رمضان: ماہ تربیت

نفسانی خواہشات پر کنٹرول کے بغیر خوشنودی رب ممکن نہیں

انس اسرائیلی،احمدآباد

رحمتوں کا مہینہ، برکتوں کا مہینہ، مغفرت کا مہینہ رمضان المبارک ہمارے اوپر نور کی چادر لیے کھڑا ہے۔
ایک مومن صادق جو مغفرت کا متلاشی ہو، جو رحمت کا خواہاں ہو، رمضان کا انتظار بالکل ویسے ہی کرتا ہے جیسے عشق میں ڈوبا ہوا دل اپنے محبوب سے ملاقات کے لیے کرتا ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رجب کے چاند کا دیدار کرتے ہی رمضان کے قرب کی دعائیں کرنے لگ جاتے تھے۔ رمضان کے استقبال کے لیے روزوں میں کثرت اور عبادات میں زیادتی فرما دیتے تھے۔ (اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان) کا ترانہ آپ کے لبوں پر جاری ہو جاتا تھا۔۔ اور کیوں نہ ہو جبکہ جنتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اس کے راستے آراستہ کر دیے جاتے ہیں، شیاطین کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دی جاتی ہیں۔ جہنّم کو سیل کر دیا جاتا ہے تو ایک ماحول بنتا ہے نور کا، نورانیت کا، جس کے سبب عبادت میں حلاوت آنے لگتی ہے، راتوں کو جاگنا لبھاتا ہے اور خدا کے سامنے کھڑے ہو کر کلام اللہ کا ور دکانوں کو محظوظ کرتا ہے، خدا سے راز ونیاز کی باتیں کرنے میں خدا سے قربت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اور ماحول بنتا ہے صبر کا: صبر بھوک پر، صبر خواہشات پر، صبر لذتوں پر، صبر مال کی محبت پر،
بندہ بھوکا رہتا ہے حالانکہ مرغوب چیزیں پاس ہوتی ہیں لیکن بندہ پیٹ بھرنے پر بھوکا رہنے کو ترجیح دیتا ہے، حلال مشروبات ہیں لیکن لبوں سے دور ہیں، تو پھر کیوں نہ بھائے وہ بدبو اس خدا کو جس خدا کی خاطر بنده یہ سب کچھ کر رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب معدہ خالی ہوتا ہے تو منہ سے ایک طرح کی بد بو نکلتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ روزے دار کے منہ سے نکلنے والی بد بو اللہ کے یہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ روزہ ایک راز ہے جو خدا اور اس کے بندے کے درمیان رہتا ہے۔ بقیہ عبادات میں انسان ریا کاری کر سکتا ہے لیکن یہ واحد ایسی عبادت ہے جو خدا کے خوف کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی ہے۔
بتائیے وہ کون سی شے ہے جو تاریکی میں سامنے موجود مرغوبات کو استعمال کرنے سے روکتی ہے اور وہ کون سا ڈر ہے جو تنہائی میں انسان کے آڑے آجاتا ہے۔ وہ وہی راز ہے جو خدا اور اس کا بندہ جانتا ہے۔ اس کا دل اس راز کو محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ فرماتا ہے كہ انسان کا ہر عمل اس کے خود کے لیے ہے سوائے روزے کے تو وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہے سوائے روزے کے چونکہ وہ میرے لیے ہے تو اس کا بدلہ بھی میں ہی دوں گا۔
لیکن کبھی سوچا کہ آخر کیا وجہ ہے جس کے سبب یہ ماہ بارگاہ الہی میں خاص قرب کا حامل ہوا؟ رب ذوالجلال نے اپنے کلام کے نزول کا ارادہ فرمایا تو کیوں اس نے اس ماہ کا انتخاب کیا؟ کیوں اس ماہ میں بندوں کے اعمال کا وزن بڑھا دیا گیا؟
دراصل تربیت کامیابی کی راہ کا پہلا زینہ ہے۔ تربیت کے بغیر زندگی بے ترتیب ہوتی ہے ۔اگر ایک گھوڑا تربیت سے عاری ہو تو اس کا مالک اس کو میدان تو دور اصطبل میں بھی زیادہ دن رکھنا گوارا نہیں کرے گا جب کہ وہی گھوڑا اگر تربیت پا جائے تو اس کا مالک اس پر فخر کرے گا، جیسے تربیت یافتہ کتا اپنے اور مالک کے شکار میں فرق کرنے لگ جاتا ہے جیسے ایک پرندہ اگر تربیت پا جائے تو خبر رسانی اور پیغامبری کا فریضہ انجام دینے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ایک انسان اپنی لذتوں پر غلبہ پانے کی تربیت حاصل کر لے تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی زندگی کو منظم کر سکتا ہے بلکہ دنیا کے لیے ایک داعی، ایک ناظم، ایک مصلح اور ایک فاتح بن سکتا ہے۔
اپنی مرضی کی زندگی جینے والے خواہشات کی پیروی کرنے والے، خیر وشر کی تمیز سے عاری لوگ دنیا میں کچھ دن کی ہلچل کا مزہ تو لے سکتے ہیں لیکن دنیا کو کوئی پیغام دے سکتے ہیں اور نہ دنیا کے کسی میدان میں اپنی چھاپ چھوڑ سکتے ہیں،
اسی لیے ضروری ہوا کہ مسلمانوں کی تربیت کے لیے ایک لائحہ عمل بنایا جائے جس میں خواہشات سے لڑنے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کی پریکٹس کرائی جائے: غلبہ بھوک اور پیاس پر، غلبہ حب مال پر، غلبہ خواہش نفسانی پر، اور روزہ ان سب شہوتوں پر غلبہ پانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ابھی نکاح کرنے کی حیثیت اپنے اندر نہ پائے اس کو چاہیے کہ وہ روزہ رکھے کہ روزہ ایک ڈھال کا کام کرتا ہے۔
اللہ رمضان کے روزوں کے ذریعے مسلمانوں کو حلال سے روکنے کی مشق کرواتا ہے تاکہ ما بعد رمضان بندے کے لیے حرام سے رکنا آسان ہو جائے۔ بس اسی کا نام تقوی ہے۔
رمضان کریم کے ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندے کے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہتا ہے کہ دنیا سے لطف اندوزی حکم الہی کے تابع ہے کہ جب تم سے کھانے کو کہا جائے تو کھا لو اور جب روکا جائے تو رک جاؤ بعینہ جو کھانے کو کہا جائے وہی کھاؤ جس سے روکا جائے اس سے رک جاؤ۔ پس جب رکنے کو کہا جائے تو رکنا عبادت ہو گا اور جب کھانے کو کہا جائے تو کھانا عبادت ہو گا۔
لیکن یہ احکامات اور یہ خیر وشر کی تمیز، یہ معاصی اور ملاہی کی فہرست ہمیں کون دے گا۔ اس کے لیے اللہ عز وجل نے قرآن کریم کا انتظام کیا کہ یہ سب کچھ ہمیں خدا کے نازل کردہ قوانین میں ملے گا جس کا نام قرآن کریم ہے۔ کیونکہ قرآن کے تعارف میں اللہ فرماتا ہے هدی للناس وبينت من الهدی والفرقان۔
اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنے کلام کے نزول کے لیے رمضان المبارک کا انتخاب کیا تاکہ قرآن ہمیں بتائے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں اور رمضان ہمارے لیے قرآن کی ہدایت پر چلنے کا ماحول عطا کرے ۔ اس طرح رمضان اور قرآن سے مل کر ایک سچا مومن بننے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے لیلة القدر کو ہزار ماہ سے بہتر بنا دیا اس لیے کہ یہی وہ رات ہے کہ جس میں قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ ہوا اور اس ایک فیصلے نے انسانیت کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا۔ اسی ایک فیصلہ کے بعد انسان خیر وشر کی تمیز کرنے کے قابل بن گیا ۔
اللہ انسان کے اوپر رمضان کے ذریعہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا وہ تو انسان کو شکر گزار بنانا چاہتا ہے۔ اتنے احسانات کے بعد بھی کوئی اس کا شکر نہ کرے تو اس کی خدائی میں کیا حرج واقع ہو گا؟ یقینا کچھ بھی نہیں۔ نفع اور نقصان تو انسان کے لیے بنائے گئے پیمانے ہیں خدا کے لیے نہیں، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بنائے گئے پیمانوں سے خود کا جائزہ لے اور حقیقی نفع ونقصان جو کے مرنے کے بعد معلوم ہو گا اس کی تیاری کرے۔
اللہ ہم سب کو رمضان سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 تا 16 اپریل  2022