رسول اللہ ؐ کی شان بندگی سے معمور زندگی

مجاہدانہ زندگی کے ساتھ اخلاق کریمانہ کا حسین امتزاج

ابوفہد، نئی دلی

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں اور ہر پہلو ہر طرح سے روشن، تابناک اور متاثر کرنے والا ہے۔ رسول اللہ ؐ کو نبوت سے تو چالیس سال کی عمر میں سرفراز کیا گیا مگر جس زندگی کو اللہ کی طرف سے اسوۂ حسنہ کا تمغۂ امتیاز ملا، اس میں رسول اللہؐ کی نبوت سے قبل کی زندگی بھی اسی طرح شامل ہے۔ اس زندگی کے بھی بڑے نمایاں اوصاف ہیں اور اس میں بھی بے شمار خوبیاں اور اچھائیاں ہیں، اسی زندگی میں رسول اللہ ؐ صادق وامین کے القاب سے پکارے گئے اور شہر مکہ و اطراف مکہ میں موجود تمام قبائل کے مردوں، عورتوں، جوانوں اور بچوں سب کے لیے ہر دلعزیز اور محبوب بن گئے۔ یہاں تک کہ زندگی کے ہر معاملے میں اہل مکہ نے رسول اللہؐ کی ذہانت، امانت اور صداقت کا برملا اعتراف کیا۔ ہر مشکل وقت میں ان کی نگاہیں رسول اللہؐ کی طرف ہی اٹھتی رہیں۔ کعبے کی از سر نو تعمیر کا واقعہ تو سیرت کے اہم واقعات میں سے ہے، جب ایک طے شدہ بات کے مطابق رسول اللہؐ صبح سویرے سب سے پہلے بیت اللہ میں پہنچ گئے، اور پہلے پہنچنے کی شرط کے مطابق اختلافی مسئلے میں حَکَم قرار پائے تو جس نے بھی دیکھا اور سنا کہ کعبے کی تعمیر میں حجر اسود کی تنصیب کے لیے محمد بن عبد اللہ حکم قرار پائے ہیں تو اس کی بانچھیں کھل اٹھیں اور ہر ایک نے خوشی کا اظہار کیا۔ کوئی ایک آواز بھی ایسی نہ تھی، یہاں تک کہ سرگوشی بھی نہ تھی جس سے یہ اشارہ ملتا کہ کہیں نہ کہیں رسول اللہ کی ثالثی پر اتفاق نہیں ہے یا ناراضی ہے۔
رسول اللہؐ نبوت سے پہلے اپنے معاشرے میں اور آس پاس کے ماحول میں پوری طرح گھلے ملے ہوئے تھے۔ رسول اللہؐ نے معاشرے سے دور رہ کر اور کٹ کر زندگی نہیں گزاری، البتہ آپ کی کچھ ترجیحات تھیں اور کچھ اصول تھے، جو آپ کو دیگر شرفائے مکہ سے ممتاز کرتے تھے اور آپ کی زندگی کی گاڑی بالکل ہی الگ پیٹرن پر چل رہی تھی۔ انہی ترجیحات کے باعث ایسا ہوتا تھا کہ آپ خیر اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور برائی وفحاشی کی باتوں اور کاموں سے پرہیز کرتے تھے۔ جب لوگ لہو ولعب میں مشغول ہوتے تو رسول اللہ ؐ غور وفکر میں محو رہتے تھے۔ رسول اللہ ؐ کی بنیادی سوچ اور فکر کائنات کے بارے میں تھی، کائنات کے پیدا کرنے والے کے بارے میں بھی اور خود انسان کے مقصدِ وجود کے تعلق سے بھی تھی۔ اپنی اسی غور و فکر کی عادت کی بنا پر رسول اللہ ؐ بستی کے شور و ہنگامے سے دور ایک پہاڑی پر چلے جاتے اور وہاں کئی کئی گھنٹے اور بعض اوقات کئی کئی دن اور راتیں گزارتے تھے۔اللہ نے اپنے رسول کو ظاہری حسن وخوبی سے بھی خوب نوازا تھا اور ذاتی کمالات و کسبی امتیازات سے بھی خوب مالامال کیا تھا۔ رسول اللہ ؐ خوب صورت بھی تھے اور خوب سیرت بھی تھے۔ رسول اللہ ؐ کے حسنِ اخلاق کی گواہی خود اللہ نے دی ہے، فرمان ہے: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ(القلم، 68: 4) ’’بیشک آپ اعلیٰ اخلاق وکردار والے ہیں‘‘ اور صرف گواہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تمام بنی نوع انسانی کو عام طور پر اور اہلِ ایمان کو خاص طور پر ہدایت بھی دی کہ وہ بھی ایسے ہی اخلاق وکردار کے حامل بنیں۔ فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ’’ اے لوگو! رسول اللہ کی ذات تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘رسول اللہ ؐ کے اخلاق کریمانہ کی شہادت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ خود رسول اللہ ؐ نے بھی اس بات کی شہادت دی کہ ان کی زندگی کا مقصد عالم انسانی کو اعلیٰ اخلاق سے روشناس کرانا ہے۔فرمایا: إِنَّمَا بُعِثتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخلَاقِ ’’میں اللہ کے بندوں کو اخلاق کی اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے آیا ہوں‘‘ پھر رسول اللہ ؐ دل وجان سے یہی چاہتے بھی تھے، اسی لیے وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہمیشہ دست بہ دعا رہتے تھے اور اللہ نے اپنے رسول کو جس ظاہری وجسمانی خوبی یعنی حسنِ صورت سے نوازا تھا اسی کا حوالہ دے کر اللہ سے عرض کرتے تھے کہ اےاللہ! جس طرح تو نے مجھے ظاہری حسن سے آراستہ کیا ہے اسی طرح مجھے باطنی حسن سے بھی آراستہ فرما۔ یہ دعا گویا آپ کے لیے دن رات کا وظیفہ تھی: الَّلهُمَّ حَسَّنتَ خَلْقِي فَحَسِّن خُلُقِي ’’ اے اللہ! تو نے میری تخلیق بہترین ساخت پر کی ہے ، میرے اخلاق وکردار کو بھی اچھا کردے۔‘‘
رسول اللہ ؐ کی زندگی انسانی معاشرے کے لیے سراپا رحمت تھی اور آپ کی زندگی کے اس پہلو کا سب سے اہم اور بڑا حوالہ قرآن کا وہ بیان ہے جس میں اللہ نے اپنے رسول کی بعثت کا مقصد واضح کیا ہے، فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الانبیاء:107) ’’ اے رسول! ہم نے تمہیں تمام جہا‌ں والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘
اسی لیے کہ رسول اللہؐ لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل، سب سے زیادہ محبت کرنے والے، سب سے زیادہ شفقت فرمانے والے اور سب سے زیادہ معاف کرنے والے تھے۔ بادشاہوں کا اور عام انسانوں کا مزاج تو یہی ہے کہ وہ جب بھی کسی پر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں تو اس سے انتقام لیتے ہیں ایک فرد دوسرے فرد کے ساتھ اور ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے اور یہ آج کل بھی ہوتا ہے۔ جس کل کے بارے میں آج کے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ غیر متمدن اور غیر مہذب زمانہ تھا۔ اور یہ آج بھی ہو رہا ہے اور تہذیب وتمدن کی بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ ہورہا ہے۔ مگر رسول اللہ ؐ نے اپنی پوری زندگی میں اس کے بالکل ہی برعکس کردار ادا کیا، جب بھی آپ نے کسی پر غلبہ حاصل کیا اسے معاف کر دیا۔ زندگی کے پہلے حصے میں یہ انفرادی سطح پر ہوا مگر آخری حصے میں ریاستی سطح پر اور ملک گیر پیمانے پر ہوا۔ اوررسول اللہ ؐ کے معافی دینے والے کردار کی سب بڑی شہادت فتح مکہ کے دن سامنے آئی جب رسول اللہ ؐکے پاس طاقت تھی، فوج تھی اور دشمن زیر نگیں تھا۔ برسوں کے دشمن آج گھروں میں اور بیت اللہ میں دبک کر بیٹھ گئے تھے اور خوف سے لرز رہے تھے۔ آپ چاہتے تو گزشتہ بیس سالوں کی تعذیبِ مسلسل کا بدلہ لے لیتے بلکہ اپنے سپاہیوں کو بھی اجازت دیتے کہ وہ بھی ماضی کے ان زخموں کا پورا پورا حساب بے باق کرلیں جو اہل مکہ نے ہر ہر قدم پر لگائے تھے، مگر قربان جائیے رسولِ رحمت کی رحم دلی پر اور عام معافی دینے والے نبوی مزاج پر کہ اس انتقام کے دن بھی رسول اللہ ؐ نے اس عام انسانی مزاج کے بالکل برعکس کردار ادا کیا اور عام معافی کا اعلان کر دیا۔
رسول اللہؐ ابھی مکہ کے دروازے پر ہی تھے اور ابھی پوری طرح فتح حاصل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اعلان فرما دیا کہ آج انتقام کا دن نہیں بلکہ رحمتیں لٹانے کا دن ہے۔ چنانچہ جب سعدؓ بن عبادہ نے فتح کے جوش میں کہا: يَا أَبَا سُفْيَانَ! اليَوْمَ يَوْمُ المَلْحَمَةِ، اليَوْمَ تُسْتَحَلُّ الكَعْبَةُ ’’ابوسفیان! آج خونریزی کا دن ہے، آج کعبے کی حرمت حلال کردی جائے گی ‘‘تورسول اللہؐ نے ان کی سرزنش کی اور فرمایا: كَذَبَ سَعْدٌ، وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الكَعْبَةَ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الكَعْبَةُ ’’سعد نے جھوٹ کہا، آج تو اللہ کعبے کو عظمتیں عطا فرمائے گا، آج تو کعبے کو لباس پہنایا جائے گا‘ آج تو رحمت وشفقت کا دن ہے، آج تو کعبے کی عظمت بحال کی جائے گی‘‘۔
پھر جب اہل مکہ سرنگوں ہو گئے اور بغیر کسی بڑی لڑائی کے مکہ فتح ہو گیا تو رسول اللہ ؐ نے اہل مکہ کے سرداروں کو مخاطب کر کے پوچھا کہ تم مجھ سے کیا توقعات رکھتے ہو؟ انہوں نے رحم اور رعایت کی درخواست کی تو رسول اللہ ؐ نے اعلان فرمایا جاؤ! تم سب آزاد ہو۔ آج تم سے کچھ بھی مؤاخذہ نہیں کیا جائے گا۔ فرمایا: لاَتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْم اِذْہَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَآءُرسول اللہؐ کے یہی وہ اخلاق کریمانہ تھے جن کی گواہی بہت ہی قریبی لوگوں نے بھی دی اور دور دراز کے لوگوں نے بھی دی، دوستوں نے بھی دی اور دشمنوں بھی دی۔رسول اللہؐ کی شریک حیات حضرت خدیجہؓ سے زیادہ قریب اور کون ہستی ہوسکتی ہے، جب انہوں نے رسول اللہ ؐ کو رفاقت کے لیے پسند فرمایا تو اس کی یہی علت بیان کی کہ رسول اللہؐ کے اخلاق بڑے کریمانہ ہیں اور آپ بہت ہی سچے انسان ہیں۔ فرمایا: اِنِّيْ قَدْ رَغِبْتُ فِيْكَ لِحُسْنِ خُلْقِكَ وَ صِدْقِ حَدِيْـثِكَ ’’مجھے آپ اس لیے اچھے لگے کہ آپ کے اخلاق وکردار بڑے اعلیٰ ہیں اور آپ بہت سچے انسان ہیں‘‘
اور ایک اور موقع پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور رسول اللہ ؐ بہ تقاضائے بشریت اپنی جان پر خوف محسوس کرنے لگے تو حضرت خدیجہؓ عنہا نے جن الفاظ میں رسول اللہ ؐ کو دلاسہ دیا اور جن صفات کے حوالے سے دیا، وہ رسول اللہؐ کے اخلاق کریمانہ کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ ان کے الفاظ تھے: کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا، اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری ومسلم)
’’خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں، بے کسوں کو مال وزر سے نوازتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
رسول اللہ ؐ کا ابوجہل سے بڑا دشمن کوئی نہیں تھا مگر جب اس سے تنہائی میں پوچھا گیا کہ محمد کے بارے میں اس کی کیا رائے ہے، وہ جھوٹے ہیں یا سچے؟ تو اس نے برملا کہا۔ ’’خدا کی قسم محمد سچے ہیں۔ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ابوجہل چونکہ رسول اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ اگروہ ایسا کرتا تو لوگ خود اسے جھوٹا کہتے، لوگ کہتے کہ ابوالحکم تم محمد کو کیسے جھوٹا کہہ سکتے ہو، ہم نے تو کبھی بھی انہیں جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا۔ اس لیے اس نے رسول اللہ ؐ کی طرف جھوٹ کی نسبت نہیں کی، البتہ رسول اللہ ؐ کے دین کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ناجية بن كعب کہتے ہیں کہ ابوجہل نے رسول اللہ ؐ سے کہا:
’’ہم تم پر تہمت نہیں لگاتے، نہ ہی آپ کو جھوٹا سمجھتے ہیں مگر ہم اس دین کا انکار کرتے ہیں جو تم لے کر آئے ہو۔‘‘
رسول اللہ ؐ کی امانت داری کا سب سے بڑا ثبوت ہجرتِ مدینہ سے ٹھیک ایک دن پہلے کا وہ واقعہ ہے جب مکہ کے تمام قبائل نے (نعوذ باللہ) رسول اللہ ؐ کو قتل کرنے کا رازدارانہ منصوبہ بنایا اور رات کی تاریکی میں رسول اللہؐ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اس وقت بھی رسول اللہ کے پاس اہل مکہ کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں۔ مگر رسول اللہؐ نے اس صورت میں بھی گوارا نہ کیا کہ لوگوں کی امانتوں میں خیانت کی جائے۔ رسول اللہ ؐ نے حضرت علیؓ کو مدینے میں اسی غرض سے چھوڑ دیا کہ وہ سب لوگوں کی امانتیں انہیں لوٹا دیں اور پھر ہجرت کرکے مدینہ پہنچیں۔رسول اللہؐ کی زندگی کے آخری تئیس سال بہت ہی ہنگامہ خیز رہے ہیں۔ جب قرآن نازل ہونا شروع ہوا، پھر اس کے معاً بعد دعوت وتبلیغ کا کام شروع ہوا۔ دوست دشمن بن گئے اور کل تک ساتھ رہنے والوں نے آنکھیں پھیر لیں، مکہ کے تمام افراد نے رسول اللہؐ سے اور ان کے گھر والوں سے بات کرنا تک چھوڑ دیا، یہاں تک کہ مقاطعہ کیا گیا اور تین سال کے طویل عرصے تک اہلِ ایمان کے مٹھی بھر افراد کو بستی سے دور بے سروسامانی کے عالم میں شعب ابی طالب میں گزارنے پڑے، وہ بھی اس طرح کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی دستیاب نہیں تھیں۔ کئی ساتھی بھوک کی شدت کی تاب نہ لا کر ابدی نیند سو گئے۔ تین تین بار ہجرت کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں، لڑائیاں ہوئیں، معاہدے ہوئے صلح ہوئی شکت و فتح سے گزرنا پڑا۔ میدانِ جنگ میں وہ وقت بھی آیا جب ایک ہی خاندان کے دو افراد آمنے سامنے آگئے، باپ کے سامنے بیٹا اور بیٹے کے سامنے باپ تلوار لیے میدان میں اتر گئے۔ جب لالچ دے کر آپ کو جان سے مارنے کی پلاننگ تک کی گئی۔ مگر رسول اللہؐ نے تائیدِ غیبی، اپنی بے پناہ ذہانت، صبر واستقامت، حسن معاملہ اور تدبیر وحکمت کے بل بوتے پر بد سے بدترین حالات کو بھی اپنے موافق کرنے میں کامیابی حاصل کی، یہاں تک کہ مکہ فتح ہوا اور سارا کا سارا عرب آپ کے قدموں میں آگیا۔ رسول اللہؐ نے انہی ہنگامہ خیز ایام میں عبادت وریاضت میں کچھ بھی کمی واقع ہونے نہیں دی بلکہ عبادت بھی اس طرح دلجمعی کے ساتھ کی کہ کوئی دوسرا فارغ البالی اور فرصت کے اوقات میں بھی اتنی دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ عبادت نہیں کرسکتا۔ رسول اللہؐ نماز میں بعض اوقات اتنی دیر تک کھڑے رہتے تھے کہ پاؤں مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ ایک طرف جہاد کی مشغولیت بھی درپیش ہے، قرآن بھی نازل ہو رہا ہے، اسے محفوظ کرنے اور یاد رکھنے کی بھی فکر ہے، اطراف کے بستیوں سے اور ممالک سے وفود بھی آ رہے ہیں، ان سے ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں، دین کی تعلیم بھی دی جارہی ہے اور تبلیغ بھی ہورہی ہے، بادشاہوں کو خطوط بھی لکھے جارہے ہیں، اسفار بھی درپیش ہیں، شادی ونکاح کی محفلیں بھی ہیں اور غم واندوہ کے واقعات بھی ہیں، شہداء کی نمازیں پڑھی جارہی ہیں اور تدفین ہورہی ہے، لوگوں کے آپسی معاملات کا اور جھگڑوں کو بھی نمٹایا جارہا ہے۔ گھر سے لے کر منبر ومحراب اور میدان جہاد تک ہر جگہ اور ہر مقام پر رسول اللہؐ بنفس نفیس قیادت فرمارہے ہیں۔ اور پھر اس ساری ہنگامہ خیز زندگی کے پہلو بہ پہلو مکمل سکون اور تخلیے والی زندگی بھی ہے جس میں اللہ کے سامنے آنسو بہائے جارہے ہیں اور اللہ کی بارگاہ عالیہ میں اپنے سر کو اس طرح ڈال دیا گیا ہے جیسے اٹھانا ہی بھول گئے ہوں، جیسےفرصت ہی فرصت ہے اور وقت ہی وقت ہے۔ اور پھر جیسے جیسے باہر کی ذمہ داریاں بڑھتی جارہی ہیں عبادت وریاضت میں بھی اسی نسبت سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو ترس آتا ہے اور وہ سوال کرتی ہیں ائے اللہ کے رسول آپ اتنی ریاضت کیوں کرتے ہیں آپ کو تو اللہ نے مغفرت کا پروانہ عطا فرما ہی دیا ہے، تو رسول اللہؐ جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:أَفَلَا أَكُونَ عَبْدًا شَكُوراً ’’ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘۔

رسول اللہؐ نے تائیدِ غیبی، اپنی بے پناہ ذہانت، صبر واستقامت، حسن معاملہ اور تدبیر وحکمت کے بل بوتے پر بد سے بدترین حالات کو بھی اپنے موافق کرنے میں کامیابی حاصل کی، یہاں تک کہ مکہ فتح ہوا اور سارا کا سارا عرب آپ کے قدموں میں آگیا۔ رسول اللہؐ نے انہی ہنگامہ خیز ایام میں عبادت وریاضت میں کچھ بھی کمی واقع ہونے نہیں دی بلکہ عبادت بھی اس طرح دلجمعی کے ساتھ کی کہ کوئی دوسرا فارغ البالی اور فرصت کے اوقات میں بھی اتنی دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ عبادت نہیں کرسکتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020