رسائل و مسائل
محمد رضی الاسلام ندوی
کیا زکوٰۃ کی سرمایہ کاری جائز ہے؟
سوال: ہمارے ننھیال میں ایک زکوٰۃ فنڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ چوں کہ خاندان کے کافی افراد بیرون ملک مقیم ہیں، اس لیے اس فنڈ میں اچھی خاصی رقم جمع ہوجاتی ہے۔ اہلِ خاندان کے اتفاق سے یہ بات طے پائی ہے کہ جمع شدہ رقم کا تقریباً ستّر فی صد (70%) حصہ اپنے شہر اور اطراف کے لوگوں کے لیے معاش کے ذرائع کھڑے کرنے اور انہیں خود کفیل بنانے کے لیے استعمال کیا جائے، باقی رقم تعلیم، صحت اور ہنگامی مصارف میں استعمال کی جائے۔ اسی کے تحت ایک پروجیکٹ پیش کیا گیا، جس میں ایک ورک شاپ کی نوعیت کا شیڈ ڈالنے کا پروپوزل ہے۔ شیڈ کے لیے زمین دست یاب ہے، جو ایک اسکول سے منسلک ہے۔ یہ اسکول بھی رفاہی نوعیت کا ہے اور اس میں معاشی طور پر کم زور گھروں سے تعلق رکھنے والے بچے ہی ہیں۔اس شیڈ کا استعمال مختلف مصارف میں ہوگا، جو ذیل میں درج ہیں:
– ایل ای ڈی بلب کی تیاری۔
– الیکٹریشن کے کام، پلمبنگ، ایر کنڈیشننگ کی ٹریننگ۔
– تربیت یافتہ افراد کے لیے ورک شاپ اور ٹولز فراہم کرنا، جن سے وہ اپنا کام کرسکیں۔
– خواتین کو سلائی کرنے اور موم بتی وغیرہ بنانے کی سہولیات فراہم کرنا۔
ان میں سب سے پہلا کام ایل ای ڈی بلب کی تیاری کا ہے۔اس کا کل کچّا مال ایک کمپنی فراہم کرے گی، ساتھ ہی کام کی تربیت اور معاوضہ سب وہی کمپنی دے گی۔ تیار شدہ بلب وہی کمپنی بازار میں اپنے طور پر فروخت کرے گی۔ اس شیڈ میں چلنے والی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے والے نّوے فی صد(90%) مسلم ہوں گے۔ دس فی صد (10%) برادرانِ وطن ہوسکتے ہیں۔
اس شیڈ کی تعمیر اور اس میں مشینری لگانے میں آنے والے مصارف کو زکوٰۃ فنڈ سے ادا کرنے کا پروپوزل ہے۔ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں، کیا اس کام میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جا سکتی ہے؟
جواب: قرآن کریم میں مال کو ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ (النساء: ۵) شریعت چاہتی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے وہ اس میں اللہ کے دوسرے بندوں کا حق پہچانیں اور ان کی مدد کریں۔ چناں چہ انفاق کے عمومی احکام دیے گئے ہیں، ساتھ ہی جب مخصوص اموال متعین مقدار سے زیادہ ہو جائیں اور کسی شخص کے پاس ایک سال تک رہیں تو ان میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ زکوٰۃ کی مخصوص مدّات ہیں، جنھیں سورہ التوبہ (آیت ۶۰ ) میں بیان کر دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کے دو بڑے مصارف فقرا و مساکین ہیں۔
زکوٰۃ کا مقصد فقرا و مساکین کی ضروریات کی تکمیل ہے۔ اس لیے مطلوب یہ ہے کہ اموالِ زکوٰۃ پہنچانے میں بلا کسی عذر کے تاخیر نہ کی جائے۔ یہ روح شریعت کے خلاف ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجتے وقت انھیں یہ ہدایت دی تھی:
فَاَخْبِرْھُمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ فَتُرَدُّ عَلیٰ فُقَرَائِھِمْ (بخاری: ۱۴۹۶، مسلم: ۱۹)
’’تم انھیں بتاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ (یعنی زکوٰۃ) فرض کیا ہے، جو ان کے مال داروں
سے لیا جاتا ہے اور ان کے غریبوں کو لوٹا دیا جاتا ہے۔‘‘
چناں چہ خود رسول اللہ ﷺ کا اور خلفاء راشدین کا بھی یہی معمول تھا کہ جو کچھ مالِ زکوٰۃ اکٹھا ہوتا، اسے جلد از جلد غریبوں میں تقسیم کروا دیتے تھے۔
موجودہ دور میں ایک نیا مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ کیا نفع بخش تجارتی منصوبوں میں اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے؟ اس کی ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ دینی اور رفاہی تنظیموں اور زکوٰۃ کے جمع و صرف کا کام انجام دینے والے اداروں کے پاس جو زکوٰۃ اکٹھا ہو اسے وہ فوری طور پر غریبوں میں تقسیم نہ کریں، بلکہ تجارتی منصوبوں میں لگا دیں، پھر ان سے جو منافع حاصل ہو اسے غریبوں میں تقسیم کریں۔ فقہائے متقدمین کے یہاں یہ بحث نہیں ملتی۔ اس لیے کہ پہلے کے زمانوں میں جو کچھ مالِ زکوٰۃ جمع ہوتی تھی اسے بلا تاخیرمستحق افراد کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ موجودہ دور کے فقہاء نے اس مسئلہ میں غور کیا تو ان کی جانب سے دو رائیں سامنے آئیں۔ بعض فقہاء نے اموالِ زکوٰۃ میں سرمایہ کاری کو ناجائز قرار دیا ہے اور بعض کچھ شرائط کے ساتھ اسے جائز کہتے ہیں۔ ناجائز قرار دینے والوں میں مولانامفتی محمد تقی عثمانی، شیخ ابن عثیمین، ڈاکٹر عبد اللہ العلوان اور ڈاکٹر محمد عطا السید ہیں اور جواز کے قائلین میں شیخ مصطفی الزرقاء، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ، ڈاکٹر وہبہ زحیلی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، ڈاکٹر عبد العزیز خیاط، ڈاکٹر عبد السلام العبادی، ڈاکٹر حسن عبد اللہ الامین، ڈاکٹر محمد صلاح الفرفور، ڈاکٹر محمد فاروق النبہان، ڈاکٹر حسین شحاتہ، ڈاکٹر حسام الدین عفانہ، شیخ صابون محمد، شیخ احمد خلیلی اور ڈاکٹر فرید واصل قابل ذکر ہیں۔
سرمایہ کاری کے عدم جواز کے قائلین نے درج ذیل دلائل دیے ہیں:
۱۔ مصارف زکوٰۃ کے بیان (التوبۃ: ۶۰) میں ’حصر‘ ہے۔ آیت میں ’اِنَّمَا‘ کا لفظ آیا ہے، یعنی زکوٰۃ صرف انہی مدات میں خرچ کی جاسکتی ہے۔
۲۔ آیت میں’ لام تملیک‘ کا استعمال ہوا ہے۔ (لِلْفُقَرَآءِ)،یعنی فقراء کو مالک بنانا ضروری ہے۔ ان کی ملکیت میں جائے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں سمجھی جائے گی۔
۳۔ زکوٰۃ کا مقصد فقراء کی ضروریات کی تکمیل ہے۔ اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کرنے سے ان کی ضروریات کی فوری تکمیل ممکن نہیں، بلکہ ان تک زکوٰۃ پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے۔
۴۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں مکمل زکوٰۃ مستحقین پر صرف نہیں ہوتی، بلکہ کچھ سرمایہ کاری منصوبوں میں لگی رہتی ہے۔
۵۔ سرمایہ کاری میں خسارے کا امکان رہتا ہے، کیوں کہ تجارت میں نفع بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی۔ اس لیے غریبوں کے مفادات کے پیش نظر یہ خطرہ مول لینا درست نہیں۔
۶۔ سرمایہ کاری کی وجہ سے زکوٰۃ کا خاصا حصہ انتظامی کاموں میں صرف ہوجاتا ہے۔
۷۔ زکوٰۃ جمع کرنے والوں کے پاس وہ مال بہ طور امانت ہوتا ہے۔ وہ اسے غریبوں تک پہنچانے کے پابند ہوتے ہیں۔ انھیں اس میں تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں رہتا۔
سرمایہ کاری کے جواز کے قائلین یہ دلائل دیتے ہیں:
۱۔ آیتِ مصارفِ زکوٰۃ میں ’حصر‘ کا مطلب یہ ہے کہ صرف انہی مستحقین کو زکوٰۃ دی جائے جن کا آیت میں ذکر ہے۔ ان کو زکوٰۃ کس طرح دی جائے؟ اس کی صراحت نہیں ہے۔ یہ ایک اجتہادی امر ہے۔ چناں چہ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کرکے اور اس میں اضافہ کرکے اسے غریبوں کو دیا جاسکتا ہے۔
۲۔ زکوٰۃ میں تملیک کی شرط تمام فقہاء کے نزدیک نہیں ہے۔ احناف کے نزدیک آٹھوں مصارف کے لیے تملیک شرط ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک صرف چار اصناف کے لیے تملیک ضروری ہے۔ مالکیہ ابتدائی چار اصناف کے ساتھ مسافر(ابن السبیل )کے لیے بھی تملیک ضروری قرار دیتے ہیں۔ علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ تملیک کی شرط کسی کے لیے نہیں ہے۔ بعض معاصر فقہاء مثلاً شیخ مصفطی الزرقاء اور شیخ محمد ابو زہرہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
۳۔ فقراء تک مالِ زکوٰۃ جلد از جلد پہنچانا پسندیدہ اور بہتر ہے، البتہ اگر کسی سبب سے کچھ تاخیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپؐ کے ہاتھ میں داغ لگانے کا آلہ ہے اور آپؐ زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگا رہے ہیں۔ (بخاری: ۱۵۰۲) اگر اونٹوں کو فوراً مستحقین کو دے دینا ضروری ہوتا تو حفاظت اور پہچان کے مقصد سے ان پر داغ لگانے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔
۴۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں تجارت میں جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ غریبوں پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ جو باقی رقم سرمایہ کے منصوبوں میں لگی رہتی ہے اس کا فائدہ بھی آخر کار غریبوں ہی تک پہنچتا ہے، اگرچہ اس میں کچھ تاخیر ہوتی ہے۔ مستحقین ہی کے مصالح کی بنا پر اتنی تاخیر گوارا کی جاسکتی ہے۔
۵۔ ہر تجارت میں نفع اور خسارہ دونوں کا امکان رہتا ہے۔ خسارے کے اندیشے سے تجارت سے ہاتھ نہیں کھینچ لیا جاتا۔ منصوبوں کا تفصیلی اور باریکی سے جائزہ لینے کے بعد کسی ایسے نفع بخش پروجکٹ کا انتخاب کیا جائے جس میں خسارے کا امکان کم سے کم ہو اور نگرانی کے لیے ماہر، ایمان دار اور اچھی انتظامی صلاحیت رکھنے والا عملہ رکھا جائے تو خسارے کا امکان بہت کم رہے گا۔ نقصان کا خطرہ مزید کم کرنے کے لیے یہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی ایک پروجکٹ کے بجائے متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔
۶۔زکوٰۃ کو انتظامی کاموں میں خرچ کرنا ممنوع نہیں ہے۔ چناں چہ ایک مستقل مد ’عاملین‘ کی بیان کی گئی ہے۔ اگر زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کی اچھی طرح منصوبہ بندی کی جائے تو انتظامی کاموں پر زیادہ صرفہ نہیں آئے گا۔
۷۔ اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کو خیانت سے نہیں تعبیر کیا جاسکتا۔ سرمایہ کاری کرنے والوں کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ ان اموال میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور ان کا فائدہ غریبوں تک پہنچے۔ ان کا یہ عمل ان میں بے جا تصرف نہیں، بلکہ حسنِ انتظام کے ذیل میں آتا ہے۔
اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کا موضوع فقہی اکیڈمیوں میں بھی زیر بحث آیا ہے۔ بعض اکیڈمیوں میں اس کے جائز ہونے کی تجویز منظور ہوئی ہے تو بعض نے ناجائز ہونے کی رائے دی ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں معاصر فقہاء کے یہاں جواز اور عدم جواز، دونوں طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اجتہادی اور استنباطی مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک راجح یہ رائے ہے کہ مالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے، البتہ اس میں چند شرائط کو لازماً ملحوظ رکھنا چاہیے:
۱۔ کل اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری نہ کی جائے، بلکہ زیادہ حصہ غریبوں اور مستحقین کو دے دیا جائے، تھوڑے حصے کو سرمایہ کاری کے منصوبوں میں لگایا جائے۔
۲۔ سرمایہ کاری مختصر مدت کے منصوبوں میں کی جائے، تاکہ زیادہ عرصہ تک زکوٰۃ پھنسی نہ رہے اور مستحقین جلد از جلد اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
۳۔ مالِ زکوٰۃ ایسے منصوبے میں لگایا جائے جس میں نفع کی قوی امید ہو اور خسارہ کا امکان کم سے کم ہو۔ نگرانی کے لیے ماہر، با صلاحیت، تجربہ کار اور ایمان دار افراد کی خدمات حاصل کی جائیں۔ بہتر ہے کہ سرمایہ کاری ایک سے زیادہ منصوبوں میں کی جائے، تاکہ کسی منصوبے میں ممکنہ خسارہ کا اثر دیگر منصوبوں پر نہ پڑے۔
کیا بیوہ عورت دورانِ عدّت دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟
سوال: ایک خاندان اپنے آبائی گاؤں سے ساٹھ(۶۰) کلومیٹر دور ایک شہر میں مستقل رہنے لگا، جہاں اس کا اپنا ذاتی مکان اورگھر گرہستی ہے۔ اسی گھر میں رہتے ہوئے شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا۔ خاندان کے لوگوں نے یہی مناسب سمجھا کہ متوفی کی تدفین اپنے آبائی گاؤں کے آبائی قبرستان میں ہو۔اب تدفین کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ متوفی کی بیوہ چاہتی ہیں کہ وہ اسی شہر میں واپس لوٹ جائیں جہاں شوہر کی زندگی میں ان کے ساتھ رہتی تھیں اور عدّت کے باقی ایام وہیں گزاریں۔اس میں گھر کی نگرانی اوردیگر امور کی انجام دہی آسان ہے۔ بعض خواتین اس کو معیوب اور شریعت کے خلاف سمجھ کر ایسا کرنے سے روک رہی ہیں۔
براہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں کہ کیا وہ خاتون نقلِ مکانی کرکے اپنے شہر والے گھر میں عدّت کے باقی ایام گزار سکتی ہیں؟
جواب: عدّت کے احکام قرآن و حدیث میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ان میں اس کی بھی صراحت ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ عورت عدّت کہا ں گزارے گی۔ سورہ طلاق میں عدّت کے عمومی احکام کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ (الطلاق:۱)
’’نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعہ بنت مالکؓ کے شوہر کو کچھ لوگوں نے قتل کردیا۔ وہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:’’میرے شوہر کسی گھر کے مالک نہیں ہیں اور انھوں نے کچھ چھوڑا بھی نہیں ہے، جس سے میری گزر بسر ہو سکے۔ کیا میں اپنے ماں باپ کے گھر جاکر عدّت گزار سکتی ہوں؟‘‘ آپؐ نے پہلے تو اجازت دے دی، لیکن بعد میں انہیں بلا کر حکم دیا کہ جہاں شوہر کی وفات کے وقت تھیں وہیں رہ کر عدّت گزاریں۔‘‘ (موطا مالک:۱۷۲۹)
خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تو انھوں نے حضرت فریعہؓ کو بلا کر دریافت کیا کہ انہیں اللہ کے رسول ﷺ نے کیا حکم دیا تھا؟ انھوں نے تفصیل بتائی تو اسی کے مطابق انھوں نے فیصلہ کردیا اور تمام صحابہ نے اس سے اتفاق کیا۔ (موطا، حوالہ سابق)
صحابۂ کرام میں سے حضرت عمرؓ، ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ ؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت ام سلمہؓ اور تابعین میں سے ثوریؒ اور اوزاعیؒ کی یہی رائے ہے۔
اس بنا پرجمہور فقہاء کے نزدیک عورت عدّت اسی جگہ گزارے گی جہاں وہ شوہر کی زندگی میں اور اس کی وفات سے قبل اس کے ساتھ رہتی تھی، یا اگر شوہر ساتھ میں نہیں رہتا تھا تو اس کی وفات کی خبر آنے کے وقت بیوی جہاں رہتی تھی وہیں عدّت گزارے گی۔ البتہ اگر عورت کہیں گئی ہوئی ہو اور اچانک اسے شوہر کی وفات کی خبر ملے تو وہ فوراً اپنے گھر، جہاں وہ شوہر کے ساتھ رہتی تھی، واپس آجائے گی اور وہیں عدّت گزارے گی۔ یہی حکم اس صورت کا بھی ہوگا کہ زوجین ملازمت یا کسی اور وجہ سے آبائی وطن کے علاوہ اور کہیں رہتے ہوں، شوہر کا انتقال ہونے پر اس کے خاندان والے تدفین کے لیے اسے اس کے آبائی وطن لے جائیں، بیوی اس کے ساتھ جائے، تو تدفین سے فارغ ہونے کے بعد بیوی وہیں آجائے گی جہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی اور وہیں عدّت گزارے گی۔
صحابۂ کرام میں سے حضرت علیؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت جابرؓ، حضرت عائشہؓ اور تابعین میں سے ابن زیدؒ، حسن بصریؒ اور عطاؒ کی رائے ہے کہ عورت جہاں چاہے اور جہاں اسے سہولت ہو، وہاں عدّت گزار سکتی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تقسیمِ میراث کا حکم آجانے کے بعد ’سکنیٰ‘ کا حکم ساقط ہوگیا۔ وہ وراثت کی مستحق ہوگی اور جہاں چاہے، عدّت گزار سکتی ہے۔
میری رائے میں عام حالات میں عورت کو وہیں عدّت گزارنی چاہیے جہاں وہ شوہر کی زندگی میں اور اس کی وفات سے قبل رہتی تھی، البتہ اگر دورانِ عدّت وہاں رہنے میں کوئی دشواری اور زحمت ہو، مثلاً وہاں اس کے ساتھ رہنے والا اور کوئی نہ ہو، وہاں اس کا تنہا رہنا پُرخطر ہو، یا اور کوئی عذر ہو تو اس کے لیے کسی دوسری پُرامن، محفوظ اور سہولت والی جگہ منتقل ہوکر وہاں عدّت گزارنا درست ہوگا۔
وراثت کا ایک مسئلہ
سوال: ایک صاحب کا انتقال ہوا۔ ان کی وراثت میں ایک کھیت ہے، جس کی قیمت تیرہ (۱۳) لاکھ روپے ہے اور ایک گھر ہے، جس کی قیمت پانچ (۵) لاکھ روپے ہے۔ ان کی چار (۴) لڑکیاں اور تین (۳) لڑکے ہیں۔ والد اور والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ بیوی بھی وفات پا چکی ہیں۔ انھوں نے گھر کے ایک حصے میں کمرہ بنا کر اپنے ایک لڑکے کو پہلے ہی دے دیا تھا۔ باقی حصے میں ان کے دو (۲) لڑکے اور چار(۴) لڑکیاں رہتی ہیں۔
والد اور والدہ کے علاج پر دو(۲) لڑکوں نے ساڑھے چار لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ انھیں وہ رقم الگ سے ملے۔
براہِ کرم واضح فرمائیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے گھر اور کھیت میں سے کس کو کتنی رقم ملے گی؟
جواب: وراثت کے جو احکام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کے مطابق اگر کسی شخص کا انتقال ہو اور اس کے ورثہ میں صرف اس کے تین (۳) لڑکے اور چار (۴) لڑکیاں ہوں تو لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ۔ النساء: ۱۱ (مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔) کے اصول کے مطابق کل مالِ وراثت کے دس (۱۰) حصے کیے جائیں گے۔ ہر لڑکے کو دو دو حصے اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ دوسرے الفاظ میں، ہر لڑکے کا حصہ بیس فی صد اور ہر لڑکی کا حصہ دس فی صد ہوگا۔
اگر باپ اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزیں اولاد میں تقسیم کررہا ہو تو شریعت کا منشا یہ ہے کہ وہ سب کو برابر دے۔
اگر کسی شخص نے اپنے گھر کا کوئی حصہ اپنے ایک بیٹے کو رہنے کے لیے دے دیا ہو تو دیکھا جائے گا کہ اس نے اسے ہبہ کردیا تھا اور اس کا مالک بنا دیا تھا یا نہیں۔ اگر ہبہ کردیا ہو تو وہ لڑکا اس کا مالک سمجھا جائے گا اور گھر کے اُس حصے کو مالِ وراثت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ باقی مالِ وراثت کی تقسیم ہوگی تو تمام ورثہ کے ساتھ وہ لڑکا بھی اپنا حصہ پائے گا۔
والد اور والدہ کی زندگی میں ان کے علاج پر لڑکوں نے جو کچھ خرچ کیا ہو، مالِ وراثت میں سے اس کا تقاضا کرنا درست نہیں ہے۔ لڑکوں نے والدین کی جو کچھ خدمت کی ہے، انھیں اپنی کمائی میں سے جو کچھ دیا ہے اور ان کے علاج معالجہ پر جو کچھ خرچ کیا ہے اس کا شمار حسنِ سلوک میں ہوگا اور اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر کے مستحق ہوں گے۔