رسائل و مسائل: دعوتِ دین کے منہج سے متعلق چند اشکالات
محمد رضی الاسلام ندوی
سوال: ہمارے علاقے میں ایک صاحب غیر مسلموں میں دعوتِ دین کا خوب کام کرتے ہیں، لیکن ان کامنہجِ دعوت اس میدان میں کام کرنے والے دوسرے لوگوں سے مختلف ہے اور ان کے بعض افکار بھی جمہورِ امت سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ ان کے سامنے قرآن کی تعلیمات پیش نہیں کرتے، بلکہ صرف انھی کی مذہبی کتابوں سے استدلال کرتے ہیں اور انھی کے حوالے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کتابوں سے بھی ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ کلمۂ طیبہ کا پہلا جز ہی اصل ہے، جس میں توحید کا بیان ہے، دوسرا جز، جس میں رسالت کا بیان ہے، اس کے ماتحت اور ثانوی ہے، اس لیے پہلے صرف توحید کی دعوت دی جائے، جب مخاطب اسے تسلیم کرلے تب اسے دوسرے جز کی دعوت دی جائے۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ وہ یہود ونصاریٰ کے اختلافات کی حقیقت ان پر کھول دیں اور ان کی کتابوں کی صحیح اور غلط باتیں الگ الگ کرکے بتادیں۔ اس سے استنباط کرتے ہوئے دیگر مذہبی گروہوں کے سامنے ان کی مقدّس کتابوں سے صحیح اور غلط باتیں الگ الگ کرکے پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں اور ہر علاقے میں رسول بھیجے اور ان پر کتابیں نازل کیں تو ضرور ہندوستان میں بھی پیغمبر آئے ہوں گے اور الہامی کتابیں نازل ہوئی ہوں گی۔ قرآن نے یہود ونصاریٰ کو ان کے پیغمبروں کے حوالے سے مخاطب کیا ہے۔ اس سے یہ اصول وضع کیا جا سکتا ہے کہ مخاطب قوم میں دعوت دینے کے لیے ان کی مقدس شخصیات اور ان کی مذہبی کتابوں کے حوالے دیے جانے چاہئیں۔
ان افکار سے میدانِ دعوت میں کام کرنے والے ہمارے رفقا بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا تجزیہ فرمائیں اور صحیح باتوں کی نشان دہی کردیں۔
جواب: سوال میں مذکور باتوں کی وضاحت درج ذیل نکات کی شکل میں کی جا سکتی ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے قوموں کی ہدایت کے لیے انبیا بھیجے اور ان پر کتابیں نازل کیں۔ سابقہ الہامی کتابوں میں توراۃ، انجیل اور زبور کا نام ملتا ہے۔ یہ کتابیں موجودہ بائبل میں شامل ہیں، لیکن قرآن نے صراحت کی ہے کہ ان میں ان کے ماننے والوں نے تحریفات کردی ہیں۔ (البقرۃ: ۷۵، النساء: ۴۶، المائدۃ: ۱۳، ۴۱) اس لیے ان میں حق اور باطل گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ اب ان سے ہدایت نہیں حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان میں کیا باتیں صحیح ہیں اور کیا غلط؟ یہ جاننے کا ذریعہ صرف قرآن مجید ہے۔ اس لیے کہ اس کا ایک ایک حرف محفوظ ہے۔ قرآن کا ایک وصف ’مُھَیمِن‘ (المائدۃ: ۴۸) بیان کیا گیا ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں: نگہبان، گواہ اور محافظ، یعنی قرآن سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ سابقہ کتابوں میں کیا تحریفات کی گئی ہیں اور اس وقت ان میں کیا باتیں صحیح ہیں اور کیا غلط؟
علامہ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے:
’’قرآن پہلے کی ہر کتاب پر امین، گواہ اور حاکم ہے۔ اللہ نے اس کتاب عظیم کو، جسے اس نے نازل کیا، سب سے آخری کتاب بنایا ہے۔ اسی طرح اس نے اسے تمام کتابوں میں سب سے جامع، عظیم اور محکم بنایا ہے اور اس میں بہت سے ایسے کمالات کا اضافہ کر دیا جو دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے۔ ‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۲؍ ۷۴۰)
مفسر ابن عطیہؒ فرماتے ہیں:
’’قرآن کو اللہ تعالیٰ نے دوسری کتابوں پر ’مُھَیمِن‘ بنایا ہے۔ وہ گواہی دیتا ہے کہ ان میں کیا صحیح باتیں پائی جاتی ہیں اور تحریف کرنے والوں نے کیا باتیں ان میں شامل کر دی ہیں۔ چناں چہ وہ صحیح باتوں کی تائید کرتا اور تحریف کو غلط قرار دیتا ہے۔ ‘‘ (المحرر الوجیز: ۲؍ ۱۹۹)
مولانا مودودیؒ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اصل میں لفظ ’مُھَیمِن‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنیٰ محافظت، نگرانی، شہادت، امانت، تائید اور حمایت کے ہیں۔ پس قرآن کو ‘الکتاب’ پر ’مُھَیمِن‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے تمام بر حق تعلیمات کو، جو پچھلی کتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کر دیا ہے۔ وہ ان پر نگہبان ہے اس معنیٰ میں کہ اب ان کی تعلیماتِ بر حق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنیٰ میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے، قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنیٰ میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہوگئی ہے، قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے۔ وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام۔ ‘‘ (تفہیم القرآن: ۱؍ ۴۷۷)
۲۔ قرآن مجید کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ’’سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ‘‘ اس کے لیے ’مُصَدِّقاًلِّمَا بَینَ یَدَیہِ‘ یا اس جیسے دیگر الفاظ آئے ہیں۔ ( ملاحظہ کیجیے: البقرۃ: ۴۱، ۸۱، ۹۱، ۹۷، ۱۰۱، آل عمران: ۳، النساء: ۴۶، المائدۃ: ۴۷، الانعام: ۹۲، یونس: ۳۷، یوسف: ۱۱۱، فاطر: ۳۱، الاحقاف: ۱۲، ۳۱۔ ) مفسرین کرام نے اس کے دو مفہوم بیان کیے ہیں: ایک تو یہی کہ وہ سابقہ آسمانی کتابوں کی صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے دوسرے معنیٰ’ مصداق‘ کے ہیں، یعنی سابقہ آسمانی کتابوں میں آخری نبی کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بیان کی گئی تھیں، اس کی بعثت سے وہ پوری ہوگئی ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ آپ ﷺکو پیغمبر تسلیم کیا جائے۔ امام رازیؒ نے مؤخر الذکر مفہوم کو ترجیح دی ہے۔ (التفسیر الکبیر: ۳؍ ۴۱) مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ مؤخر الذکر مفہوم ہی درست ہے، اول الذکر مفہوم نہیں لیا جا سکتا۔ (تیسیر القرآن: ص ۳۸۹، ۳۹۸) مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس کے دونوں مفہوم پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:
’’قرآن کے مُصَدِّقُ الَّذِی بَینَ یَدَیہِ ہونے کے ایک مشہور معنیٰ تو یہ ہیں کہ یہ بنیادی طور پر صحیفوں کی تمام تعلیمات کی تصدیق کرتا ہے۔ صرف ان باتوں کی تردید کرتا ہے جو ان میں ملاوٹ کرنے والوں کی طرف سے ملادی گئی ہیں۔ قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفوں کی یہ ہم آہنگی وہم رنگی اس بات کی صاف شہادت ہے کہ یہ سب ایک ہی آفتابِ حق کی شعاعیں اور ایک ہی منبعِ انوار کے پر تو ہیں۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ قرآن اور اس کے حامل کی صفات پچھلے صحیفوں کی پیشین گوئیوں میں مذکور ہیں۔ یہ پیشین گوئیاں اب تک اپنے مصداق کی منتظر تھیں۔ قرآن کے نزول اور محمد ﷺ کی بعثت سے ان کی تصدیق ہوئی۔ یہ قرآن کے حق ہونے کی ایک بہت بڑی شہادت ہے اور ساتھ ہی اس سے ان صحیفوں کی بھی تصدیق ہو رہی ہے کہ ان میں جو پیشین گوئیاں وارد تھیں وہ سچی ثابت ہوئیں۔ ‘‘ (تدبر قرآن: ۲؍۱۸)
اس سے واضح ہوا کہ مُصَدِّقاً لِّمَا بَینَ یَدَیہِ کے دو مفہوموں میں سے اگر پہلا مفہوم مراد لیا جائے تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ قرآن سابقہ آسمانی کتابوں کی تمام باتوں کی تصدیق کرتا ہے، بلکہ اس کا مطلب قطعی طور پر یہی ہے کہ ان کتابوں کی جو باتیں قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہیں، قرآن صرف انھی کی تائید وتصدیق کرتا ہے۔ جب یہ کتابیں اپنی تصدیق کے لیے قرآن کی محتاج ہیں تو ظاہر ہے کہ سابقہ اقوام کے سامنے صرف انھی کتابوں کے ذریعے دعوت نہیں پیش کی جا سکتی، بلکہ ان کے سامنے قرآن کی دعوت پیش کی جا ئے گی اور کہا جائے گا کہ اس دعوت کی کچھ جھلکیاں سابقہ کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
۳۔ اسلام کے بنیادی عقائد تین ہیں: توحید، رسالت اور آخرت۔ اسلامی دعوت کا خلاصہ کلمۂ طیبہ ’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ ) میں آگیا ہے۔ پہلے جز میں توحید کو بیان کیا گیا ہے، جس میں آخرت بھی شامل ہے، دوسرے جز میں رسالت کا بیان ہے۔ غیر مسلم اقوام کے سامنے اسلام کا تعارف کراتے وقت کلمہ کے دونوں اجزا بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ فکر درست نہیں ہے کہ انھیں ابتدا میں صرف پہلے جز کی دعوت دی جائے، بعد میں جب وہ اسے مان لیں تب ان کے سامنے دوسرا جز پیش کیا جائے۔ اگر کوئی شخص صرف لاالہ الا اللہ کا عقیدہ اختیار کرلے، دوسرے جز کو تسلیم نہ کرے، بہ الفاظ دیگر حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا آخری پیغمبر نہ مانے تو اسلامی عقیدہ کی رو سے وہ مومن نہیں اور آخرت میں اس کی نجات ممکن نہیں۔
اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ’ ایمان بالرسل‘ ہے، یعنی اللہ کے تمام پیغمبروں پر ایمان لایا جائے۔ کسی ایک پیغمبر پر ایمان نہ لانا گویا تمام پیغمبروں کا انکار کرنا ہے۔ اہلِ ایمان کو یہ اعلان کرنے کی تلقین کی گئی ہے : لَا نُفَرِّقُ بَینَ أحَدٍ مِّنھُم (البقرۃ: ۱۳۶) ’’ہم پیغمبروں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے۔ ‘‘
قرآن کریم کی بعض آیات (البقرۃ: ۶۲، المائدۃ: ۶۹) میں مختلف مذہبی گروہوں کا تذکرہ کرکے کہا گیا ہے کہ ان میں سے جو بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ ان میں رسالت پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذہبی گروہوں کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے اپنے پیغمبروں پر ایمان لائیں، ان کے لیے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ حالاں کہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ سورۂ البقرۃ کا مرکزی موضوع ہی یہ ہے کہ اس میں اہلِ کتاب سے قرآن اور اسے لانے والے پر ایمان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے آیت ۴۱) اور سورۂ المائدۃ میں بھی اہل کتاب کو خطاب کرکے کہا گیا ہے کہ وہ توراۃ اور انجیل کے ساتھ ان کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی جانے والی وحی (قرآن مجید) پر ایمان لائیں اور اس کی تعلیمات کو نافذ کریں۔ (ملاحظہ کیجیے آیت ۶۸) اس بنا پر اب خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کا ایمان مکمل اور معتبر نہیں ہو سکتا۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے لکھا ہے:
’’ آں حضرت ﷺ کی بعثت کے بعد دنیا کے لیے صراط مستقیم پانے اور نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ آں حضرت ﷺ پرایمان لایا جائے اور آپﷺ کی پیروی کی جائے۔ اس کے سوا نجات حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ ‘‘(تدبر قرآن: ۱؍ ۲۳۶)
۴۔ قرآن کریم میں ’اہلِ کتاب‘ کی اصطلاح یہود اور نصاریٰ کے لیے مخصوص ہے۔ یوں تو قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے مختلف زمانوں میں اور مختلف قوموں میں اپنے برگزیدہ بندے بھیجے، جنھوں نے ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی اور اللہ کی نافرمانی کے برے انجام سے ڈرایا۔ ‘‘ (الرعد: ۷، فاطر: ۲۴) لیکن مختلف قوموں کی برگزیدہ شخصیات کو قطعی طور پراللہ کا پیغمبر کہا جاسکتا ہے نہ ان کی مذہبی کتابوں کو آسمانی اور الہامی کتابوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں انسانی آبادی کا سراغ کئی ہزار برس قبل ملتا ہے اور یہاں کی تہذیب کو قدیم ترین تہذیبوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اس کا امکان ہے کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے ہوں اور ان پر اپنی کتابیں نازل کی ہوں۔ لیکن یہ امکان ہی کی حد تک ہے، قطعی طور پر یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ اسی بنا پر بعض علما، مثلاً قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ (تفسیر مظہری: ۵؍ ۲۴۰) اور مولانا ابو الکلام آزادؒ (جامع الشواہد: ص ۵۳۔ ۵۵) نے ہندوؤں کے لیے ’ شبہ اہلِ کتاب‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ بہر حال کسی قوم کواسلام کی دعوت دینے کے لیے یہ نظریہ پیش کرنا ضروری نہیں کہ اس کے ’پُوروَجوں‘ (بزرگوں) اور اس کی مقدس کتابوں کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور نہ اس قوم کو اسلام سے قریب کرنے اور اس میں اپنائیت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے اس کی برگزیدہ شخصیات اور مذہبی کتابوں کو الہامی تسلیم کرنا ضروری ہے۔ کسی قوم کو صحیح عقائد کی طرف لانے کے لیے دعوت کا یہ منہج اختیار کرنا انتہائی خطرناک ہے کہ اس کے سامنے صرف اسی کی مذہبی کتابوں کے حوالے دیے جائیں اور قرآن مجید کو مطلق استعمال نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ کتابیں حق اور باطل کا ملغوبہ ہیں۔ ضروری ہے کہ اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے قرآن مجید کو بنیاد بنایا جائے اور توحید، رسالت، آخرت اور اسلام کی بنیادی قدروں کا تذکرہ قرآن مجید کے حوالے سے کیا جائے، البتہ اُن کتابوں میں قرآن مجید کے مماثل جو باتیں موجود ہوں انھیں تقریب فہم کے لیے بیان کیا جاسکتا ہے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ [النحل: 64] ’’ہم نے یہ کتاب صرف اس لیے نازل کی ہے کہ تم ان اختلافات کی حقیقت ان پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید کو حق اور باطل کو پہچاننے اور ان کے درمیان فرق کرنے کے لیے کسوٹی بنایا ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے سامنے جو قومیں موجود تھیں، یعنی یہود، نصاریٰ اور مشرکین عرب، آپ ﷺ نے ان کے سامنے قرآن مجید کی تعلیمات پیش کیں، ان کے جو عقائد، عبادات، معاشرتی امور، معاملات اور اخلاقیات سے متعلق طور طریقے قرآن سے مطابقت رکھتے تھے انھیں باقی رکھا اور جو چیزیں ان سے ٹکراتی تھیں انھیں غلط قرار دیا اور ان سے بچنے کی تلقین کی۔ حضرت محمد ﷺ کی وفات کے بعد اب یہ آپﷺ کی امت کی ذمے داری ہے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیمات کوعام کرے اور اس کی روشنی میں قوموں کے عقائد، مراسمِ عبادت اور سماجی عادات واطوار کی اصلاح کرے۔
۶۔ قرآن میں جن قوموں کو مخاطب بنایا گیا ہے ان میں اللہ کے پیغمبر مبعوث کیے گئے تھے۔ قرآن انھیں پیغمبر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کے ہر پیغمبر نے توحید کی دعوت دی، شرک سے روکا اور اللہ کے بندوں پر ظلم کرنے سے منع کیا۔ قرآن ان قوموں سے کہتا ہے کہ تم جس راستے پر چل رہے ہو وہ ان برگزیدہ ہستیوں کا راستہ نہ تھا جن پر تمھارا ایمان ہے۔ قرآن تمھیں اسی راستے کی طرف بلاتا ہے جس کی طرف وہ برگزیدہ ہستیاں بلاتی تھیں۔ اس چیز کو ایک اصول بنا کر ہر قوم پر منطبق نہیں کیا جاسکتا کہ اسے دعوت دینے کے لیے اس کی برگزیدہ ہستیوں کا لازماً تذکرہ کیا جائے اور اس کی مذہبی کتابوں کے حوالے دیے جائیں۔ اس لیے کہ ان برگزیدہ ہستیوں کو نہ قطعی طور پر اللہ کے پیغمبر کہا جاسکتا ہے اور نہ ان مذہبی کتابوں کو آسمانی اور الہامی کتابوں کی حیثیت دی جاسکتی ہے۔ یہی بات ہندوستان کے تعلق سے بھی کہی جائے گی کہ یہاں کے غیر مسلم باشندوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے یہ اصول وضع نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی مذہبی شخصیات کے حوالے دیے جائیں اور ان کی مذہبی کتابوں سے اقتباسات پیش کیے جائیں۔
۷۔ جہاں تک دیگر مذہبی گروہوں کی مقدّس کتابوں کا مطالعہ کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
اول یہ کہ اس عقیدے کے ساتھ ان کا مطالعہ کیا جائے کہ ان سے ہدایت حاصل ہوگی۔ یہ حرام ہے۔
دوم یہ کہ ان کا مطالعہ محض معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ یہ جائز ہوسکتا ہے، لیکن اس سے احتراز ہی اولیٰ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عمر بن الخطابؓ کے ہاتھ میں توراۃ کے کچھ اوراق دیکھے تو سخت ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’کیا مجھ میں شک کرتے ہو؟ اے ابن خطاب! میں تمھارے پاس واضح اور صاف و شفّاف شریعت لے کر آیا ہوں۔ اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو انھیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ ‘‘(دارمی:۴۴۹، احمد:۱۴۶۳۱، ۱۵۱۵۶)
سوم یہ کہ ان کا مطالعہ اس مقصد سے کیا جائے کہ ان میں جو باتیں صحیح ہیں، جن کی قرآن بھی تائید کرتا ہے، ان سے واقفیت ہو، تاکہ ان قوموں کے سامنے اسلام کی دعوت مؤثر انداز میں پیش کی جاسکے اور جو لوگ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں ان کا رد کیا جا سکے تو یہ جائز ہے، البتہ یہ احتیاط ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ ان کی غلط فہمی یا گم راہی دور کرنے کے لیے صرف انھی کتابوں کے حوالے اور اقتباسات پیش کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ لازماً ان کے سامنے قرآن مجید کی تعلیمات بھی پیش کی جائیں کہ وہی اصل ہے اور اسی سے ہدایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ■