ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد
محبت کی اصل بنیاد دراصل وہ احسانات ہیں جس کے ہم ممنون ہوتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ہمارا وجود اور ہماری ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احساسات کی مرہونِ منت ہے۔ ہم اپنے والدین سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں ہمارے آنے کا ذریعہ بنے اور انہوں نے ہماری پرورش، نگہداشت اور تربیت کی۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے محبت کریں۔ اور اس محبت کی مقدار کا تعین بھی کیا گیا کہ ہم اپنے والدین اور اپنی ذات سے بھی بڑھ کر رسول اللہ سے محبت کریں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی محبت کیسے پیدا ہو؟ فطری طور پر محبت پیدا ہونے اور کسی کے لیے کسی کے دل میں خارج سے محبت پیدا کرنے میں فرق ہے۔ سچی محبت آپ سے آپ پیدا ہوتی ہے شرط یہ ہے کہ اس محبت کی بنیاد موجود ہو۔ رسول اللہ سے محبت کی بنیاد کیا ہے؟ رسول اللہ سے محبت کی بنیاد آپ کی اپنی امّت کی خیر خواہی اور اس کی نجات کے لیے سچی تڑپ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان اس طرح فرمایا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔(التوبۃ:۱۲۸)
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے ۔
رسول اللہ سے محبت اپنی ذات سے بھی زیادہ کرنا ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہے جس طرح محبت کے سلسلے میں عموماً جذباتی اور غیر عقلی دعوے کیے جاتے ہیں۔ رسول اللہ سے محبت اپنی ذات سے زیادہ اس لیے ہونی چاہیے کہ رسول اللہ ہمارے اتنے خیر خواہ تھے جتنی خیرخواہی ہم خود اپنی ذات سے بھی نہیں کرتے۔ ایک دفعہ آپؐ نے اپنے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا: میری مثال ایسی ہے جیسے میں لوگوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں اور لوگ ہیں کہ پروانوں کی طرح آگ میں گرتے جا رہے ہیں۔ رسول ﷺ کا دل ساری انسانیت کی اخروی بھلائی کے لیے تڑپ اٹھتا تھا۔ اس تڑپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس طرح نقل کیا ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ۔(الکہف:۶)
اچھا، تو اے نبی! شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ محبت کی یہ مضبوط بنیاد ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے اور ایک خود ساختہ بنیاد ہم نے گھڑ لی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری جھولی بھرنے کے لیے دن رات خزانے لٹانے کے لیے دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ کسی کو اولاد سے نواز رہتے ہیں تو کسی کو روزگار سے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ مدینہ طیبہ کی زیارت بھی ان احساسات اور جذبات کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ہمارے شاعر اور نعت خواں حضرات بھی رسول اللہ کے بارے میں اسی خود ساختہ تصور کے ساتھ محو سخن ہوتے ہیں۔ مدینہ منورہ میں لوگ اسی سوچ کے ساتھ قیام کرتے ہیں کہ مدینے کے در سے خالی ہاتھ لوٹ کر نہیں جائیں گے۔
یہ غلو اس لیے پیدا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے مقصدِ بعثت کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ انبیاء ورسل کو دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا جاتا کہ وہ لوگوں کو روزی اور اولاد بانٹنے کا کام کریں۔ اس کام کے لیے دربار الٰہی ہر لمحہ کھلا ہوا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة:۱۸۶)
اور اے نبی ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم انہیں سنا دو شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔
رسول اللہ ﷺ کے دنیا میں بھیجنے کی غرض وغایت کو قرآن میں بہت ہی وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ حسب ذیل آیات پر غور کریں:
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ۔(الجمعہ:۲)
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۔وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا (الاحزاب۴-،۴۶)
اے نبی، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف:۹)
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
ان آیات کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ کو خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین بنا کر دنیا میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہے کہ آپ قیامت تک سارے انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنیں۔ رسول اللہ ﷺ کا راستہ ذیل کی آیت میں اس طرح پیش کیا گیا ہے۔
قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (يوسف:۱۰۸)
تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا رستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کے طریقے کو پیش کیا گیا ہے۔ آپ کی سب سے بڑی سنّت جس کے لیے آپ طائف تشریف لے گئے اور وہاں پر آپ پر پتھر برسائے گئے اور آپ زخمی ہوگئے اور جس کی خاطر آپ نے ہجرت کی اور وطن چھوڑا، وہ ہے دعوت الی اللہ کی سنت۔ آج اسی سنّتِ رسول کو چھوڑنے کے نتیجے میں امتِ مسلمہ دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہی ہے۔ (البقرہ:۱۵۹-۱۶۰)۔
رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کی ایک اور بنیاد یہ ہے کہ ہم اس مشن سے وفا کریں جو تیئیس سال آپ کی زندگی میں جاری و ساری رہا۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی وفاداری یہی ہے کہ ہم ختمِ نبوّت کے بعد کارِ رسالت کی امانت سے عہدِ وفا کریں۔
کی محمدؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کو اختیار کیا تھا اور آپ کے دعوت الی اللہ کے مشن سے وفا کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو نعمتِ عقبیٰ کے ساتھ دنیا میں عروج وسلطنت سے بھی نوازا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان نفوسِ قدسیہ کے ساتھ ایفائے عہد کیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ۔(محمد:۷)
اے لوگو جوایمان لائے ہو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔
مسلمانوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے نہ اللہ تعالیٰ کی قدر جانی، نہ اس کے رسول کی اور نہ ہی اس کے کلام کی۔ ہم نے قرآن کو ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا نہ کہ ہدایت حاصل کرنے کا؟ قرآن کا اصل مقصد ہے اس میں تدبر کرنا اور اس سے ہدایت حاصل کرنا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ترجمہ وتفسیر سے قرآن کے مطالب کو سمجھیں لیکن ہم صرف ناظرہ قرآن پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ قرآن ہمیں اخروی کامیابی کے ساتھ اقوامِ عالم کی رہنمائی کے لیے مقامِ قیادت پر پہنچانے آیا تھا اور ہم محض رسمی طور پر ثواب حاصل کرنے کے لیے اس کو پڑھتے ہیں، وہ بھی مخصوص مواقع پر۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا اسوہ جنّت کے راستہ کی طرف ہماری رہنمائی کرنے کا ذریعہ ہے اور اس دنیا میں بھی اسوہ رسول ہمیں عروج کی منازل تک لے جانے کا ضامن ہے، لیکن ہم نے رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے رشد وہدایت حاصل کرنے کے بجائے آپ کو دنیا کی عارضی ضروریات کے لیے وسیلہ استعانت بنالیا ہے اور غلو کرکے آپ کی ذات اقدس کو الوہیت کی حدود میں پہنچا دیا۔ یہ ہیں وہ اسباب جن سے ہم امّت باقی نہیں رہے اور محض اقوامِ عالم میں ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ اپنے وجود کو باقی رکھنے کی جستجو کرتی رہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو امّت بنایا اور ایسی امّت جس کو امتِ وسط اور خیرِ امّت کے القابات سے نواز کر اقوامِ عالم کی رہنمائی کے منصب پر فائز کیا۔ زوالِ امت کی واضح علامات یہ ہیں کہ قرآن ایک ثواب حاصل کرنے والی کتاب بن جائے۔ رسول اللہ ﷺ وسیلہ استعانت بن جائیں جن سے مرادیں وابستہ کی جائیں اور دین ایک مذہب بن جائے جو مراسمِ عبادت اور فقہی احکام کا مجموعہ ہو۔ علماء ومشائخ مسلکوں کے محافظ اور روایتی خطیب بن جائیں۔ مسلمانوں کے عروج کا راستہ وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کا راستہ ہے جو دعوت وعزیمت کا راستہ ہے۔ ہر مسلم، اللہ کے دین کا داعی اور سچ نمائندہ بن جائے اور دین کی قولی وعملی شہادت دے۔ یہی سچا حُبِّ رسول ہے۔ ایمان بالرسالت کا صحیح تصوّر یہ ہے کہ ہم اس مقصد کو سمجھیں جس کے لیے انبیاء ورسل کو دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ بالخصوص خاتم النبیین رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کو داعی اعظم اور سرورِ عالم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ امتِ مسلمہ کا ایک اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے سچے نمائندہ بن کر دنیا کے سامنے اسوہ رسول کو اپنے قول وعمل سے پیش کریں۔ آپؐ کے اسوہ کاملہ میں دنیا کے تمام مسائل کا حل موجود ہے اور اس میں ہر قوم کے لیے اور ہر زمانے کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ آپ کے اسوہ میں زندگی کے تمام گوشوں میں ہدایت ہے چاہے وہ سماجی زندگی ہو یا سیاسی یا معاشی۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات زندگی کے ایک ایک مسئلہ کے حل کو رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں مدلل طریقے سے پیش کریں اور عملی طور پر ایسا معاشرہ پیش کریں جس کو دیکھ کر اغیار اسلام کی خوشبو محسوس کریں اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے معترف ہوں کہ جس امت کی زندگی میں اتنی پاکیزگی اور امن وسلامتی ہو اس کا رسول کیسا عظیم ہادی ورہبر تھا ہو گا۔ آج امتِ مسلمہ جس مظلومی ومحکومی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اس کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ اہم رسول اللہ ﷺ کے اصل اسوہ کو دنیا میں قولاً وعملاً پیش کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
***
***
ایمان بالرسالت کا صحیح تصوّر یہ ہے کہ ہم اس مقصد کو سمجھیں جس کے لیے انبیاء ورسل کو دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ بالخصوص خاتم النبیین رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کو داعی اعظم اور سرورِ عالم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ امتِ مسلمہ کا ایک اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے سچے نمائندہ بن کر دنیا کے سامنے اسوہ رسول کو اپنے قول وعمل سے پیش کریں۔ آپؐ کے اسوہ کاملہ میں دنیا کے تمام مسائل کا حل موجود ہے اور اس میں ہر قوم کے لیے اور ہر زمانے کے لیے رہنمائی موجود ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021