دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی تضاد بیانی

بدعنوانی اور اخلاقی پستی کے ساتھ مذہب کے تئیں فخر محسوس کرنے کی تلقین

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

آر ایس ایس نے اس سال دسہرہ کے دن اپنا 96واں یوم تاسیس منایا۔ موجودہ مرکزی حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول سے چلتی ہے ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سنگھ کے ایجنڈے پر سب سے زیادہ مستعدی سے اتر پردیش کے یوگی ادتیہ ناتھ عمل کرتے ہیں حالانکہ اس سے اختلاف کی گنجائش بھی ہے کیونکہ فی الحال بی جے پی کے اندر مودی اور یوگی کے آگے کسی کی نہیں چلتی ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بی جے پی اب خود کفیل ہو گئی ہے یعنی اسے سنگھ کے بیساکھی کی ضرورت نہیں رہی۔ اس سچائی کا اعتراف نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسا کرنے میں کوئی سیاسی فائدہ تو ہے نہیں مگر مخالفین کو تنقید کا موقع مل سکتا ہے۔ بعض سیاسی مفکرین کا تو یہ خیال بھی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے ساتھ وہی کردیا جو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کانگریس کے ساتھ کیا تھا۔ ان دونوں نے پارٹی کے اصول و نظریا ت یا کیڈر (کارکنان) کی اہمیت کو ختم کرکے اپنی شخصیت کا محتاج بنادیا۔ ماضی میں ’ اندرا ہی انڈیا کا جو نعرہ‘ لگا کرتا تھا اب وہ مودی کے حوالے سے لگتا ہے۔ اس لیے فی الحال کانگریس جن مسائل کا شکار ہے آگے چل کر بی جے پی کا بھی انہیں سے سابقہ پیش آئے گا۔ خیر آگے کیا ہو گا کوئی بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ۔
آر ایس ایس کی عمر 96 سال ہوچکی ہے اس کے باوجود اب بھی انتخاب کا نشہ اس کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ جن صوبوں میں الیکشن قریب آتے ہیں وہاں سنگھ کی چہل پہل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اتر پردیش اور اتر اکھنڈ میں اس کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ کسان تحریک کے سبب پنجاب میں جانے سے اسے خوف محسوس ہوتا ہے اور گوا و منی پور اپنی ضخامت کے سبب غیر اہم ہیں۔ 12 اکتوبر کو اتر اکھنڈ میں سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ’ہندو جگے تو عالم جگے گا‘ کے موضوع پر ایک تقریب سے خطاب کیا اور کچھ سمجھداری کی باتیں کہیں مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں (ہندوؤں) اپنے بچوں کو اپنے مذہب اور عبادات کے تئیں احترام کرنا سکھانا چاہیے، جس سے وہ دوسرے مذاہب کی طرف نہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے مفادات اور شادیوں کے لیے مذہب تبدیل ہو جاتے ہیں۔
تبدیلی مذہب کو لے کر بی جے پی کی مختلف حکومتوں نے قانون سازی کا جو ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے یہ بیان اس سے متضاد ہے۔ اس میں انہوں نے ایک عام رجحان کہ مذہب کی تبدیلی کے لیے زبردستی یا لالچ کی بلا واسطہ تردید کردی ۔ بھاگوت نے شرکائے مجلس کو بیرونی طاقتوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے داخلی اصلاح کی جانب متوجہ کیا ۔ یہ فطری بات ہے کہ اگر والدین خود اپنے مذہب کا حترام نہ کریں یا اس کی اتباع کرنا چھوڑ دیں تو بچوں سے اس کی توقع کرنا بے معنی ہے اور ان کے دیگر مذہب کی جانب نکل جانے کے لیے کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ سر سنگھ چالک نے مذہب کی تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے ہم (ہندو سماج) خود ذمہ دار ہیں، کیونکہ ہمارے بچے ہم ہی تیار کرتے ہیں اور ہمیں ان کو مذہبی اقدار گھر میں ہی دینے ہوں گے‘۔
اصولاً یہ بات درست ہے لیکن اگر کسی مذہب کے نظریات پریشان کن ہوں مثلاً اس میں عقیدۂ شرک موجود ہو تو اس کی اندھی تقلید تو ممکن ہے مگر غور وفکر کے بعد اس سے وابستہ رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ پُنر جنم کے عقیدے پر عمل کرنے والے کے لیے حق و انصاف کی جنگ بے معنیٰ ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے نزدیک مظلوم پچھلے جنم کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ ورن آشرم کو موجودہ دور میں تسلیم کر کے اس کا جواز پیش کرنا ممکن نہیں ہے چاہے لوگ عملاً اس سے کتنا بھی فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح سنگھ کے اپنے لٹریچر میں جس ڈھٹائی کے ساتھ ہٹلر کو سراہا گیا اور مسولینی جیسے سفاک کو آئیڈیل قرار دیا گیا ہے اس کو پڑھنے کے بعد نوجوان نسل کے لیے سنگھ کے مذہبی نظریات سے اتفاق کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں ساورکر کا معافی نامہ اور سنگھ کی بے عملی بھی باشعور نوجوانوں کو قریب لانے کے بجائے دوری کا سبب بنتی ہے ۔
اس ذیل میں ایک مسئلہ مذہبی بدعنوانی اور اخلاقی پستی کا بھی ہے۔ سنتوں کی سب بڑی تنظیم کل ہند اکھاڑا پریشد کے صدر مہنت نریندر گیری پر ان کے شاگرد آنند گیری نےانتقال سے قبل جس طرح کے الزامات لگائے اور ویڈیوز پیش کیے نیز مشکوک موت کے بعد جس طرح کی کھینچا تانی ہوئی اس کو دیکھ کر ہر کوئی بدظن ہو گا۔ آسارام باپو اور بابا رام رحیم بلکہ بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر سوامی چنمیانند جیسوں پر لگنے والے جنسی استحصال کے سنگین الزامات بھی عوام کو مذہب بیزار بناتے ہیں۔ ویسے سنگھ پریوار پر بھی ایودھیا کی رام مندر معاملے میں کروڑوں کی دھوکہ دہی کا الزام لگ چکا ہے۔ ابھی حال میں کیلاش وجئےورگیہ کو عصمت دری کے الزام میں ضمانت لینی پڑی ماضی میں سنجے جوشی کی ویڈیو آئی تھی۔ سرسنگھ چالک نے شرکائے مجلس کو اپنے مذہب کے تئیں فخر محسوس کرنے اور بچوں کو تیار کرنے پر ابھارا مگر ان مذہبی رہنماوں کے ہوتے ہوئے یہ کیونکر ممکن ہے۔ ایسے میں جب کسی کے سامنے کوئی صاف ستھرا مذہب آتا ہے تو اس کا اسے قبول کرنا ایک فطری امر ہے۔ اسے روکنے کی خاطر قانون کا ڈنڈا بے سود ثابت ہو گا۔
سر سنگھ چالک نے جس اترا کھنڈ میں اچھی اچھی باتیں کہیں وہیں پر ایک ہفتہ قبل روڑکی سمیت کئی گرجا گھروں پر مذہب کی تبدیلی کے نام پر حملے ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے بقول اگر ہندو سماج اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو جائے تو اس کی سزا دوسروں کو کیوں دی جائے؟ موہن بھاگوت اپنے قول کے پکے ہوتے تو نہ صرف ان حملہ آوروں کی مذمت کرتے بلکہ انہیں سزا دلواتے اور متاثرین سے ملاقات کر کے ان کی دل بستگی کا سامان کرتے مگر انہوں نے اس ایسا نہیں کیا اس لیے ان کا خطاب ازخود بے اثر ہو گیا۔ روڑکی میں سول لائن کوتوالی علاقے میں واقع سلونی پورم میں چرچ پر حملے کی بابت متاثرین کے اس الزام کا پولیس ذرائع نے بالآخر اعتراف کیا کہ یہ حملہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت انجام دیا گیا تھا اور اس کے لیے کئی دنوں سے مسیحی سماج کو طنز وتشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن انتظامیہ نے ان کی شکایت پر توجہ یا کارروائی نہیں کی۔
4؍ اکتوبر کو ہندو تنظیموں سے وابستہ سیکڑوں افراد نے لاٹھی ڈنڈے لے کر مذکورہ 35 سال پرانے چرچ پر حملہ کر دیا۔ وہ وندے ماترم، بھارت ماتا کی جئے اور جئے شری رام کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ انہوں نے بدسلوکی کے بعد تبدیلی مذہب کا الزام لگایا اور نہ صرف ساز وسامان توڑ دیا بلکہ لوگوں کے موبائل بھی چھین لیے اور یہ دھمکی دی کہ وہاں صرف ہندو سماج کے لوگ ہی رہیں گے۔اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ چرچ کے منتظمین کے حملہ آوروں میں سے بہت سوں کے ساتھ دیرینہ خاندانی تعلقات تھے لیکن نفرت نے انہیں اندھا کر دیا ہے۔ اس حملے کی قیادت بی جے پی کی یوتھ ونگ اور او بی سی شعبہ کے رہنماوں نے کی جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ چرچ پر بزدلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے والا رجت موت سے لڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حملہ دھرم کی رکشا کے لیے نہیں بلکہ چرچ کی تحویل میں موجود کروڑوں روپے کی مالیت والی زمین کو ہتھیانے کی خاطر کیا گیا ہے کیونکہ چرچ کے اطراف کا علاقہ تجارتی نقطہ نظر سے بہت قیمتی ہے۔ کیا موہن بھاگوت کو اسی تہذیب وثقافت پر فخر ہے۔ کیا وہ سنگھ کے پرچارک وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی تلقین کر کے بین الاقوامی سطح پر ملک کی شبیہ کو نقصان پہنچانے سے روکیں گے؟
بی جے پی حکومت میں اندھیر نگری کا یہ عالم ہے کہ چرچ پر حملہ کرنے والے ملزمین کو تو گرفتار نہیں کیا گیا الٹا کویتا نامی خاتون کے ذریعہ چرچ انتظامیہ کے خلاف دو لاکھ روپے اور نوکری کی پیشکش کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کی ایف آئی آر درج کرادی گئی۔ آئندہ سال اترا کھنڈ اور اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ عوامی ناراضگی کی پردہ پوشی کے لیے آر ایس ایس اور بی جے پی مذہبی تبدیلی کے بہانے جذباتی استحصال کر رہی ہیں۔ اتر پردیش میں بے قصور مولانا عمر گوتم اور مولانا کلیم الدین صدیقی کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور اب اعظم گڑھ، مئو اور مہوبا میں پولیس نے مذہب تبدیل کروانے کے جرم میں عیسائی پادریوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ہے۔ ان سب پر بھی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر عیسائی بنانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
ضلع مئو میں ہندو جاگرن منچ کے کارکنوں نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ شہادت پورہ محلہ میں بجندر کمار کے گھر میں عیسائی مشنری کے ذریعہ عبادت کی مجلس کے نام پر غیر قانونی طور پر مذہب تبدیل کرایا جا رہا ہے جبکہ بجندر کے مطابق ان کے گھر پر گانے بجانے کا پروگرام چل رہا تھا۔ اس پر مقامی لوگوں نے ہنگامہ کر کے ہندو جاگرن منچ کے لوگوں کو بلا لیا۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر پادری ابراہم سمیت آٹھ لوگوں کو گرفتار کر کے ان خلاف آئی پی سی دفعہ 298، دفعہ 504 وبا ایکٹ سمیت اتر پردیش مذہبی تبدیل ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ ہندو جاگرن منچ کے بھانو پرتاپ سنگھ کا الزام ہے کہ بجندر کمار کے گھر میں گزشتہ پانچ سالوں سے غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کا کام چل رہا ہے۔ وہاں عیسائی مذہب اختیار کرنے والے خاندان کے بچوں کا عیسائی مشنری اسکول میں داخلہ، مفت تعلیم، شادی بیاہ کے اخراجات اور علاج میں سہولتوں کا لالچ دے کر ان کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندو جاگرن منچ اتنے دنوں تک کیوں خاموش تھا اور اب اچانک عین انتخاب سے قبل کیوں جوش میں آگیا۔
مئو کے بعد ضلع مہوبا میں بھی ہندتوادی تنظیموں کی شکایت پر پادری آشیش جان پر پچھلے آٹھ سالوں سے غریبوں کو پیسوں کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ پولیس کے مطابق انہوں نے سیمریا گاؤں کے تین کسانوں کو پیسوں کا لالچ دے کر عیسائی بنایا۔ ہندو تنظیموں کے مطابق پادری آشیش مہوبا نے ٹھاکر داس محلہ کے سچن دویدی کو علاج و کاروبار کے لیے پیسے دینے کا لالچ دے کر عیسائی مذہب میں شامل ہونے کا دباؤ ڈالا۔ یہ عجیب احسان فراموشی ہے کہ کوئی مدد کرے تو اس کے دباو خلاف ڈالنے کی شکایت کی جائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دباو میں کوئی مذہب تبدیل نہیں کرتا۔ سچن کی شکایت پر پولیس نے پادری آشیش کے خلاف ایکٹ 2020 کی دفعہ 3 دفعہ 5 کے تحت مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا۔ اتر پردیش میں اس سلسلے کی ابتدا 8 ستمبر کو اعظم گڑھ کے لاٹ گھاٹ گاؤں سے ہوئی جہاں مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں پولیس نے عیسائی مشینری سے وابستہ دو لوگوں کو گاؤں کے پردھان کی شکایت پر گرفتار کیا، حالانکہ ملزمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو صرف مذہب کی تبلیغ کی مذہب تبدیل نہیں کرایا۔
ایک طرف تو سنگھ کے رام راجیہ میں مسلم اور عیسائی اقلیتوں کو مختلف بہانوں سے ہراساں کیا جاتا ہے دوسری جانب آر ایس ایس کے سربراہ اپنی تنظیم کے 96ویں یوم تاسیس پر کہتے ہیں کہ ’’ہندوستانی ہونے پر یقین رکھنے والے مختلف مذاہب کے لوگ ہمارے آبا واجداد کے نظریات کو سمجھتے ہیں۔ کسی کو کسی زبان، عبادت کے نظام کو ترک کرنے کی ضرورت نہیں، بنیاد پرست سوچ کو چھوڑنا ضروری ہے۔ مسلمان ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، قوم پرست سوچ ضروری ہے، ہندو سماج ہر کسی کو اپنا لیتا ہے‘‘۔ اپنائیت کا اظہار کرنے کے فوراً بعد موہن بھاگوت آبادی کے کنٹرول کا راگ الاپتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک کی مجموعی آبادی بالخصوص سرحدی علاقوں میں آبادی کے تناسب میں بڑھتا ہوا عدم توازن، مختلف فرقوں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں وسیع تغیر کی وجہ سے غیر ملکی دراندازی اور تبدیلی مذہب سنگین بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ بھاگوت نے 1951 اور 2011 کے درمیان مسلم آبادی کے تناسب میں اضافے کا خوف دلایا جو سنگھ کا پرانا حربہ ہے۔ یہ سب تضاد بیانی نہیں تو اور کیا ہے؟
وجئے دشمی کے موقع پر پہلی بار سر سنگھ چالک نے قابل نمونہ مسلمانوں کی فہرست گناتے ہوئے کہا کہ ’’حسن خان میواتی، حکیم خان سوری، خدا بخش، غوث خان اور اشفاق اللہ خان جیسے ہیروز سب کے لیے مثالی ہیں۔‘‘ سر سنگھ چالک نے تو محض چند مسلمان مجاہدین آزادی کے نام گنائے حالانکہ دہلی کی انڈیا گیٹ پر تحریر شدہ تقریباً 95,300 مجاہدین آزادی میں سے 61,945 یعنی 65 فیصد مسلمان ہیں جبکہ باقی 35 فیصد ہندووں میں سے ایک کا تعلق بھی آر ایس ایس سے نہیں ہے۔ اس لیے سر سنگھ چالک کا یہ کہنا کہ’’ 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا، لیکن یہ آزادی راتوں رات نہیں ملی۔ جس دن ملک آزاد ہوا اس دن آزادی کی خوشی کے ساتھ جو تکلیف اپنے دل میں محسوس کی، وہ درد ابھی تک نہیں گیا‘‘ بے معنیٰ ہے اور بی جے پی کے زیر اقتدار صوبوں میں نت نئے طریقوں سے مسلمانوں کو پریشان کرنا احسان فراموشی ہے۔
موہن بھاگوت پچھلے کئی ماہ سے متضاد باتیں کہہ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ عالمی سطح پر ہندوتوا کے خلاف بننے والی فضا ہے۔ اس کا ایک ثبوت امریکہ کے شہر شکاگو میں ’’ڈسمینٹلنگ گلوبل ہندوتوا‘‘ کے عنوان سے 10 ستمبر تا 12 ستمبر تک منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس ہے۔ اس اجلاس کو 45 سے زائد یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں اور مراکز کی سرپرستی حاصل ہوئی تھی جن میں نارتھ ویسٹرن، ہارورڈ، یو ٹورنٹو، یوسی برکلے، این وائی یو، یو ایلینوئی اربانا، شامپین قابلِ ذکر ہیں۔ کل تک امریکہ میں اسلامو فوبیا کے شور شرابے پر بغلیں بجانے والے ہندو احیا پرستوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اس نے غالباً موہن بھاگوت کو فکر مند کردیا ہے اور وہ گول مول باتیں کرنے لگے ہیں لیکن اپنے سیاسی فائدے کی خاطر بی جے پی والے اس پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں۔
آر ایس ایس اپنے قیام کے بعد ہر سال یوم تاسیس کا اہتمام کرتا رہا ہے اور سنگھ کے سربراہ دیگر تقریبات میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ پر چونکہ بائیں بازو کے نظریات غالب تھے اس لیے انہیں نظر انداز کردیا جاتا تھا یا پھر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ مودی یگ میں ذرائع ابلاغ پر خاص توجہ دی گئی اور اس کا ایک طرح سے شدھی کرن کیا گیا کہ جانب دار متعصب میڈیا عالمِ وجود میں آگیا۔ یہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور آنکھیں موند کر بی جے پی آئی ٹی سیل کے جھوٹ کی تشہیر کے کام میں مگن رہتے ہیں۔ سر سنگھ چالک کے متضاد بیانات کو میڈیا میں نہایت خوشنما بناکر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کا داخلی تضاد از خود تنقید کا ہدف بن جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی کمی ہے جس کا علاج خود سنگھ کے پاس بھی نہیں ہے۔ اس لیے عالمی برادری اب اس کے جھانسے میں نہیں آسکتی۔ سنگھ کے قول و عمل پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
***

 

***

 موہن بھاگوت پچھلے کئی ماہ سے متضاد باتیں کہہ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ عالمی سطح پر ہندوتوا کے خلاف بننے والی فضا ہے۔ اس کا ایک ثبوت امریکہ کے شہر شکاگو میں ’’ڈسمینٹلنگ گلوبل ہندوتوا‘‘ کے عنوان سے 10 ستمبر تا 12 ستمبر تک منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس ہے۔ اس اجلاس کو 45 سے زائد یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں اور مراکز کی سرپرستی حاصل ہوئی تھی ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021