعبیر کا منظر بار بار دیکھے گی: "وَلقد نصرَکم اللہٌ ببدر و أنتم اذلة”- (اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب کہ تم پست و کمزور تھے ) (سورہ آل عمران: ۱۲۳)۔۔۔
حالات سے عبرت حاصل کی جائے اور تاریخی لمحوں سے سیکھا جائے تو رمضان کی سعید ساعتوں کی طرح ہر دن ہمارے لیے عبرت و نصیحت بن کر ظاہر ہو سکتا ہے اور ہر لمحہ ہمارے لیے ایک لائحہ عمل کی روشنی فراہم کر سکتا ہے۔ اس رمضان میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یوم فرقان کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 01 تا 07 مئی 2022