رمضان المبارک اور خواتین کی سرگرمیاں
وقت اور کاموںکی صحیح منصوبہ بندی کے ذریعہ خواتین زائد مصروفیات کے ساتھ عبادات کے لیے بھی وقت فارغ کرسکتی ہیں
آسیہ تنویر، حیدرآباد
ماہِ رحمت کے قیمتی لمحات کولذت کام ودہن پر قربان نہ کریں۔ جہدکار ودانشورخواتین کی آراء
رمضان المبارک ہرسال نیکیوں کی بہار کا موسم لے کر آتا ہے ۔اس مہینے میں اہل ایمان کے دلوں میں اللہ رب العزت سے خشیت اور محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر بندوں کو چوکس کردیتی ہے ۔ وہ خدا سے قریب ہوجاتے ہیں ۔ایمان کی فکر اور اعمال صالحہ کی تگ و دو سے معاشرے میں ایک روحانی ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ بندے اور خدا کا جو تعلق پژمردہ یا سست ہونے لگا تھا اس میں پھر سے ایک نئی تازگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ آمد رمضان کی آہٹوں کے ساتھ اہل ایمان کے اندر ایمانی حرارت بڑھ جاتی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس مبارک مہینے سے فائدہ اٹھا کر اس ایمانی حرارت کو اپنے اندر جذب کرلیں۔ قرآن مقدس اسی مہینے کی ایک بابرکت رات میں نازل ہوا اور قرآن ہی کی بدولت اس مہینے کو عظمت حاصل ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے بندوں کا اس مہینے میں قرآن سے تعلق بڑھ جاتا ہے۔ فی الواقع جن لوگوں کا قرآن سے تعلق جڑجاتا ہے ان کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔
اس مہینے میں اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے ایمان واحتساب کے روزے رکھنے اور راتوں کو قیام کرنے پر اگلے پچھلے گناہوں سے معافی کا مژدہ سنایا ہے۔ سحری کا کھانا ہو یا افطار کی لذتیں سبھی با برکت ہیں۔ ہر عمل کے ثواب میں کئی گنا اضافہ کردیا جاتا ہے، الغرض یہ مہینہ ثواب ہی ثواب سے عبارت ہے۔ اسی لیے ہر مومن مرد کی طرح ہر مومن عورت کی بھی عین خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس بابرکت مہینے میں خوب ثواب حاصل کرے ۔وہ اپنی عائلی و معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے بھی عبادات اور نوافل ادا کرنے کے لیے کئی طرح کی تدابیر اختیار کرتی ہیں۔
رمضان میں خواتین اپنی مختلف عائلی، معاشی وعبادات سے وابستہ مصروفیات کو متوازن کرنے کے لیے کیا کچھ کرتی ہیں اس بات کو جاننے کے لیے ہم نے مختلف علاقوں کی رہنے والی الگ الگ شعبوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین کی تدابیر اور پیشگی تیاریوں سے متعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں چند خواتین کی آراء پیش ہیں۔
سیدہ شیما نظیر، حیدرآباد کی معروف شاعرہ اور علمی شخصیت ہیں اور جماعت اسلامی کی تحریکی مصروفیات میں سرگرمی سے حصہ لیتی ہیں ۔انہوں نے اپنی مصروفیت کے متعلق بتایا :
’’عائلی مصروفیات کی درجہ بندی شعبان کے آخری عشرے سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اہل خاندان، اہل محلہ ودیگر متعلقین کے لیے خطبات اور دروس کا اہتمام کرتے ہوئے سب کو رمضان کی فضیلتوں اور انوار وبركات سے مستفید ہونے کے طریقے بتائے جاتے ہیں ۔سحر سے افطار تک اور افطار سے لے کر اگلی سحری کے نظام الاوقات مرتب کرلیتی ہوں۔ سودا سلف کی خریداری قبل از رمضان مکمل کرلیتی ہوں ۔نوافل، اذکار، تلاوت قرآن پاک ودیگر کاموں کو کس وقت کرنا ہے اور کن کاموں کو ترک کیا جاسکتا ہے اس کی بہتری منصوبہ بندی کرلیتی ہوں تاکہ رمضان کی کوئی گھڑی ضائع نہ ہو اسی لیے کہ روزے کے ذریعے تقویٰ کی تربیت حاصل کرنا سب سے اہم ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ملازمت پیشہ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے نظام الاوقات کو اسی ترتیب سے مرتب کر لیں اور اپنے پیشے کے لحاظ سے جنتے وقت کی گنجائش ہے اسی حساب سے اذکار وعبادات اور تلاوت قرآن پاک کا چارٹ بنا لیں۔ ان معمولات کی تحدید کر لیں جو حقوق اللہ سے وابستہ ہیں اور ان کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ موقع ومواسات سے مستفید ہونے کے لیے برضا ورغبت ایک خاکہ تیار کر لیں ۔عبادات کے حوالے سے دو پہلو پیش نظر رکھیں، ایک منکر سے اجتناب اور دوسرا معروف سے رغبت ‘‘۔
ڈاکٹر منور فاطمہ افضل، حیدرآباد میں اپنا خود کا کلینک چلاتی ہیں ساتھ ہی اپنے گھر اور سماجی مصروفیات میں سرگرم رہتی ہیں۔ انہوں نے رمضان المبارک میں اپنی ذمہ داریوں سے متعلق بتایا:
’’ بقول میری امی کے ماہِ رجب کے آغاز کے ساتھ اگر خواتین رمضان المبارک کی تیاریاں شروع کر دیں تو اس ماہِ مبارک میں وہ امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ عبادات کے لیے بھی چست رہ سکتی ہیں ۔گھر کے تمام افراد کو حسب عمر و جنس کچھ نہ کچھ ذمہ داری سونپی جائے تاکہ بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہو۔ روزانہ کی فرض عبادات کے علاوہ نوافل کا اہتمام، تلاوت کلام پاک معنوں کے ساتھ اور صدقات کی طرف راغب کیا جائے‘‘۔
میری روٹین یہ رہتی ہے کہ ایک ماہ قبل تمام گھر والوں کے ملبوسات تیار کروا لیے جاتے ہیں، گھر کی صفائی وآراستگی بھی پندرہ دن پہلے ہو جاتی ہے۔اشیاء خورد ونوش ہر ماہ کی بہ نسبت زیادہ منگوالی جاتی ہے کیوں اس ماہِ مبارک میں افطار پارٹیوں اور افطار کی تقسیم کا نظم بھی رہتا ہے۔ گھر کے بجٹ کو بیلنس کرنے کے لیے رمضان المبارک کا ایک مخصوص بجٹ رکھتی ہوں اور دو ماہ پہلے سے ہی کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کیا جاتا ہے کہ صدقہ، زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ قرابت داروں میں عیدی اور تحفے بھی دینے ہوتے ہیں( اسے بوجھ نہ سمجھا جائے۔ اپنی حسبِ استطاعت کچھ نہ کچھ تحفہ قریبی عزیزوں میں دینے کی کوشش کی جائے کہ حدیث نبوی ہے کہ تحفہ دینے سے آپسی میل محبت میں اضافہ ہوتا ہے ) ۔ہماری کوشش یہ بھی ہونی چاہیے کہ زکوٰۃ اول وقت میں ادا کریں تاکہ مستحق لوگ بھی اپنی عید کی تیاریاں وقت سے پہلے کر کے عبادت کے لیے اپنے آپ فارغ کر سکیں ۔رمضان المبارک کو صرف سحر وافطار کے کھانے پینے اور زرق برق ملبوسات تک محدود نہ کریں۔
فرض عبادات کے علاوہ نوافل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا، تلاوت کلام پاک، سیرت النبی اور سیرت صحابہ پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پکوان سہل، تغذیہ بخش اور حسبِ استطاعت تھوڑی ورائیٹی لیے ہوتا کہ اہلِ خانہ اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لائیں ۔میرے گھر سحر، افطار موسم کے لحاظ سے تیار کیا جاتا ہے۔ (سحر میں قیمہ پراٹھا /دال چاول کے ساتھ حسبِ موسم دہی ( گرما) یا فیرنی (سرما) کھجور اور چائے ،افطار میں روزانہ مکسڈ فروٹ چاٹ اور کوئی ایک پکوان اس میں، ایک دن سہہ گوشتہ ہریس، ایک دن چھولے، ایک ماش کے دہی بڑے، ایک دن بریڈ پکوڑے، چکن رولز، سموسے، پیٹیز ۔موسم گرما کے افطار کے مشروبات میں آب شورہ، چھاچھ، روح افزا تینوں بنتے ہیں۔ ہر فرد اپنی پسند کا مشروب یا سب استعمال کرتے ہیں۔ موسم سرما میں افطار کے مشروبات میں بادام کا حریرہ ( بچوں کو بادام شیک کہہ کر پلایا جاتا ہے ورنہ آج کل کے پیزا برگر جنریشن حریرہ پینے پر مائل نہیں ہوتی) ۔ڈنر میں سادہ چاول کے ساتھ کوئی ترکاری گوشت اور حیدرآبادی کھٹی دال (افطار کے بعد اگر گنجائش ہو تو!!) ۔
کام کا روٹین اس طرح ہے : پہلی سحری سے تہجد اور سحری کی تیاری، نماز فجر، تلاوت، اشراق کی نماز کے بعد بزرگ افرادِ خاندان کے لیے ناشتے کی تیاری افطار میں بنائی جانے والی ڈشسز کے لیے گوشت، گیہوں، بیسن، دالیں بھگو کر رکھنا، پھر جاگنے کے بعد اگر محلے میں سماعت قرآن مجید کا نظم ہو تو گیارہ بجے روانگی، ایک بجے واپسی، نماز ظہر پھر ایک چکر کچن کا لگا کر پلاننگ کر لیں کہ کتنے بجے تک کمر کس کر میدان میں اترنا ہے یعنی کچن کا رخ کرنا ہے چار بجے سے افطار اور ڈنر کا پکوان، نماز عصر، تلاوت، ذکر، دسترخوان لگانا، دعائیں پڑھتے ہوئے کان سائرن کی آواز کی طرف لگائے رکھنا۔ مغرب پڑھ کر ڈنر، سامان سمیٹنا، پھر عشاء اور تراویح کی ادائیگی۔ کوشش رہتی ہے کہ گیارہ بارہ بجے تک فارغ ہو کر دو گھنٹے آرام کر لوں۔
آپ روزہ سے ہوں تب بھی ایک مسکین روزہ دار کے کھانے کا اہتمام ضرور کریں۔ اپنے اڑوس پڑوس میں سفید پوش لوگوں کا زیادہ خیال رکھیں ۔گھر کے ملازمین پر کام کا بوجھ کم ڈالنا کارِ ثواب ہے لیکن اس ماہِ مبارک میں کام میں اضافہ ہو جاتا ہے تو میں اپنی ہیلپرز کو روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتی ہوں جس میں کبھی کامیاب ہوتی ہوں تو کبھی ناکام ۔
محلے بھر میں افطار تقسیم کرنے کا بصد شوق اہتمام کرتی ہوں۔ محلے والوں کو بہنوں، سسرالی دوستوں اور والد صاحب کے دوستوں کو گھر پر افطار کروانے کا نظم پچھلے کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے جو کوویڈ کی وجہ سے رک گیا ہے اس کو دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ایک آخری بات ان خواتین سے جن کے گھر والے چٹورے ہوں، خدارا پکوان میں اتنا نہ الجھ جائیں کہ پھر آپ میں روزہ رکھنے کی ہمت نہ رہے ۔بعض خواتین کو کہتے سنا گیا ہے کہ ہم روزہ نہ رکھیں تو کیا ہوا اللہ ہمیں معاف کرنے والا ہے کیونکہ کہ ہم روزہ دار کو پکوان کر کے کھلا رہے ہیں۔۔ ہرگز نہیں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ افطار میں روزانہ دہی بڑے ہوں، ہریس چاٹ چھولے بھی ہوں، مشروبات اور کھانے میں انواع واقسام کا اہتمام بھی ہو ۔روزہ ہمیں تقوی حاصل کرنے کی پریکٹس ہے نہ کہ فوڈ فیسٹیول ۔خدارا رمضان المبارک کی تمام رحمتیں برکتیں اور فضیلتیں حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں اور اہل خانہ کو بھی اس جانب راغب کریں ۔
بشری ناہید اورنگ آباد سے تعلق رکھتی ہیں ایک ہوم میکر کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا بزنس ہے ۔گلوبل لائٹ پبلشر کی پروپرائٹر ہیں اس کے علاوہ ہادیہ ای میگزین کے ادارتی بورڈ میں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے رمضان المبارک میں اپنی سرگرمیوں سے متعلق یوں کہا :
’’ماہ رمضان میں کاموں کی ترجیحات کے مطابق درجہ بندی ومناسب ترتیب بہت اہمیت رکھتی ہے‘‘ ہر خاتون کی عائلی وتحریکی ذمہ داریاں اور مصروفیات مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن عبادات اور روز مرہ کے کام لگ بھگ یکساں ہی ہوتے ہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ شعبان کے مہینے میں ہی رمضان اور عید کی جتنی ممکن ہو اتنی تیاری کر لی جائے، جیسے گھر کی صفائی، کچن کے سامان کی تیاری (مسالے وغیرہ) تیار کر کے رکھنا، گھر اور بچوں کے لیے خریداری، تحریکی کام جیسے زکوٰۃ کی رقم جمع کرنے کی کوششیں وغیرہ۔۔۔ دوران رمضان افطار کے بعد ہی سحر کی روٹی کے لیے آٹا بھگونا سالن تیار کرکے رکھنا۔ سحر کے لیے تین بجے بیدار ہونا تاکہ تہجد وسحر کا انتظام وغیرہ اطمینان سے ہو سکے۔ اس کے بعد فجر کو تلاوت اور گھر کے کام صبح ایک گھنٹہ اور دوپہر میں دو سے چار کے درمیان جس دن موقع ملے نیند پوری کرنا۔ بچوں کو ناشتہ ودوپہر کا کھانا کھلانا۔ صبح اور دوپہر میں گھر کے دیگر کام۔ سماعت قرآن کے ساتھ تلاوت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ نمازوں کے بعد جتنا ممکن ہو اتنی تلاوت۔ افطار میں عموماً وہ پکوان تیار کرتی ہوں جس میں بہت زیادہ وقت اور مشقت نہ کرنی پڑے۔ کپڑوں کی سلائی، دھلائی ودیگر کام دوسرے عشرے میں مکمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور آخری عشرے میں شیر خرما اور عید کے موقع پر بنائے جانے والے ریفریشمنٹ کی تیاری کرتی ہوں۔ موقع بہ موقع ان کاموں میں بچوں کی بھی مدد لیتی ہوں۔ چھوٹے بچوں کی فیملی ہے تو کچھ نہ کچھ بازار کے چکر بھی لگانے ہی پڑتے ہیں۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیام اللیل کے وقت بچے بھی ساتھ ہوتے ہیں اس طرح شب قدر کا اہتمام کرنا الحمدللہ آسان ہو جاتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر سیدہ عائشہ پروین بنگلورو سے تعلق رکھتی ہیں۔ آن لائن مترجم کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رمضان المبارک کا بڑے شوق سے اہتمام کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ انہوں نے چھوٹے بچوں کے ساتھ رمضان المبارک کی مصروفیات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی آراء یوں پیش کی:
ایسی خواتین جن کے بچے چھوٹے ہوں وہ رمضان سے بھر پور استفادہ کے لیے چند اصول بنالیں۔
1۔ رمضان سے پہلے ہی رمضان کا منصوبہ بنائیں اور اہداف طے کریں کہ اس رمضان میں آپ کو کیا کیا افعال انجام دینے ہیں۔مثال کے طور پر دعائیں سیکھنی اور مانگنی ہیں تو روزانہ ایک دعا سیکھنے کا اہتمام، قرآن مکمل پڑھنے کے لیے یومیہ تلاوت کا ہدف یا فہم قرآن کے لیے آیات کا انتخاب وغیرہ کرلیں۔
2۔ بچوں کے کاموں سے فارغ ہو کر عبادت کرنے کا خیال دل سے نکال دیں کیونکہ ہمیں یہ فراغت نہیں مل سکتی لہٰذا جتنا ممکن ہو بچوں کے ساتھ اپنا پروگرام بنائیں۔
عام طور پر اگر بچوں کے اسکول ہیں تو ان کے اسکول جانے کے بعد مائیں تلاوت کا وقت متعین کر سکتی ہیں اور اگر بچے اسکول نہیں جاتے یا چھٹیاں چل رہی ہوں تو انہیں دیر تک سونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسا نہ کریں بلکہ ان کے سونے اور جاگنے کا وقت طے کرلیں اور آٹھ یا نو بجے اٹھادیں اور دس سے قبل انہیں تیار کر دیں۔بچوں کا ناشتہ الگ سے نہ بنائیں بلکہ سحر کے وقت ہی تیار کر لیں اور گرم کر کے کھلا دیں اس طرح آپ کا ایک گھنٹہ بچ سکتا ہے۔
ظہر کے بعد قرآن کے لیے وقت متعین کرلیں۔
پھر پانچ سال سے زائد کی عمر کے بچوں کو قرآن پڑھنے کی ترغیب دیں اور چھوٹوں کو اپنے ساتھ بٹھالیں، آپ کی تلاوت جاری رہے گی اور جب بڑے بچے اپنی تلاوت مکمل کر لیں تو انہیں چھوٹوں کا ٹیچر بنا دیں۔ ان کا کام قاعدہ پڑھانا، کہانی سنانا اور آرٹ اور کرافٹ وغیرہ ہوگا۔ یقین مانیں بچے خوشی سے یہ کام انجام دیں گے اور آپ اپنا قرآن کا ہدف مکمل کرلیں گے۔
3۔ جس وقت آپ کے ہاں ملازمہ آتی ہے کام کی نگرانی کے دوران ہی آپ پکوان کی تیاری کر لیں گی جیسے ترکاری بنانا ہو یا گوشت تیار کرنا ہو یا افطاری کی تیاری کرنا ہو۔ ہمیشہ کوشش کریں کہ افطار سے آدھا گھنٹہ قبل چولہا بند ہو جائے۔ بچوں کے ساتھ پھل کاٹیں اور انہیں ٹیبل سجانے تک ساتھ رکھیں۔ بچے بڑوں کے کام خوشی سے کرتے ہیں انہیں دور نہ کریں بلکہ ساتھ کام کرنے کی آزادی دیں۔
افطار سے بیس منٹ قبل بچوں کے ساتھ بلند آواز میں دعائیں مانگیں نہ کہ دل ہی دل میں۔ آپ کا یہ عمل بچوں کے اندر عبدیت کا احساس پیدا کرے گا اور سوچیے ایک ماہ کی مسلسل تربیت ان کے اندر کیا کچھ تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔
4۔ عام مہینوں میں مغرب کے بعد کا وقت بچوں کی پڑھائی کا ہوتا ہے۔ لیکن رمضان میں اسے تھوڑا پیچھے کر سکتے ہیں۔ رات کے کھانے کے بعد پڑھائی کا شیڈول بنائیں۔ رات کا کھانا آٹھ بجے سے قبل مکمل کر لیں۔ آٹھ سے نو کے درمیان کچن سمیٹ لیں اس دوران بچے اسکول پڑھائی کر رہے ہوں گے۔
نو سے دس بجے کا وقت عشا اور تراویح کے لیے مختص کرلیں تاکہ بڑے بچے تراویح میں شامل ہو سکیں اور چھوٹے بچوں کے لیے بستر لگا دیں۔
لازماً کوشش کریں کہ آپ رات گیارہ بجے سے زائد نہ جا گیں۔
شہناز شازی صاحبہ ممبئی سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ ہیں۔ گزشتہ تیس سالوں سے سیکڑوں بچوں کو اپنے گھر میں قرآن کی تعلیم دیتی آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ واٹس ایپ پر آن لائن تجوید اور تفسیر قرآن پاک کی کلاسز بھی لیتی ہیں ۔
انہوں نے اپنی نجی مصروفیات کا کچھ اس طرح ذکر کیا:
رمضان کا مہینہ خوشیاں لے کر آتا ہے۔ اس ماہ میں گھریلو خواتین کی ذمہ داریوں میں دوہرا اضافہ ہو جاتا ہے جو خواتین اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وقت سے پہلے کچھ انتظامات کر لیتی ہیں وہ تو اس ماہ رمضان میں بالکل سکون سے رہتی ہیں چوں کہ ان کے پاس ٹائم مینجمنٹ کا ہنر ہوتا ہے لیکن جن خواتین کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہوتی وہ پورے ماہ رمضان کو برباد کرتی ہیں اور کوئی بھی کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرتیں اور الجھتی رہتی ہیں۔ جہاں تک میری اپنی ذاتی مصروفیات میں توازن کا سوال ہے تو میں رمضان شروع ہونے سے تقریباً ایک مہینہ پہلے سے تیاری شروع کر دیتی ہوں۔ سب سے پہلے رمضان اور اس میں استعمال ہونے والے سامان کے ساتھ ہی عید کی تیاری بھی کرلیتی ہوں تاکہ رمضان میں ہمیں بازار جانا نہ پڑے۔ کپڑے، نئی چادریں، تولیے، نئے دستر میں پہلے ہی سے خرید کر رکھتی ہوں جو رمضان اور عید کے موقع پر کام آنے والے ہوتے ہیں پھر کچھ دن پہلے سے میں صفائی شروع کر دیتی ہوں۔ کچن پورا نئے سرے سے سیٹ کیا جاتا ہے، فریج پورا صاف کیا جاتا ہے جگہ بنائی جاتی ہے کیوں کہ رمضان میں ہمیں فرج کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ جب صفائی کا سارا کام ختم ہو جاتا ہے تو پھر میں ان تمام اشیاء کی ایک فہرست بناتی ہوں جن کی ہمیں رمضان میں زیادہ ضرورت ہوتی ہے، پھر ایک بازار کا ایک چکر لگا کر تمام چیزیں لا کر کچن میں اچھی طرح سیٹ کر دیتی ہوں۔ املی کی چٹنی پہلے سے بنا کر رکھ دیتی ہوں کیونکہ وہ ہمارے گھر میں بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے اس کے علاوہ ہمارے یہاں رمضان میں اکثر حلیم بنائی جاتی ہے جس کے لیے میں پہلے سے ہی گیہوں ابال کر فریز کر دیتی ہوں۔ اسی طریقے سے گوشت کو حسب ضرورت رمضان سے پہلے ہی منگوا کر الگ الگ پیکٹس میں پیک کرکے فریز کرلیتی ہوں اور شامی، کباب وغیرہ کو بھی فریز کرلیتی ہوں۔ اس طرح آدھے سے زیادہ کام ہو جاتا ہے ۔ان تمام انتظامات کا قبل از وقت اہتمام کرنے کا مقصد صرف اور صرف رمضان المبارک کے مہینے میں وقت کو غیر ضروری مصروفیات میں ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ اس طرح اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ عبادات کے لیے آپ کا شیڈول کیا ہو گا چاہیے۔ آپ کو تہجد وسحر کے انتظام کے کے لیے کب اٹھنا ہے۔ پھر فجر کی نماز، تلاوت قرآن اور اس کے بعد کچھ آرام۔
راشدہ خاتون حیدرآباد کی تعلیمی قابلیت ماسٹرز ہے۔ ان کے دو بچے حافظ قرآن ہیں اور تیسرے بچے کا حفظ مکمل ہونے کو ہے۔ بچوں کو حافظ قرآن بنانے میں ان کا کردار بے حد اہم ہے کیوں ہر دن بچوں کے اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن سننے کی ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لی ہے۔ اسی وجہ سے ان کی بیٹی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیسن کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔انہوں نے اپنی مصروفیات کو یوں بیان کیا:
سحری کا انتظام کرنے کے بعد سب ساتھ مل کر سحری کرتے ہیں۔ پھر تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو جاتے ہیں. فجر کے بعد میں تو کچھ دیر آرام کرتی ہوں پھر گھر میں جو بچے یا بزرگ بوجہ روزہ نہیں ہوتے ان کے ناشتے کی تیاری کرتی ہوں۔ رمضان میں دوپہر کے وقت تلاوت قرآن کا ماحول ہوتا ہے۔ بچے جو حافظ قرآن ہیں، مجھے قرآن کا وہ حصہ سناتے ہیں جو تراویح میں تلاوت کرنا ہوتا ہے۔ پھر بعد عصر میں افطار کی تیاری میں لگ جاتی ہوں جس میں بچے اور میرے خاوند بھی میری مدد کرتے ہیں. الحمدللہ ہماری جوائنٹ فیملی ہے، ہم لوگوں نے تقریباً بیس سال یعنی میری شادی کے بعد سے یکساں واکٹھے والدین ودیگر رشتہ داروں کے ہمراہ آبائی بڑے بنگلے میں گزارے ہیں جہاں ہم نماز تراویح بھی ساتھ پڑھتے تھے۔ اب چونکہ اپارٹمنٹ زیر تعمیر ہے سب لوگ ایک ہی محلے میں قریب قریب رہتے ہیں. اور اب بھی ایک ہی جگہ تراویح کا اہتمام ہوتا ہے۔ رمضان میں افطار کی اشیاء ایک دوسرے میں تقسیم کرتے ہیں۔
بانو ہادیہ سید ممبئی سے تعلق رکھتی ہیں، معروف شاعرہ ہیں، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سابق رکن بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی مصروفیات کا یوں ذکر کیا :
ملازمت کے دنوں میں سحری کے بعد فجر کی نماز، تلاوت، پھر گریجویشن اور ماسٹرز کی پڑھای کرنا، صبح کالج جانا اور پھر آفس جانا ہوتا تھا۔ ان دنوں اکثر گھر لوٹنے کے دوران راستے ہی میں افطار کرتی تھی۔لیکن شادی کے بعد گھر پر افطاری کے مزے لوٹے۔ ایک بچپن کا یادگار رمضان اور دوسرا اپنے بچوں کے ساتھ مزیدار رمضان۔ اب یہاں سے رات بھر جاگنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سحری کے بعد عبادات سے فارغ ہو کر بچوں کی اسکول کی تیاری۔ بذات خود اپنے شوہر کے تعاون سے انہیں جگانا، تیار کرنا، ٹفن دینا اور روانہ کرنا۔ ساس صاحبہ کی نگرانی کرتی تھیں اور دیور بس تک چھوڑنے جاتے تھے۔ پھر ہم نے چادر تانی اور سو گئے۔ بچے ظہر کی اذان تک آجاتے تھے۔ ان کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے تک، گاہے بگاہے دوسرے بھی چھوٹے موٹے کام کرلیتی ہوں جیسے افطار کا مینو، نماز، خادمہ کو ہدایات دینا وغیرہ۔ طرح طرح کے پکوانوں کا شوق رہا، لہذا انواع واقسام کے پکوانوں سے دستر خوان چن دینا، افطار ونماز کے بعد خادمہ کے ساتھ مل کر باورچی خانہ درست کر لینا۔ تھک کے چور ہو جانا اور جا کر سو جانا۔ دو ڈھای گھنٹے کی نیند کے بعد جاگنا اور چائے پی کر تازہ دم ہونا پھر ساس ماں کے ساتھ گپ شپ لگانا۔
گھر کے تمام لوگ تراویح سے فارغ ہو کر بستروں میں گھس جاتے اور خاکسار کا رت جگا شروع ہو جاتا۔۔ تراویح کے ساتھ نماز، اذکار ودعا تب تک سحری کا وقت شروع ہو جاتا۔ گھر کے لوگ خاکسار کے ہاتھ پکے پراٹھے دودھ دہی سالن سے کھا لیتے۔ میرے سسرال کی ایک بات بہت اچھی ہے وہ یہ کہ یہاں لوگ کھانا افطار کے ساتھ ہی کھا لیتے ہیں۔ جب نماز اور تراویح کے بعد گھر آتے تو پھل شربت وغیرہ جو کچھ بچا رہتا نوش کر لیتے اور ہر شخص اپنی رکابی اور گلاس دھو کر رکھتا ہے۔ گھر کی خواتین کو بہت سہولتیں میسر تھیں۔ بلکہ میری ساس صاحبہ اور شوہر میرے طویل پکوان سے نالاں رہتے کہ عبادت کا قیمتی مہینہ میں کھانے کھلانے میں صرف کردیتی ہوں۔
آہ! یہ تو تھا وہ زمانہ جس کی بے شمار یادیں ہر رمضان کو یادگار بناتی ہیں۔ پکانا کھلانا بانٹنا اور بچوں کا دوڑ دوڑ کر پکوان کے خوان دینے جانا۔۔کیا بتاؤں۔۔کیا دور تھا۔۔ ایک ہنگامہ بپا رہتا تھا لیکن آج۔۔۔آج وہ رونقیں گم ہیں۔ شوہر، ساس ماں، دیور، نند اور کئی پیارے ملک عدم سدھار گئے۔ اب پوری فراغت کی زندگی ہے۔ لکھنا پڑھنا عبادات شعر وشاعری اور فیس بک (جو رمضان میں بند) قرآن مع ترجمہ وتفسیر پڑھتی ہوں ایجوکیشنل کاونسلنگ کر لیتی ہوں۔ عمر اور علالت کا تقاضا ہے کہ آرام زیادہ کرتی ہوں۔ لیکن پورے رمضان کے اعتکاف کی آج بھی عادت ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اپریل 2022