رحمِ مادر میں لڑکیوں کا قتل

خان عرشیہ شکیل ، ممبئی

 

کیاکوئی انسان جس کے جسم میںدھڑکتا ہوا دل ہو،وہ اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ اپنی نومولود بیٹی کو مارڈالے؟ مگر افسوس کہ ہندوستانی سماج میں ایسا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ایسے گاؤں بھی ہیں جن میں سرےسے لڑکیاں موجود ہی نہیں ہیں۔ ہریانہ کا مہندر گڑھ ضلع اس کی مثال ہے جس میں تقریباً پانچ درجن سے زیادہ گاؤں ایسے پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اس ضلع میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں محض 500 لڑکیوں کا تناسب ہے۔
اتراکھنڈ کے ضلع اترکاشی کے 132 گاؤں میں 216 بچے پیدا ہوئے جن میں ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔ وجہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
ہمارے ملک کی روایت ‘ عقائد ‘توہمات اور طرز زندگی خواتین کے ساتھ ظلم و جور کی ناگفتہ بہ تصویر پیش کرتی ہے جو تمام تر پابندیوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے اور یہ عصر حاضر کا اہم ترین فیملی اشو ہے اور اس کے پیچھے معاشرہ کی یہ سوچ ہے کہ لڑکا خاندان کے لیے کمانے اور بنانے والا ہوتا ہے اور لڑکی ذمہ داریاں لے کر آتی ہے جن سے عہدہ برآ ہونا موجودہ دور میں ایک بڑا سماجی مسئلہ بن گیا ہے۔ جہیز اور لڑکیوں کے سلسلے میں بڑھتے جنسی جرائم کے پیش نظر یہ تصور اور ڈراؤنا ہوتاجارہا ہے۔
بڑے شہروں میں الٹرا ساؤنڈ مشین کے ذریعے جنس معلوم ہوتے ہی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے حمل ضائع کر دیا جاتا ہے یا پھر دواؤں کے ذریعے حمل ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اکثر جاہل اورظالم مائیں اپنے بچوں کو بالکنی سے نیچے پھینک کر یا گلا گھونٹ کر مار دیتی ہیں۔ راجستھان کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں نومولود بچی کے منہ اور ناک میں ریت بھر دی جاتی ہے یا پھر دودھ میں افیون کی بہت زیادہ مقدار ملا کر پلادی جاتی ہے اور کھیل ختم۔
’’اسپتالوں کے کارکنان اس بات کو جانتے ہیں لیکن وہ سرکاری اداروں کو خبر نہیں دیتے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں۔ آخر انہیں گاؤں کے لوگوں کے درمیان ہی تو رہنا ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے راجستھان کے جیسلمیر ضلع کے بھوم سنگھ بھاٹی کا جو اس سلسلے میں ضلع بھر میں بیداری کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق راجستھان میں روزانہ 2500 نومولود لڑکیاں مار دی جاتی ہیں۔
ملک میں ہر سال 1.6کروڑ حمل ساقط کیے جاتے ہیں جن میں سے 48.1کروڑ حمل صرف لڑکیوں کی جنس معلوم ہونے پر ضائع کیے جاتے ہیں (ٹائمز آف انڈیا ،12دسمبر2017)
پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق بھارت میں سن 2000سے2014تک جنس کی بنیاد پر’’رحمِ مادر میں لڑکیوں کے قتل‘‘کی تعداد ایک کڑور ستائیس لاکھ رہی ہے۔ پنجاب، ‘ہریانہ،دہلی اور ہماچل پردیش میں 1991کی مردم شُماری کے مطابق 1000لڑکوں کے مقابلے 875لڑکیاں ہیں۔ تحفظ حمل کے لیے حمل کی منسوخی ترمیمی بل 2020 ء کے باوجود غیر قانونی طور پرحمل ساقط کیے جارہے ہیں۔ یہ بڑی تشویشناک صورت حال ہے۔
سخت قوانین کے باوجود اس گھناؤنے فعل کے ہونے کے اسباب ڈھونڈنے اور اس کے سدباب کی کوششیں پوری قوت کےساتھ تیز تر ہونی چاہئیں۔
صنفی امتیاز کا سبب
ہمارے معاشرے میں لڑکی کی پیدائش کو ناپسندیدہ تصور کیے جانے کے اسباب سماجی، ثقافتی، معاشی اور مذہبی نوعیت کے ہیں۔ ان اسباب میں عورت ذات کا احترام اور سماجی اعتبار سے اسے کم تر سمجھنے کی فرسودہ سوچ کافی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج میں ’تعلیمی و تہذیبی‘ ترقی کے باوجود اب تک لوگ فرسودہ سوچ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ جبکہ قانون و انتظام کے ذمہ دار اداروں کی ناکامی اور کرپشن الگ مسئلہ ہے جو ابھی بھی فعال اور ایماندارانہ حرکیت کا طلب گار ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے گھر صرف نرینہ اولاد ہی پیدا ہو ۔بیٹی پرایا دھن ہے۔جہیز لے کر چلی جاتی ہیں جب کہ بیٹے کمانے والے ہوتے ہیں اور گھر چلاتے ہیں۔
غیر مسلم سماج میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر بیٹا چتا کو آگ دیتا ہے، ماں باپ کی استھیاں دریائے گنگا میں بہاتا ہے تو ماں باپ سورگ میں جائیں گے۔ ایک بڑی وجہ جہیز بھی ہے جس کی وجہ سےبیٹیوں کو مادر رحم میں مار دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ آج کل بڑھتے ہوئے ریپ کیسزنے بھی والدین میں ایسی سوچ پیدا کر دی ہے کہ ان کے گھر بیٹی پیدا ہی نہ ہو۔
اس معاملہ میں مسلم سماج بھی عام ماحول سے اچھوتا نہیں ہے۔ دین سے دور، اسلامی شعور سے نابلند اور جہالت و غربت کی زندگی گزارنے والے مسلمان بھی اس کا اسی طرح حصہ اکثر بن جاتے ہیں جس طرح عام سماج۔یہ مسلم سماج کے لیے غوروفکر اور اصلاحِ حال کا اہم ترین موضوع ہے۔
عورت معاشرے کی بنیاد
عورت کے بغیر نہ تو معاشرے کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ افزائش نسل کا۔ عورت معاشرے کی بنیاد ہے۔ عورت نہ ہو گی تو نسل انسانی کا وجود ہی باقی نہیں رہ سکتا ۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس فکر و عمل کے نتائج اب اپنی پوری سنگینی کے ساتھ اپنا اثر دکھانے لگے ہیں اور اس کا سب سے پہلا مظہر لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کے درمیان بگڑتا تناسب ہے جو کئی قسم کے سماجی و معاشرتی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ ان میں سب سے اہم نوجوانوں کے لیے دلہن کا حصول ہے، چنانچہ ہم راجستھان کے بعض علاقوں میں دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک عورت کئی بھائیوں کی بیوی ہوتی ہے۔ اسی طرح جنسی جرائم کا فروغ بھی اس کا نتیجہ کسی نہ کسی حد تک ہوسکتا ہے۔
ایک اہم بات اس سلسلے میں یہ بھی سامنے آتی ہے کہ لڑکیوں کی کمیابی یا نایابی کے سبب ان علاقوں کے نوجوان دوسرے مذاہب، ذات برادریوں اور دوسری دو ردراز ریاستوں میںشادی کے امکانات ڈھونڈنے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ ہریانہ اور راجستھان کے اچھے اچھے خاندانوں کے نوجوان اڑیسہ اور بنگال جیسے غریب علاقوں سے لڑکیاں لانے پر مجبور ہیں اور پھر اس کے سبب دیگر تہذیبی، لسانی اور عملی قسم کی مشکلات نظام خاندان کو درپیش ہوتی ہیں۔
سنگین مسئلے کا حل
اسلام سے پہلے عرب میں بھی لڑکیوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اسلام نے لڑکیوں کو جینے کا حق دیا اور بیٹیوں کو رحمت کہا۔ جب کہ دنیا نے اسے منحوس، شیطان کی ایجنٹ کہا اور اس کی پیدائش پر ناگواری کا اظہار کیا۔ اس سوچ کو قرآن نے کھلے الفاظ میں کہا کہ تم میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ کبیدہ خاطر ہوتا ہے اور وہ اس ولادت کو اپنے لئےمصیبت سمجھتا لیکن درحقیقت یہ اللہ کا عطیہ ہوتی ہے۔
لڑکی کو بوجھ سمجھ کر قتل کرنے والوں کے لئے لیے کہا گیا ہے کہ:
’’اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔ درحقیقت ان کا قتل بڑی خطا ہے۔‘‘(بنی اسرائیل:31)
لڑکا یا لڑکی کی پیدائش میں عورت کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے۔(الشوری :49-50)
اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں وہ تمام جاہلیت کی سوچ پر ضرب لگائی اور اس کا بہترین حل پیش کیا ہے۔
رحمِ مادر میں یا پیدا ہوتے ہی لڑکیوں کا قتل ہمارے سماج کا بہت بڑا مسئلہ اور معاشرے کا اتنا اہم اشو ہے کہ اگر اس پر توجہ اور محنت نہ کی گئی تو یہ ہمارے خاندانی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کردے گا۔
اس کے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم معاشرے کو مستقبل کے خطرات سے آگاہ کریں اور ان حقائق کو جو حکومتی سطح پر بھی بیان کیے جاتے ہیں لوگوں کے سامنے پر زور اور دل پذیر انداز میں پیش کریں۔ یہ صورت حال جہاں معاشرے کے لیے سنگین خطرہ ہے وہیں اہلِ اسلام کے لیے اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا ایک اچھا موقع بھی ہے جس کی طرف مسلم سماج کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں بیٹیاں الگ الگ حیثیت سے اپنا رول ادا کرتی ہیں۔ عورت کی ہر حیثیت خاندان کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ جب وہ ماں ہوتی ہے تو سراپا ایثار، قربانی اور محبت کا مجسمہ ہوتی ہے ایک کمزور ونا تواناں بچے کی جسمانی، ذہنی اور فکری نشوونما کرتی ہے اور جب بیٹی ہوتی ہے شفقت و محبت کا مجسمہ ہوتی ہے اور والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور ہوتی ہے اور بیوی کے روپ میں ایک مضبوط سہارا ہے جس کے بنا گھر گھر اور خاندان خاندان نہیں رہ سکتا۔
جب تک ہم بیٹیوں کو مصیبت اور بوجھ سمجھنےکی جاہلانہ سوچ کو بدل نہیں دیتے، ہم ایک مہذب اور شائستہ معاشرے کو وجود میں نہیں لا سکتے۔جب تک عورت کے تقدس کو بحال نہیں کیا جا سکتا تب تک خاندان کے ادارے کو مستحکم نہیں بنایا جا سکتا ۔
خواتین کو اپنے اوپر ہونے والے اس بھیانک ظلم کے خلاف کھڑے ہونا پڑےگا اور سماج میں انقلابی جذبے کے ساتھ بیداری کی جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘ نعرہ صرف نعرہ نہ رہ جائے،بلکہ ہر گھر میں بیٹی کی پیدائش پر خوشیاں منائی جائیں۔مٹھائیاں تقسیم ہوں جیسے بیٹے کی پیدائش پر ہوتی ہیں اور لڑکی اور لڑکے کے درمیان محض جنس کی بنیاد پر تفریق کا مکمل خاتمہ ہوجائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021