رمضان المبارک میں اسلاموفوبیا کی نئی لہر

بیت المقدس سے سوئیڈن تک کئی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے بغض وعناد کا اظہار

مسعود ابدالی

آزادی اظہار کے نام پر مذہب کی توہین۔خدا کے باغیوں کی قرآن سوزی جیسی گھناونی حرکتیں
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی رمضان المبارک دنیا بھر کی مسلم اقلیتوں کے لیےآزمائشوں کا پیغام لایا ہے۔گزشتہ کئی ہفتوں سے القدس شریف میں اسرائیلی سپاہی دندناتے پھر رہے ہیں۔ آفرین ہے فلسطینیوں پر جنہوں نے بدترین تشدد اور پکڑ دھکڑ کے باوجود قبلہ اول کو پوری آب و تاب کےساتھ شادو آباد رکھا ہوا ہے، پانچوں وقت نماز کے ساتھ نماز تراویح بھی جاری ہے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور گولوں کے دھماکوں میں خوش الحان قاری اللہ کا کلام سنارہے ہیں۔ بیت المقدس میں درندگی کےساتھ اہل غزہ پر آتش و آہن کی برسات بھی جاری ہے۔
اسی کےساتھ سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے۔ رقبے کے اعتبار سے شمالی یورپ کے اس سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کا تناسب6 فیصدہے۔ ان اعدادو شمار کو حقیر نہ سمجھیں کہ دوتہائی سے زیادہ آبادی خود کو ملحد یا کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں سمجھتی اور 25 فیصد مسیحیوں کے مقابلے میں 6 فیصد بہت چھوٹی تعداد نہیں۔سوئیڈش معاشرہ پرامن بقائے باہمی اور برداشت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دوسال پہلے جب جنوبی سوئیڈن کے اسکولوں میں بچیوں کے اسکارف اوڑھ کر کلاس میں آنے پر پابندی لگائی گئی تو مقامی عدالت نے از خود نوٹس لے کر پابندی کو غیر آئینی قراردےدیا تھا۔
مسلمانوں کو صدمہ پہنچانے کے لیےقرآن پاک کی بے حرمتی انتہاپسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ توہین قرآن کو ابوغریب جیل ، گوانتا نامو بے، بگرام اور دوسری جگہ بہت ہی موثر انداز میں استعمال کیا گیاہے یعنی جب روایتی تشدد سے بات نہ بنے تو لب کشائی کے لیےتوہین قرآن کا حربہ استعمال کیا گیا۔ ’ملزم‘ سے کہا جاتاتھا کہ اگر اس نے صحیح بات نہ بتائی تو قرآن کے نسخے اس کے پیروں پر ڈال دیے جائیں گے یا اس کے سامنے قرآن کو سور کی چربی میں لپیٹ دیا جائےگا۔ قرآن کو فلش میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی جسے سن کر وہی قیدی جو واٹر بورڈنگ، ناخن کھینچنے، کرنٹ لگانے اور تشدد کی دوسری اذیتیں خندہ پیشانی سے سہہ رہا تھا فوراًہی اپنے تمام کردہ و ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے ہی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔انسانیت سے عاری اس نوعیت کے شرمناک ہتھکنڈوں کی پتھروں کے دور میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مغرب میں توہینِ قرآن کا منظم آغاز 2010 میں ہوا جب امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گینزول کے ایک متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہِ نیویارک المعروف نائن الیون کے متاثرین سے یکجہتی کے اظہارکے لیے گیارہ ستمبر کو قرآن جلانے کا دن قراردیا ۔فیس بک پر اس نے تمام ’’اہل ایمان‘‘ کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت دی جس کے پارکنگ لاٹ میں قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھی لیکن شہری دفاع کے مقامی محکمے نے پادری کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کیے جائیں گے، چنانچہ ٹیری جونز نے قران کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔
چند ماہ بعد اس شیطان صفت انسان پر یہ خبط پھر سوار ہوا ۔اور بیس مارچ 2011کو اس نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخےکو ملزم کے کٹہرے میں رکھا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگیا۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کارروائی کے بعد ٹیری جونز نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
شمالی یورپ کے علاقے Scandinavia میں توہین قران کی مہم 2017 سے جاری ہے۔ناورے، ڈنمارک اور سوئیڈن Scandinavian ممالک کہلاتے ہیں۔ یہاں اسلاموفوبیا مہم کا سرغنہ ڈنمارک کے ایک ناکام سیاستدان راسمس پالڈن Rasmus Plaudan ہے۔ راسمس مسلمانوں کو وحشی و اجڈ اور اسلام کو پتھروں کے دور کا مذہب سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں مسلم دنیا کی اس وحشت کا منبع نعوذ باللہ قرآن اور نبی مہربان کی تعلیمات ہیں۔ جہاد کے نام پر قرآن دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مسلم دنیا سے یورپ آنے والے مسلمان جہاد یعنی دہشت گردی کے ذریعے ہماری تہذیب کو پتھروں کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔
راسمس پلاڈن نے ڈنمارک میں اپنے اسلام دشمن موقف کے فروغ کے لیے2017میں Stram Kursکے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی جس کاانگریزی نام Hard Lineپارٹی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ہارڈ لائن پارٹی کو دو فیصد سے بھی کم ووٹ ملے چنانچہ اس کی ڈنمارک پارلیمان میں نمائندگی صفر ہے۔راسمس ایک شعلہ بیان مقرر ہے اور نفرت انگیر و توہین آمیز تقاریر کی بنا پر عدالت اسے پانچ سال زباں بندی کی سزاسناچکی ہے۔پابندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اس
نے شہر تیبور (Vyborg) میں ایک جلسے کے دوران نبی محترم ﷺ کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کی جس پر مسلمانوں کے ساتھ عام ڈینش شہری بھی مشتعل ہو گئے۔ ہاتھا پائی کے دوران راسمس نے پولیس کو ’مسلمانوں کا کتا‘ کہا اور حملے کی کوشش کی۔ اس بات پر راسمس کو تو محض جرمانہ کیا گیا لیکن ہاتھا پائی اور دھکم پیل کے الزام پر ایک شامی نوجوان کو پہلے دو ماہ کے لیےجیل بھیجا گیااورسزا کاٹنے کے بعد اسے ملک بدر کردیا گیا۔
راسمس، ناروے کے اسلام مخالفین کا بھی مربّی ہے۔ اس کی کوششوں سے یہاں ایک تنظیم STOP ISLAMIZATION IN NORWAYیا SIAN قائم کی گی جس کے ارکان کی تعداد 13000 سے زیادہ ہے۔ اب Stop Islamization in Europeکے نام سے اس تنظیم کا دائرہ سارے یورپ تک پھیلادیا گیا ہے۔
سیان نے توہین قرآن کے لیےملک گیر مہم شرو ع کی جس کا آغاز ناروے کے ایک قدیم شہر کرسچین سینڈ (Kristiansand)سے ہوا جہاں راسمس کے شاگرد اور سیان کے قائد آن تومر (Arne Tumyr) نے اعلان کیا کہ ہم کرسچین سینڈ کے چوک میں دہشت گردی کے منشور یعنی قران کو جلائیں گے۔جلسے میں آن اور اس کے ساتھی اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے۔ اس دوران نبی مہربان ﷺ کے بارے میں جو زبان استعمال ہوئی اسے سوچ کر ہی ابکائی آتی ہے۔ تاہم مسلمانوں نے وعدے کے مطابق سب کچھ بہت تحمل سے برداشت کیااور نعروں اور درود کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔اس دوران آتشزدگی کے لیےقرآن کریم کا ایک نسخہ باربی کیو گرل پر رکھا تھا جسے پولیس نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ لیکن سیان کے دوسرے رہنما لارس تھورسن (Lars Thorsen)نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخے کو نکال کر ٓآگ لگادی۔
پولیس نے لارس کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پولیس کی بے حسی دیکھ کر ایک شامی نوجوان قرآن کو بچانے کے لیےدوڑا تووہی پولیس جو قرآن جلتا دیکھ کر خاموش تھی برقی رفتار سے جھپٹی اور حملہ آور نوجوان کو گرفتار کرکے قرآن جلانے والے کو بچالیا۔ اس شامی پناہ گزین کا نام الیاس عمر ذہب ہے جو بطور باروچی (شیف) کام کرتا ہے۔اس واقعے کی ویڈیو سارے یورپ میں پھیلاکر شامی، عراقی اور صومالی مہاجرین کی ملک بدری کا مطالبہ کیا جارہاہے۔ انتہاپسندوں کی جانب سے واقعے کی تصویروں پر جو عنوانات ٹانکے گئے ہیں اس کا ترجمہ کچھ اسطرح ہے کہ ’خونخوار کتوں کواپنا پیٹ کاٹ کر کھلاو تاکہ یہ خود تمہیں ہی پھاڑ کھائیں‘ ۔
اب واپس آتے ہیں سوئیڈن کی طرف۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرضں کیا، شمالی یورپ میں توہین قران مہم کا بیڑا ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاستدان راسمس پلوڈن نے اٹھایا ہے۔اس شخص کے ذاتی کردار کا یہ عالم کہ اگست 2021 میں ڈنمارک کے ایک موقر جریدے Ekstra Bladetنے انکشاف کیا کہ یہ شخص سوشل میڈیا پر کم عمر لڑکوں بلکہ بچیوں سے نازیبا گفتگو کرتا ہے۔ پلوڈن نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بے شرمی سے کہا کہ ہاں میں لڑکوں سے اس قسم کی باتیں تو کرتا ہوں مگر میرا خیال تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ نہیں سب بالغ ہیں۔پلاڈن پر پولیس سے بدتمیزی پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔اپنے ایک ساتھی کو ڈرانے دھمکانے کے الزام میں بھی یہ نامراد جیل کی ہوا کھاچکا ہے۔
پلاڈن نے تیبور Viborg واقعے کے ایک سال بعد اگست 2020 میں سوئیڈن کے جنوبی مغربی شہر مالما (Malmö)میں ایک اور شیطنیت کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکام نے اسے گرفتار کرکے ملک بدر کردیا۔ اپنے رہنما کی گرفتاری پر انتہا پسند برہم ہوئے اور قران کا ایک نسخہ نذرِ آتش کردیا۔ جس پر وہاں فسادات پھوٹ پڑے جو کئی دن جاری رہے۔ کچھ ہی عرصے بعد پلاڈن سوئیڈن واپس آگیا۔ اس کے والد سوئیڈن کے شہری تھے اور اس بنیاد پر اسے بھی شہریت مل گئی۔
ادھر کچھ عرصے سے شیطان صفت پلاڈن ڈنمارک اور سوئیڈن کے مختلف شہروں میں ایک بار پھر قران سوزی کی واردات کرتے پھر رہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی یہ لہر ڈنمارک کے عام انتخابات کے لیے اس کی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ پارلیمانی انتخابات ستمبر میں ہونے والے ہیں۔مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیےپلاڈن ان شہروں میں قرآن کو نذرِ آتش کرنے کی تقریبات منعقد کررہا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔اس مذموم مہم کے لیے جان بوجھ کر رمضان کے مہینے کا انتخاب کیا گیا ہے جبکہ مساجد میں روزانہ رات کو قرآن پڑھا جاتا ہے۔ چنانچہ جمعہ 15 اپریل کو شہر اوریبروُ Orebro کی جامع مسجد کے سامنے قرآن سوزی کی گئی۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور پُر تشدد مظاہروں میں پولیس افسران سمیت درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔اسی دن دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے میں قرآن کریم کا نسخہ نذرِ آتش کیا گیا۔ یہ مذموم کارروائی ہر روز جاری ہے۔
سوئیڈن پولیس کے سربراہ آندرے تھورن برگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں اس نوعیت کے مظاہرے اور کشیدگی نہیں دیکھی۔
مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتمل ہے اور مقامی قوانین کےمطابق ہر مظاہروں میں گرفتار ہونے والے ہر غیر ملکی کو فوری طور پر ملک بدر کیا جارہاہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والا شخص جسے نفرت پھیلانے کے الزام میں 14 دن جیل بھی ہوچکی ہے، کھلے عام نفرت کا بازار گرم کررہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انتظامیہ نے ایک طرف اس وحشی کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تو دوسری جانب پرامن مسلمان مظاہرین کو گرفتارکرکے ملک سے بے دخل کیا جارہا ہے۔
مغرب اگر پرامن بقائے باہمی اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے تو اسے مسلم عقائد، متبرکات اور اقدار و روایات کے احترام کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ تحفظ اظہار رائے کا یورپی فلسفہ انسداد توہین مذہب کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یورپ وامریکہ میں کسی بھی جگہ جرمن یہودیوں کے مبینہ قتل عام یا ہولوکاسٹ کے بارے میں منفی بات کرنا خلاف قانون ہے۔ جامعات میں ہولوکاسٹ کی صحت پر تحقیق بھی قابل سزا جرم ہے۔ خود سوئیڈن ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطانِ معظم کارل سولہ گستاف (Carl XVI Gustaf پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیا اکرام، الہامی کتب اور مذہبی شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 آفرین ہے فلسطینیوں پر جنہوں نے بدترین تشدد اور پکڑ دھکڑ کے باوجود قبلہ اول کو پوری آب و تاب کےساتھ شادو آباد رکھا ہوا ہے، پانچوں وقت نماز کے ساتھ نماز تراویح بھی جاری ہے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور گولوں کے دھماکوں میں خوش الحان قاری اللہ کا کلام سنارہے ہیں۔ بیت المقدس میں درندگی کےساتھ اہل غزہ پر آتش و آہن کی برسات بھی جاری ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  01 تا 07 مئی  2022