دہلی اقلیتی کمیشن نے مسلم نوجوانوں کی بے وجہ گرفتاری کے خلاف دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا
نئی دہلی، اپریل 5: دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) نے دہلی پولیس کو شمال مشرقی دہلی کے فسادات سے متاثرہ علاقوں میں مسلم نوجوانوں کی بےوجہ گرفتاری سے متعلق معاملات اٹھاتے ہوئے نوٹس جاری کیا ہے، جس میں ان سے رشوت کا مطالبہ کرنے، مساجد میں اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہے اور لاک ڈاؤن کے باوجود شمال مغربی دہلی میں علی پور پولیس اسٹیشن کے تحت مکھمیل پور میں 3 اپریل کو ایک مسجد کو مبینہ طور پر ایک بھیڑ کے ذریعے شدید نقصان کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ہے۔
کمیشن نے پولیس سے ایک ہفتے میں اپنی کارروائی سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔
کمیشن نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ 3 اپریل کی رات کو اس مسجد کو نقصان پہنچایا گیا تھا جب لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے مسجد کے احاطے میں صرف تین چار افراد موجود تھے۔
کمیشن نے نوٹس میں کہا ہے کہ اسے 3 اپریل کو شمال مشرقی ضلع سے ای میلز، واٹس ایپ میسجز اور فون کالز کے ذریعے اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پولیس لاک ڈاؤن ختم ہونے سے پہلے ہی ہر روز درجنوں نوجوان لڑکوں کو بلاوجہ بےترتیبی سے گرفتار کرتی ہے۔
کمیشن کے نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’جب گرفتاری کا عمل بلا روک ٹوک جاری رہا تو مصطفی آباد میں بڑی تعداد میں مسلمان خواتین 2 اپریل کی شام 8 بجے اس قابل اعتراض اور مشکوک سرگرمی کے خلاف احتجاج کرنے نکلیں‘‘
نوٹس کے مطابق کمیشن نے اس سے قبل بھی شمال مشرقی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کو ایک نوٹس میں توجہ دلائی تھی کہ "ضلع میں نوجوان مسلمان لڑکوں کو غیر ضروری طور پر گرفتار کرنے کا رجحان قابل قبول نہیں ہے،‘‘
نوٹس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں پولیس کے کچھ اہلکار گرفتاریوں کی دھمکی دے کر "رشوت” یا "تاوان” بھی وصول کر رہے ہیں۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ رقم کی ادائیگی کرنے والوں نے گرفتار شدہ نوجوانوں کو آزاد کرا لیا جب کہ دوسرے قید میں ہی ہیں۔
نوٹس میں کمشنر آف پولیس ایس این سریواستو سے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں کو ایسی گرفتاریوں سے باز رکھیں کیونکہ گرفتاری کسی کے قابل جرم معاملے میں ملوث ہونے کے بارے میں واضح ثبوت کی موجودگی میں ہی کی جانی چاہیے۔
کمیشن نے اپنے نوٹس میں کہا ’’ایک بار لاک ڈاؤن ختم ہو گیا اور حالات معمول پر آ گئے تو ہم ان گرفتاریوں پر گہری نظر ڈالیں گے۔‘‘
اقلیتی ادارہ نے یہ سنجیدہ معاملہ بھی اٹھایا کہ پولیس نے کچھ علاقوں میں مساجد کو ’’اذان‘‘ کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’مساجد کے ذریعہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال یہ اعلان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ نماز کا وقت آگیا ہے تاکہ لوگ گھر پر وقت پر نماز پڑھیں کیوں کہ ہر نماز کے لیے مقررہ وقت ہے۔ لہذا لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی ممانعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایس ایچ اوز کو واضح طور پر کہا جانا چاہیے کہ وہ اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی ممانعت پر اصرار نہ کریں اور صرف اسی صورت میں کارروائی کریں جب چار سے زیادہ افراد نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوں۔‘‘
نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچھ علاقوں میں گوشت کی دکانیں بند کردی گئی ہیں جو لاک ڈاؤن کے حکومتی اصولوں کے خلاف ہے، کیوں کہ حکومت کے مطابق اشیائے خوردونوش کی دکانیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
4 اپریل کو جاری کردہ ایک دوسرے نوٹس میں کمیشن نے کہا کہ اسے ایک رپورٹ اور ایک ویڈیو موصول ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 3 اپریل کی رات 8 بجے کے لگ بھگ 200 افراد نے شمال مغربی دہلی میں علی پور تھانے کے تحت گاؤں مکھمیل پور میں ایک مسجد پر حملہ کیا، جب مسجد میں دو یا تین افراد ہی موجود تھے۔
کمیشن نے اپنے نوٹس میں کہا ’’ہجوم نے مسجد پر حملہ کیا، اس میں توڑ پھوڑ کی، جزوی طور پر جلایا اور اس کے کچھ حصے چھت سمیت مسمار کردیے۔‘‘
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے ’’یہ ناقابل یقین تھا کہ یہ قومی دارالحکومت میں ہوسکتا ہے۔ مصنوعی طور پر کسی سمجھوتے کا بندوبست کرکے اس مسئلے کی گرفت نہیں کی جاسکتی ہے، جہاں کسی مذہبی مقام کو توڑ ڈالا گیا ہے اور جزوی طور پر جلایا گیا ہے اور اسے مسمار کیا گیا ہے۔ اگر مناسب قانونی کارروائی نہ کی گئی تو یہ لاقانونیت عام ہوجائے گی۔‘‘
کمیشن نے پولیس کمشنر سے کہا کہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ کمیشن نے کہا ’’قانون کو اپنا راستہ اپنانا چاہیے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں ایک خوف پیدا ہوجائے کیوں کہ کچھ لوگوں نے یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ کمزور طبقات، مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف ہونے والے کسی بھی جرم کے بعد وہ آرام سے آزاد ہوں گے۔‘‘