ذات، فاشزم، قومیت اور مسلمان
’’مسلمانوں کی تاریخ کو ہندوتووادیوں کے ذریعہ مسخ کرنا ثقافتی قتل عام ہے‘‘
معین دین خالد
مراٹھی ہفت روزہ وویک کو آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے انٹرویو دیا۔ لیکن موجودہ حکومت کی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھنے والے سنگھ کی سالانہ دسہرہ ریلی
سے عین قبل اس طرح کی اہم گفتگو کے کیا معنیٰ ہیں؟
بہت خوبصورت ہے ہر بات لیکن
اگر دل بھی ہوتا تو کیا بات ہوتی
جس سناتن سنسکرتی میں عورت کی دیوی کی شکل میں پوجا کی جاتی ہے وہاں آئے دن زنا بالجبر جیسے گھناؤنے جرائم کیسے انجام پاتے ہیں، اور اگر ہوتے ہیں تو اب تک ختم کیوں نہیں ہو گئے؟ “جس دیش میں دنیا کے بہترین کرکٹر مہیندر سنگھ دھونی کی پانچ سالہ بیٹی کو عصمت ریزی کی دھمکی ملتی ہو کیا اس دیش میں غریب کسان و مزدور کی بیٹی محفوظ ہو سکتی ہے؟” کیا دنیا میں اور بھی کوئی ثقافت موجود ہے جہاں انسان کو چاہے زندہ ہو کہ مردہ، جلانے کا عمل اتنی ’خوش دلی‘ سے انجام دیا جاتا ہے؟ کیا عورت ایک داسی ہوگی یا دیوی ہوگی اور کبھی ’انسان‘ کا درجہ اسے نہیں دیا جائے گا؟ یہ اور اس طرح کے سوالوں کی بھرمار ہے جو آج عام بھارتی شہری کر رہا ہے۔
دوسری جانب دلی کے عارف خان کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کو اپنی ایمبولنس میں لاتے لے جاتے اور ان کی آخری رسومات کو ان کے مذہب کے مطابق انجام دیتے ہوئے خود شہید ہو گئے۔ سو سے زائد لاشوں اور سینکڑوں کورونا وائرس کے مریضوں کو اسپتال پہنچانے والے عارف بھائی مجبور لوگوں کی اپنی جیب سے مالی اعانت بھی کیا کرتے تھے۔ عارف بھائی ’خوش‘ ضرور رہے ہوں گے لیکن ان کی خوشی میں سنگھی فکر اور سناتنی طرزِ زندگی کا کوئی رول نہیں تھا بلکہ ایک مؤمنانہ کردار، توکّل علی اللہ نیز، بندوں کی خدمت اور اپنے عیال کے لیے حلال روزی کمانے کا پاک جذبہ کار فرما تھا جس نے ان کو اپنی رہتی زندگی میں ’مطمئن‘ اور مسرور رکھا۔ نائب صدر جمہوریہ ہند وینکیا نائیڈو بھی ان کی بے لوث خدمات کا اعتراف کرنے اور ان کو خراج پیش کرنے پر مجبور ہوئے۔ عارف خان کے نظام زندگی میں صبر و شکر کو کلیدی اہمیت حاصل ہے جس کی بنا پر ان کے معاشرے میں سکون، طمانیت اور قناعت کے کردار پروان چڑھتے ہیں اور ہاں! ایسا صرف دنیا کے اسی خطے میں نہیں ہوتا، جس کی خوش فہمی بھاگوت صاحب نے پال رکھی ہے بلکہ عالمگیر امت کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں یہی خصلت دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان کے یہاں پائی جاتی ہے۔ لہذا کسی فاشسٹ، آمرانہ، کلیت پسندانہ ہندوتوا وادی نظریہ کے حامل فرد کو اس خوش فہمی میں ہر گز نہ رہنا چاہیے کہ مسلمان ان کے کسی رحم و کرم کا مرہونِ منت ہے۔
کیا آر ایس ایس کے سربراہ اور ہندوتوا اور ثقافتی قومیت کے علم بردار ہونے کے ناطے بھاگوت مذکورہ سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں؟ اگر انہوں نے ایمانداری سے ان کے جواب دیے تو انہیں خود بخود پتہ چل جائے گا کہ بھارت میں ہندو ہی ان کے ’ہندو پَن‘ (Hinduness) کے نظریہ کی نفی کرنے والے ان کے ارد گرد موجود ہیں۔ بھارت کے 95 فی صد مسلمان اصلاً یہاں کے ’’مول نیواسی‘‘ (Aboriginal/Native) اصل باشندے رہے ہیں اور ان کو دوبارہ ان کو ان کے اسی آبائی مذہب میں لانے کے لیے ’گھر واپسی‘ کے پروگرام چلا کر ان کے ’ہندوپن‘ کو از سر نو بحال کرنا ممکن ہے۔ موہن بھاگوت کی اس سوچ کو دلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند ’ایک فرضی و خیالی ثقافت‘ کے ماضی میں لے جانے کی کوشش قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی ہندوتوا وادیوں کی مہم کو “Cultural Genocide” یعنی ثقافتی قتلِ عام سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس میں سڑکوں، قصبوں، شہروں وغیرہ کے نام ہی تبدیل کرنا مقصود نہیں بلکہ ایسا کر کے ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ وہ بھارت کی ایک قابل لحاظ (اقلیتی) آبادی کو اپنی (ہندو اکثریتی) قوم کے ماتحت کر کے مستقلاً مغلوب رکھنے اور ان کے اجتماعی وجود کو بے حقیقت و بے وزن کرنے کے ان کے نظریے کو رو بہ عمل لانے میں لگے ہیں۔
ہندوتوا واد کے علم برداروں کی ہمت کی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں پائے جانے والے ذات پات اور چھوا چھوت کے فرسودہ، غیر آئینی عمل کی قلعی کھل رہی ہے ان حالات میں بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ وہ اپنے تنگ نظر، جابر اور انصاف سے عاری ہندو راشٹر کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔
مَا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ ءَابَآءَنَآ ۚکی رٹ لگانے والے ہاتھرس کے ٹھاکروں کے ویڈیوز ساری دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ وہ دلتوں کی شادیوں میں شرکت نہیں کرتے، ان کے بچے آپس میں مل کر نہیں کھیلتے، کاروبار ساتھ نہیں کرتے، پوجا پاٹ بھی الگ الگ مندر تک علیحدہ، ان سب ناروا، غیر انسانی بلکہ کسی قدر حیوانی سلوک کی پولیس میں شکایت بھی درج کرنے کی جرأت نہیں کرتے کیوں کہ انہیں اپنی اور خاندان کی ’عزت و وقار‘ کی فکر مستقل دامن گیر رہتی ہے۔
ٹھیک یہی وقار بھارت کے برہمنوں اور حکمرانوں کو بھی یاد آتا ہے جب قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس تفریق و تعصب کی وارداتوں کا ذکر کرتے ہیں اور خبروں کو دبانا ان کے نزدیک ملک کی عزت کو بچانے کے مماثل ایک ایسا عمل قرار پاتا ہے جسے ہر محبِّ وطن کو فخر سے انجام دینا چاہیے۔ بلکہ حسب موقع و ضرورت جہاں ملزم اعلٰی ذات سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے دفاع میں آنا چاہیے کیوں کہ مَنواسمرتی سمیت ہندو شاستروں کے ضابطوں کے مطابق کسی برہمن پروہت پنڈے نے زنا بلکہ قتل کا بھی ارتکاب جرم کر لیا تب بھی اس کو سزا تجویز نہیں کی جا سکتی۔ یہی سبب ہے کہ جب دلی کی نِربھیا کے زانیوں و قاتلوں کو عدالت نے سزا سنائی تھی تو ان مجرموں کو پھانسی سے بچانے کا مطالبہ صدر جمہوریہ ہند سے یہ کہہ کر کیا گیا تھا کہ ’نربھیا کے ساتھ درندگی کرنے والے درندوں کے ساتھ پورا برہمن سماج کھڑا ہے۔ عالی جناب صدر جمہوریہ صاحب، (مجرم) برہمن وِنئے شرما کو پھانسی دینے سے برہم ہتیا کا پاپ لگے گا۔‘‘ گویا برہمن کو سزا دینا خدا کے قتل کے مساوی ہے۔ الامان والحفیظ!
حالانکہ دلی کی نربھیا لڑکی ایک سِنگھ خاندان کی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتی تھی تب برہمن اس کے قاتلوں کو بچانے کے لیے راشٹرپتی سے مل رہے تھے تو سوچا جا سکتا ہے کہ اگر نچلی ذات کی لڑکی پر تشدد کیا جا رہا ہو تو اس کے ملزموں کی حمایت میں کیا کچھ نہیں کیا جاتا ہوگا؟ پرانی بات کیا کریں تمل ناڈو کے کَڈلُور ضلع میں ایک گرام پنچایت کی صدر خاتون کو فرش پر بٹھایا گیا کیوں کہ وہ دلت ہے اور دیگر اعلیٰ ذات کے افراد اس آئینی پوزیشن کی حامل ایس راجیشوری کے ساتھ سرعام ایسا متعصبانہ اور تفریق پر مبنی سلوک کرتے رہے۔ تھیرکو تھِٹّائی گاؤں کے اس معاملے کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یہ راز بھی منکشف ہوا کہ گاؤں کی مُکھیا کو نہ صرف کرسی پر بیٹھنے سے منع کیا گیا بلکہ نائب پنچایت صدر نے ان کو ترنگا جھنڈا لہرانے سے بھی روکا تھا۔ 17 جولائی کا معاملہ اکلوتا نہیں تھا بار بار کی توہین سے تنگ آنے کے بعد راجیشوری نے اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں اس کی شکایت درج کرائی۔ کیا بھاگوت اس بات کی کوئی گارنٹی دے سکتے ہیں کہ ان کے خوابوں کے رام راج میں ان وارداتوں کو مزید فروغ نہیں ملے گا؟ اور اگر ایسا امتیازی سلوک ہونے پر کوئی فرد یا گروہ دینِ رحمت کی آغوش میں پناہ لے کر اپنی دنیوی اور اخروی عزت و وقار اور نجات کا سامان کرنا چاہے تو اس کے لیے مسلمان بھلا کیوں کر ذمہ دار قرار دیے جا سکتے ہیں؟
دوسری جانب اسلام خواتین کے حقوق، وقار، تحفظ، مرتبہ اور نسوانیت کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی، سیاسی و سماجی حقوق کے مابین ایک بہترین توازن قائم کرتا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں مرد و عورت حقوق میں برابر ضرور ہیں لیکن خلقت میں یکساں ہرگز نہیں ہیں اسی لیے اسلام یکسانیت و برابری کے بالمقابل ’’عدل‘‘ کا تصور پیش کرتا ہے، حریتِ آدم کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک فلاحی اسٹیٹ میں حقیقی مساوات پر مبنی فتنہ و فساد سے پاک معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ تعلیم، نکاح، خلع، وقار، تحفظ، برابری، جنسی انصاف، ترکہ وراثت اور معاش و جائیداد کے تمام حقوق کی گارنٹی صرف اور صرف دینِ اسلام ہی نے دی ہے جو کہ دینِ فطرت ہے۔ اسی نے عرب و عجم کے احساسِ فخر و برتری اور انسانی تفریق کو عملاً مٹا دیا ہے۔
حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ادارہ جاتی قتل (Institutional Murders) کی وارداتوں سے اخبارات کے صفحات سیاہ اور ٹی وی کی اسکرینیں ’مزین‘ نظر آتی ہیں۔ صرف ذہنی (مینٹل) بیماریوں ہی سے نہیں بلکہ انسانی تفریق اور سماجی توہین و تذلیل کی بنیاد پر بھی لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ جن میں بلا شبہ حاشیہ پر رکھے گئے سماجوں، کمزور اور غریب و مجبور لوگوں کی بہتات ہوتی ہے۔ بھاگوت کو اوروں کو نصیحت کرنے سے قبل ان سوالوں کے جوابات بھی دینے کی ضرورت ہے کہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ڈاکٹر روہت ویمولا، آئی آئی ٹی مدراس کی ڈاکٹر فاطمہ لطیف، ممبئی کے اسپتال کی آدیواسی ڈاکٹر پایل سلیم تَڈوی اور جبل پور کے ڈاکٹر بھاگوت دیوانگن نے ان کے ماحول میں سرایت کر گئے کس زہر کا گھوٹ پی کر خود کشی کی تھی؟ کیا یہ اور ان جیسی ان گنت قیمتی جانوں کا اِتلاف، نفرتوں کی بیج بونے کے بعد اس کے کڑوے کسیلے پھل نہیں ہیں؟ کیا بھارتیَتا اور مادر وطن کی باتیں کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی اسی سوچ نے ملک کی تکثیریت، بھائی چارہ اور رواداری کی اقدار کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ اپنی ذات کی برتری و بالادستی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے انہوں نے دوسروں کے ساتھ نانصافی کو قولاً و فعلاً جائز ٹھہرا رکھا ہے؟ اور ہاں! اکبر یا مغلوں یا کسی بھی مسلم حکمراں کے خلاف جنگ میں کسی ہندو اور سکھ فوج میں اگر مسلمان جنگجو شامل ہوا تھا تو وہ آپ کی ثقافت پر حملہ کی تھیوری کو قطعاً ثابت نہیں کرتا بلکہ وہ محض دو بادشاہوں کی ایک جنگی مہم تھی۔ بھاگوت کو کون بتائے کہ پاکستان یا کسی بھی مسلم حکمراں کا کوئی بھلا برا عمل ہمارے لیے کبھی معیار نہیں بن سکتا بلکہ ہم صرف رسول اللہ کے اُمّتی ہیں اور بندگی کے لیے اللہ کے سوا کسی اور کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ لہٰذا موقع بموقع پاکستان کا نام ہمارے سامنے نہ ہی لائیں تو بہتر ہوگا۔ دنیا بھر میں عورتوں کی خودکشیوں میں بھارت کی 37 فی صد عورتوں کی حصہ داری ہے جب کہ موہن بھاگوت کے اسی ’عظیم بھارت‘ میں جس پر گَورَو (فخر) کرنے کو کہا جا رہا ہے ہر گھنٹے میں کم از کم دس عورتیں اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لینے کو مجبور پائی گئی ہیں۔ ان حقائق کا ذکر ان کے لیے بھارت کے وقار کو ٹھیس پہنچانے اور ہندو سناتن سنسکرتی کی روایات کے حامل عظیم ملک کی بدنامی کا سبب بن سکتا ہو یا پھر چاہے وہ چشم پوشی سے کام لے کر انکار کے رویے پر گامزن رہنا چاہتے ہوں، ہر صورت میں ان کو ان کا سامنا کرنے اور ان ہی کی روشنی میں اپنی بے سر و پا باتوں کو آئینہ دکھانے کے لیے بھی یہی باتیں کافی ہیں۔
غیر ملکی حاکم مذہب کے لوگ دنیا میں کہیں اور وجود نہیں رکھتے لیکن بھارت میں بقول بھاگوت کے ’حملہ آور مذہب‘ کے ماننے والے آج بھی بستے ہیں۔ آر ایس ایس کے کَتمانِ علم اور کِذب و مکر سے پُر بیانوں کا تاریخی، علمی اور اعداد و شمار کے ساتھ حقائق کی روشنی میں جائزہ تو لینا ہی ہوگا لیکن ہر دیدہ بینا رکھنے والا اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ موجودہ و سابقہ سچائی کیا ہے۔ اول تو یہ کہ ہم لوگ کسی لحاظ سے ’غیر ملکی‘ نہیں ہیں، اسی ملک کے باشندے ہیں اور ہمارے آبا واجداد بھی اسی مٹی سے رشتہ رکھنے والے تھے البتہ یہ ہوا کہ جب حق سامنے آیا تو ہماری نسلوں نے خود کو غیر انسانی دھرم و سنسکرتی کی جَکڑ بندیوں سے آزاد کر لیا اور خدائے واحد کی بندگی کا طوق اپنے گلے میں پہن لیا جس سے ان کو ہزاروں سجدوں سے نجات مل گئی۔ اس کے علاوہ ایک سیاسی رہنما نے جرأت دکھاتے ہوئے کہہ ڈالا کہ ’’شرم ناک سچائی تو یہ ہے کہ بھارت کے متعدد باشندے آج کل دلتوں، مسلمانوں اور قبائلیوں کو انسان تک نہیں خیال کرتے۔ یہی سبب ہے کہ اتر پردیش کا سادھو اور یوگی وزیر اعلیٰ یہ دعوی کرتے نہیں ہچکچاتا کہ ہاتھرس کی لڑکی کی آبروریزی ہوئی ہی نہیں، کیوں کہ ان کے نزدیک وہ لڑکی کوئی معنوی وجود رکھتی ہی نہیں!‘‘ ایک دیگر سیاسی جواب بھاگوت کو مل چکا ہے کہ مسلمان کیسی زندگی جی رہا ہے یہ ہمیں ان سے جاننے اور سمجھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
***
جس سناتن سنسکرتی میں عورت کی دیوی کی شکل میں پوجا کی جاتی ہے وہاں آئے دن زنا بالجبر جیسے گھناؤنے جرائم کیسے انجام پاتے ہیں، اور اگر ہوتے ہیں تو اب تک ختم کیوں نہیں ہو گئے؟ “جس دیش میں دنیا کے بہترین کرکٹر مہیندر سنگھ دھونی کی پانچ سالہ بیٹی کو عصمت ریزی کی دھمکی ملتی ہو کیا اس دیش میں غریب کسان و مزدور کی بیٹی محفوظ ہو سکتی ہے؟” کیا دنیا میں اور بھی کوئی ثقافت موجود ہے جہاں انسان کو چاہے زندہ ہو کہ مردہ، جلانے کا عمل اتنی ’خوش دلی‘ سے انجام دیا جاتا ہے؟ کیا عورت ایک داسی ہوگی یا دیوی ہوگی اور کبھی ’انسان‘ کا درجہ اسے نہیں دیا جائے گا؟ یہ اور اس طرح کے سوالوں کی بھرمار ہے جو آج عام بھارتی شہری کر رہا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020