رسول کرمﷺ کامعجزۂ کردار

حسنِ کردار میدانِ دعوت کا موثر ہتھیار

ڈاکٹر سید محی الدین علوی ، حیدرآباد

 

رسول اکرمﷺ نے دعوت اسلامی کا آغاز عرب قوم میں ایک کلمہ: یاایہالناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا۔۔۔ ’’لوگو! کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تم کامیاب ہو جاو گے‘‘ سے کِیا تو اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک کلمہ ان کی زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دے گا۔ کھرے کھوٹے کا فرق واضح ہو جائے گا اور ان کے ذاتی مفادات پر ضرب لگے گی اور قیادت وسیاست جو انہیں حاصل ہے اس سے محروم ہونا پڑے گا۔ قریش نے حضورﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستایا یہاں تک کہ عرصہ حیات تنگ ہو گیا۔ خود آپؐ نے فرمایا کہ کسی نبی کو ان مشکلات سے سابقہ پیش نہیں آیا جن مشکلات سے مجھے سابقہ پیش آیا ہے‘‘۔
لیکن اس مخالفت کے طوفان میں اور زدوکوب کے عالم میں آپؐکے پاس تین ہتھیار تھے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ ایک تو آپ کا معجزۂ کردار، دوسرا معجزۂ قرآن اور تیسرا معجزۂ کلام۔ رسول اقدس ﷺ کے اخلاق حسنہ کے کیا کہنے، آپ کی شرافت کے ڈنکے چار دانگ عالم میں بجتے تھے۔ آپ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ ایک کنواری لڑکی کی طرح کسی غیر محروم کی طرف بے جا نظر اٹھانے کے بھی روادار نہ تھے۔ دیانت و امانت کا یہ عالم تھا کہ آپؐکے کٹر سے کٹر مخالفت بھی اس کے قائل تھے اور آپ کے پاس لاکر اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔ جب آپ اپنی قوم کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کرنے کے لیے اپنے گھر سے روانہ ہوئے اس وقت بھی آپؐنے حضرت علیؓ کو اپنا جانشین بنا کر یہ ہدایت کی کہ وہ مدینہ اس وقت تک ہجرت کر کے نہ آئیں جب تک مکہ میں رکھی گئی امانتیں قوم کے لوگوں کو واپس نہ کر دیں۔ آپ کے مخالفین اپنے جھگڑے اور مقدمات آپ کے پاس لاتے اور آپؐ فیصلہ صادر فرماتے۔ آپؐ کی طرف سے بیواوں کو وظیفے مقرر تھے۔ آپؐ یتیموں کی سرپرستی کرتے اور مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے۔ کسی نے بھی تمام عمر نازیبا بات آپ کی زبان سے نہیں سنی۔ آپ نے کسی سے جھگڑا کیا اور نہ کسی کو گالی دی اور نہ زیادتی کی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپؐنے کسی سے بد معاملگی کی یا وعدہ خلافی کی۔ آپ کے اخلاق حسنہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود گواہی دی:
و انک لعلی خلق عظیم (القلم:۵)
اور بے شک آپ اخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں۔
آپ کا بجپن دوسرے بچوں کی طرح لا ابالی پن میں نہیں گزرا بلکہ سنجیدگی لیے ہوئے تھا۔ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ آپ جنگل میں بکریاں چراتے ہوتے تو کائنات کی نیرنگی پر غور کرتے۔ آپ کو کھیل کود اور دوسرے تفریحی مشاغل پسند نہیں تھے۔ آپ کے ساتھی جشن یا شادی کی رنگ ریلیوں میں شرکت کے لیے شہر جاتے اور لطف اندوز ہوتے لیکن آپؐ اس سے باز رہتے۔ البتہ ایک بار ایسا ہوا کہ اس طرح کی شادی دیکھنے آپؐنے شہر کی طرف رخ کیا ور اپنی بکریاں اپنے ساتھی کے ہاں رکھائیں۔ ابھی شادی کی تقریب شروع ہونے میں دیر تھی اور آپؐ کو نیند آگئی۔ جب آپؐ بیدار ہوئے تو مجلس منعقد ہو کر برخاست ہو گئی تھی۔ بس اس واقعہ کے بعد پھر آپ نے ایسی کسی مجلس میں شرکت نہیں کی۔
آپؐکے بچپن کا ایک واقعہ کچھ اس طرح ہے۔ کعبہ کی تعمیر کا کام چل رہا تھا۔ پتھر ڈھوکر لانے میں لڑکے بھی بڑوں کا خوب ساتھ دے رہے تھے لیکن کندھے چھلنے لگے تو لڑکوں نے اپنا تہہ بند اپنے کندھوں پر ڈال دیا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ آپ کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے کہا کہ ’’بھتیجے تم خراش سے بچنے کے لیے تہہ بند اتار کر کندھے پر رکھ لو لیکن جب آپؐ نے اس سے پہلو تہی تو ازراہ ہمدردی خود ہی آپ کا تہہ بند اتار کر آپ کے کندھے پر رکھ دیا لیکن آپؐ فرط حیا سے تھرا کر نیم بے ہوشی کے عالم میں زمین پر گر پڑے۔ یہ دیکھ کر چچا نے دوبارہ آپ کا تہہ بند آپ کو پہنا دیا۔
کہا جاتا ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے اور زندگی جل ترنگ ہوتی ہے لیکن آپ نے جذبات سے بے قابو ہونا تو درکنار کبھی خیال کا دامن بھی آلودگیوں سے نہ چھوا تھا۔ (محبوب خدا۔ چودھری فضل حق)جہاں حسن کا بازار لگا ہوا ہو وہاں آپ کی جوانی پاکیزگی کا شاہکار تھی اور تمام آلودگیوں سے پاک تھی۔ مکہ کے لوگ شراب کے رسیا تھے۔ لیکن آپؐجام و مینا سے دور رہے اور ایسی محفلوں سے آپؐکا کوئی تعلق نہیں رہا۔ آپؐجنگ و جدل سے کوسوں دور تھے اور بت پرستی سے تو آپ کو شدید ترین نفرت تھی۔ کبھی آپؐنے کسی بت کے آگے سر نہیں جھکایا۔ آپ کی پاکیزگی اور طہارت نفس کا ہر کوئی قائل تھا۔ اس لیے آپ لوگوں کی آنکھ کا تارا تھے۔ یہ آپ کے کردار کا معجزہ تھا جو آئندہ دعوت اسلامی کے کام میں آپؐ کا ممد و معاون ہوا۔
یہی سبب ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبری جو مکہ کی امیر ترین بیوہ خاتون تھیں، مکہ میں آپ کو اپنے کاروبار میں لگایا اور تجارت میں آپ کی دیانت اور راست بازی سے متاثر ہوئیں۔
کاروبار میں آپ کو کھرا پایا تو اپنی طرف سے نکاح کا پیغام بھیجا بلکہ بلا کر بالمشافہ آپ سے بات پختہ کی۔ اس موقع پر حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنا ذاتی تجربہ یوں بیان کیا ’’میں نے آپؐ کی صداقت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے آپ کو پسند کیا ہے اس لیے میں آپؐ کی صداقت اور کردار سے بہت متاثر ہو گئی ہوں۔ (ابن اسحاق)
چنانچہ شادی پر خطبہ نکاح پڑھتے ہوئے حضرت ابو طالب نے جو بچپن سے آپؐکے سرپرست چچا تھے آپؐکے کردارا میں اس طرح گواہی دی۔ حمد و ثنا کے بعد انہوں نے کہا ۔
’’یہ میرے بھائی کا لڑکا محمد بن عبداللہ ہے یہ ایک ایسا جوان ہے کہ قریش کے کسی شخص سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ اس سے بڑا رہے گا۔ ہاں البتہ مال اس کے پاس کم ہے لیکن مال تو ڈھلتی پھرتی چھاوں ہے اور ایک بدل جانے والی چیز ہے۔ محمد وہ شخص ہے کہ جس کی میرے ساتھ قربت و یگانگت کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ اس کا مستقبل خدا کی قسم عظیم الشان اور جلیل القدر ہے۔ اس خطبے کا جواب دیتے ہوئے ورقہ بن نوفل نے جو حضرت خدیجہؓ کے چچا زاد بھائی اور ایک مشہور و معروف عالم و فاضل تھے کہا ’حمد و ثنا خدا کے لیے ہے۔ بلاشبہ آپ لوگ تمام خصائل کے اہل ہیں، کوئی طاقت آپ کے فضل و شرف کو رد نہیں کر سکتی اور بے شک ہم نے نہایت رغبت کے ساتھ شامل ہونا پسند کیا ہے۔ پس اے قریش گواہ رہو کہ میں خدیجہ بنت خویلد کو محمد بن عبداللہ کی زوجیت میں دیتا ہوں‘‘
حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد حضورؐ کا انہماک تجارت میں بہت بڑھ گیا، آپؐکے ایک کاروباری کا ساتھی قیس بن سائب نے آپؐکے بارے میں کہا ’’کاروبار میں میں نے محمدؐ سے بہتر ساتھی کوئی نہیں پایا۔ اگر ہم ان کا سامان لے جاتے تو مجھے واپسی پر وہ ہمارا استقبال کرتے ہماری خیر و عافیت پوچھتے اور پھر چلے جاتے اور بعد میں حساب دینے پر قطعاً تکرار اور حجت نہ کرتے حالانکہ دوسرے لوگ سب سے پہلی بات صرف اپنے مالک کی کیفیت کے متعلق پوچھتے تھے۔ اس کے برخلاف اگر خود وہ ہمارا سامان لے کر جاتے تو واپسی پر جب تک پائی پائی بے باق نہ کرلیتے گھر تک کبھی نہ جاتے۔ اس لیے وہ ہمارے درمیان الامین کے لقب سے معروف تھے۔
کاروبار میں ایک شخص عبداللہ بن الحسا نے آپؐ سے کہا کہ ذرا ٹھیریے میں ابھی آتا ہوں۔ لیکن وہ جا کر بھول گیا۔ پھر تین دن بعد اچانک اتفاق سے وہ ادھر سے گزرا تو آپؐ وہاں وعدے کے مطابق راستے میں ہی اس کے منتظر تھے۔ وہ آپؐ کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا تو آپؐنے اس سے صرف اتنا کہا ۔ ’’عبداللہ تم نے ہمیں بہت تکلیف دی‘‘۔ اس سے وہ شخص بہت شرمندہ ہوا لیکن آپ کا گرویدہ ہو گیا۔ قریش میں بنو ہاشم کے سردار زبیر بن عبدالمطلب کی تجویز پر ایک انجمن حلف الفضول کا قیام عمل میں آیا۔ اس انجمن میں قریش کے قبائل نے مندرجہ ذیل حلف لیا۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ :ہم ملک سے بدامنی دور کریں گے مسافروں کی حفاظت کریں گے غریبوں کی امداد کریں گے اور زیردستوں کو ظلم سے بچائیں گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑیں گے۔ اس انجمن کے اجلاس میں آپؐ بھی اپنی نوجوانی کے دور میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اپنے دور نبوت میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی اس انجمن کے نام سے کوئی کسی کو مدد کے لیے بلائے تو میں سب سے پہلے اس کی امداد پر اپنے آپ کو تیار پاوں گا۔
ایک بار سیلاب اور بارش کی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو اہل مکہ نے اس کی تعمیر نَو کا فیصلہ کیا۔ ہر قبیلہ کے ہر شخص نے اس سعادت میں حصہ لینے کے لیے تگ و دو کی یہاں تک کہ حجر اسود کے نصب کرنے کا موقع آگیا۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ سعادت اس کے حصے میں آئے۔ اس کے لیے بڑی تکرار ہوئی یہاں تک کہ جنگ و جدل کی نوبت آگئی۔ آخر کار قبیلہ کا ایک بزرگ امیہ بن مغیرہ نے مشورہ دیا کہ کسی کو ثالث بنالیا جائے۔ طے پایا کہ کل جو کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہو اسے اپنا ثالث بنالیا جائے۔ اس فیصلے کے بعد اچانک حضورؐ کعبہ میں پہلے داخل ہوئے۔ آپؐ کو دیکھ کر لوگ دور ہی سے چلانے لگے۔ یہ تو امین آرہا ہے۔ ہم اس پر راضی ہیں۔ یہ تو محمد ہے اور ہم اس کے فیصلے پر رضامند ہیں۔ حضورﷺ نے معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ایک چادر منگوائی پھر حجر اسود اس چادر میں رکھ دیا اور قبیلے کے ایک ایک سردار کو بلایا ور کہا کہ چادر کے کونوں کو پکڑ اسے اوپر اٹھائیں یہاں تک کہ پتھر اس جگہ تک پہنچ گیا جہاں اسے نصب کرنا تھا۔ چنانچہ آپ نے اسے اٹھا کر اس کے مخصوص مقام پر رکھ دیا۔ اس طرح آپ کی ذہانت اور حسن تدبیر سے ایک بڑی خونریز خانہ جنگی ٹل گئی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قریش کو آپؐپر اعلان نبوت سے پہلے کس قدر اعتماد اور یقین تھا۔
حضور اکرم ﷺ کو جس وقت غار حرا میں پہلی بار وحی کا نزول ہوا اس وقت تک آپؐ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ کے ساتھ پندرہ سال گذر چکے تھے۔ نزول وحی کے واقعے سے حضورؐ سخت متفکر ہوئے اور لرزتے ہوئے گھر تشریف لائے۔ آپؐنے حضرت خدیجہؓ سے کہا مجھے اوڑھا دو مجھے اوڑھا دو۔ چنانچہ آپ کو اوڑھا دیا گیا۔ آپؐنے حضرت خدیجہؓ سے پوچھا ’’اے خدیجہ مجھے کیا ہوگیا ہے مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہے‘‘۔ رفیقہ حیات سے بڑھ کر کون اپنے شوہر کی راز داں ہو سکتی ہے۔ حضرت خدیجہؓ حضورﷺ کو دلاسے دیتے ہوئے کہتی ہیں:
ہرگز نہیں، آپ خوش ہوجائیے اے محمد! خدا کی قسم خدا کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں سچ بولتے ہیں امانتیں ادا کرتے ہیں بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں۔ آپؐ تو اللہ کے نبی ہیں۔ (ابن سعد ص ۱۹۰)
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021