رسول کریم ؐ کا ذکر جمیل

روح کی شادابی اور عمل کی تحریک پیدا کرنے کا ذریعہ

جاویدہ بیگم ورنگلی

 

قرآن میں نبی اکرم ﷺ کا ذکر جمیل جس طرح کیا گیا ہے:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم ۔بے شک آپؐ اخلاق کے بلند درجے پر فائز ہیں (القلم۷)
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا
ہم نے آپؐ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا (سبا۸)
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ۔ہم نے آپ کو عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌن حَسَنَةٌ
درحقیقت تمہارے لیے رسول اللہؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا
اے نبیؐ، ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے اذن سے اللہ کی طرف دینے والا بناکر۔
هُوَ الَّذِىْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَـقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖۙ
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کردے۔
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آَيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس ے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
واَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا
اے محمدؐ ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بناکر بھیجا اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے۔
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران ۳۱)
اے نبیؐ لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہوتو میری پیروی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے در گزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَۗ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـهٝ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے او رتمہیں خبر بھی نہ ہو۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کردیا ہے
لَـقَدْ جَاۤءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔
(سورہ التوبہ ۱۲۸)
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَاۡ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰۤى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْۤا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۗ
اے نبی ؐ ان سے کہہ دو میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے۔ لہذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو ۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر دورد بھیجتے ہیں اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
حضرت محمد ﷺ کو اللہ نے نبوت سے سرفراز فرمایا۔ غار حرا میں آپؐپر پہلی وحی نازل ہوئی جس سے آپؐ پر اضطراب کی شدیدکیفیت طاری ہوئی۔ اسی کیفیت میں آپؐ گھر تشریف لائے۔ اسی اضطراب کے عالم میں بی بی خدیجہؓ سے کہا مجھے اوڑھا دو۔ جب طبعیت میں ذرا سکون ہوا تو بی بی خدیجہؓ سے فرمایا کہ میں ایسے واقعات دیکھتا ہوں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہوگیا ہے۔ بی بی خدیجہ نے آپؓ کی اخلاقی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے ان الفاظ میں تسلی دی۔ آپ عزیزوں رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ ناتوانوں بے کسوں اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ مصیبت زدوں سے ہمدردی کرتے ہیں ۔ آپ صادق القول ہیں خدا آپ کو کبھی اندوہ گین نہ کرے گا۔
ایک غلام کو اپنے آقا کے اخلاق کا سب سے زیادہ اندازہ ہوتا ہے۔ زید بن حارث جو حضورؐکے غلام تھے جب ان کے والد کو اس بات کی اطلاع ملتی ہے کہ زید آپ کے غلام ہیں۔ حارث آپ کے پاس آکر اپنے بیٹے کی آزادی کے ملتجی ہوتے ہیں اور کہتے ہیں جس قدر فدیہ چاہیں گے ہم ابھی پیش کریں گے۔ آپؐارشاد فرماتے ہیں کہ میں زید کو بلاتا ہوں وہ اگر آپ کے پاس جانے تیار ہوتو میں اس کا فدیہ لیے بغیر اسکو آزاد کردو ں گا۔ زید کو بلا کر پوچھا جاتا ہے تو زید صاف صاف کہہ دیتے ہیں میں آقا کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ حارث غصہ و طیش کے عالم میں کہتے ہیں تم آزادی کو پسند نہیں کرتے ، کیا غلامی کی حالت میں اپنے چاہنے والے ماں باپ کو چھوڑ کرغیروں کے پاس رہنا پسند کرتے ہو۔ اس پر زید اپنے باپ اور چچا کو جواب دیتے ہیں ’’میں نے اپنے آقا میں جو اوصاف دیکھے ہیں ان کا تجربہ کرنے کے بعد اب دنیا میں کسی کو بھی ان پر ترجیح نہیں دے سکتا ، حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد حارث کہتے ہیں ’’بیٹے! اگر تم اپنے آقا کے پاس خوش ہیں تو میں بھی راضی ہوں‘‘۔ یہ آپ کے اخلاق تھے جو زید کے دل میں اس طرح گھر کر گئے کہ آپ کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اپنے والد کو صاف جواب دیا کہ میں اپنے آقا کو کسی حال نہیں چھوڑسکتا۔
انسان دوسروں کے سامنے اپنی خرابیوں کو چھپا سکتا ہے اپنے آپ کو اخلاقی خوبیوں کا پیکر ثابت کرسکتا ہے مگر اپنی شریک زندگی اپنے غلام کی نظروں سے اپنے برائیوں کو نہیں چھپاسکتا۔ یہ گھر کے بھیدی ہوتے ہیں ان کے نظروں سے چھوٹی سی چھوٹی خامی و خرابی چھپی نہیں رہ سکتی۔ ان دونوں کا آپ کے اخلاق کا اس انداز میں ذکر کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ آپ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔
ابوجہل جو آپ کا دشمن اول تھا۔ اس طرح آپ کے حسن اخلاق کا اعتراف کرتا ہے ۔ ’’محمد میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا مگر تمہارے دین کو نہیں مان سکتا‘‘۔ آج دوست بھی دوست کی تعریف کرنے تیار نہیں ہوتا دشمن تو دشمن ہی ہوتا ہے۔ دشمن کے اخلاق کا اعتراف کرنا وہ بھی اپنے جانی دشمن کا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ آپ کے کردار کا حسین پہلو ہے جس نے دلوں کو مسخر کردیا۔ اخلاقی خوبیاں آپ کا بنیادی وصف تھا۔ جو بھی آپ سے ملا وہ آپ کا جاں نثار بن گیا۔ محبت کا جذبہ پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دل خوبیوں کا معترف ہو اس کی عظمت دل میں اس طرح بیٹھ جائے کہ اس کا ہوکر رہ جانا دلی خواہش بن جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپؐ کی سیرت کا مطالعہ مسلسل کیا جاتا رہے کہ آپؐ کی محبت دل کی دھڑکن بن جائے۔ ہر دھڑکن آپ کے اسوہ مبارکہ پر عمل کرنے آمادہ کرے۔
الفاظ کی روشنی میں آپ کا عکس جمیل
’’پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہر نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب ِجمال، آنکھیں سیاہ فراغ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مردک سرمگیں چشم، باریک لو پیوستہ، سیاہ گھنگریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دبستگی لیے ہوئے، دور سے دیکھنے میں تابندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیرین کلام، واضح الفاظ ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی میانہ قد کہ کوتاہی شطر سے حقیر نظر نہیں آتی، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی۔ زبندہ نہال کی تازہ شاخ، زبیندہ منظر والا قد، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو۔‘‘
یہ ایک بادیہ نشین ام مبعد کی الفاظ میں کھینچی ہوئی ایک تصویر ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلام کہتے ہیں، میں نے جوں ہی حضورؐ کو دیکھا فوراً سمجھ لیا کہ آپ کا چہرہ ایک جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔
مطمئن رہو میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے جو چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا وہ کبھی تم لوگوں کے ساتھ بد معاملگی کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا آدمی اونٹ کی قیمت ادا نہ کرے تو میں اپنے پاس سے ادا کروں گی۔ یہ ایک سردار قبیلے کی بیوی کے تاثرات ہیں۔
یہ آپؐ کا ذکرِ جمیل ہے قرآن کے الفاظ اور بندوں کی زبان نے جس کا اظہارکیا ہے۔ آپؐ کا ذکر جمیل ہر مسلمان کی روح کو سرشار کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ جس طرح انسانی جسم کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح روحانی زندگی کے لیے قرآن کا مطالعہ اور آپ ؐ کی سیرت کا مطالعہ غذا کا کام دیتا ہے۔ انسان اپنی جسمانی کمزوری کو محسوس کرتا ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اور اس وقت تک وہ سکون سے بیٹھا نہیں رہ سکتا جب تک کمزوری دور نہ ہو جائے ۔ لیکن انسان، روح کی طلب و تڑپ کو محسوس نہیں کرپاتا اگراس کے پاس اُس درد کو محسوس کرنے والا دل نہ ہو۔ایک ایسا دل جو آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہو۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے تنہائی میں اور اللہ کے ذکر کے موقع پر دل کو حاضر نہ پاؤ تو اللہ سے ایک اور دل مانگو۔ دل پر چھائی ہوئی بے حسی کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے دل کو بار بار قرآن و سیرت رسولؐ کے مطالعہ پر آمادہ کیا جائے۔ یہ کوشش مسلسل کی جاتی رہے۔ اس وقت تک کی جاتی رہے جب تک دل پر اثر نہ ہو اور عمل کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ اللہ سے دعا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذکر جمیل سے مردہ دل جاویداں ہوجائیں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020