اقلیتی کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر باہمی رضامندی ہو تو بین المذاہب شادی پر کوئی پابندی نہیں

نئی دہلی، مئی 5: اقلیتی قومی کمیشن کے سربراہ نے بدھ کے روز ’’لو جہاد‘‘ کی اصطلاح کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جوڑے کی باہمی رضامندی سے بین المذاہب شادی پر کوئی پابندی نہیں۔

اقلیتی کمیشن کے سربراہ اقبال سنگھ لال پورا نے سوال کیا ’’لو جہاد کیا ہے؟ مجھے یہ اصطلاح کسی لغت میں نہیں ملی۔ میں نے ’’لو جہاد‘‘ پر اس طرح کی کوئی شکایت کسی خاص کمیونٹی کی طرف سے نہیں دیکھی۔ میں بی جے پی کا نمائندہ یا ترجمان نہیں ہوں۔ صرف وہی آپ کو [لو جہاد کے بارے میں] بتا سکتے ہیں۔‘‘

اقبال سنگھ ملک میں ’’لو جہاد‘‘ کے خلاف بی جے پی کی مہم سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔ یہ اصطلاح ایک سازشی تھیوری سے متعلق ہے جس کی تائید ہندوتوا کے کارکنوں نے کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو بعد میں اسلام قبول کروانے کے لیے ان سے شادی کرتے ہیں۔‘‘

ہندوتوا کارکن اس اصطلاح کو بین المذاہب شادیوں کی وضاحت کے لیے استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے فروری 2020 میں لوک سبھا کو بتایا تھا کہ کسی بھی مرکزی ایجنسی کے ذریعہ ’’لو جہاد‘‘ کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

اتر پردیش، کرناٹک، ہریانہ، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش جیسی بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستیں پہلے ہی ’’لو جہاد‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تبدیلیِ مذہب مخالف قوانین نافذ کر چکی ہیں۔

پی ٹی آئی کے مطابق اقبال سنگھ نے بدھ کو کہا ’’اگر جوڑے کی باہمی رضامندی ہو تو بین المذاہب شادی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘‘

تاہم انھوں نے مزید کہا کہ کمیشن کو کچھ والدین کی جانب سے کچھ شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کے بچوں کو بین المذاہب شادی میں گمراہ کیا گیا اور ان کی رضامندی کے بغیر انھیں لے جایا گیا۔

کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ ایسے معاملات کی تصدیق اور ضروری مزید کارروائی کرنے کے لیے ریاست کو ہدایت کی جاتی ہے۔

دریں اثنا دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق اقبال سنگھ نے جہانگیر پوری میں مسماری مہم سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا قومی اقلیتی کمیشن دہلی میں بی جے پی کے زیر انتظام شہری اداروں کے ذریعے کی گئی مسماری میں مداخلت نہیں کرے گا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ مسماری سزا کے طور پر نہیں کی جا رہی ہے، بلکہ ’’غیر قانونی تجاوزات کو ہٹا کر موجودہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے‘‘ کی جا رہی ہے۔

معلوم ہو کہ کئی سول سوسائٹی تنظیموں اور کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ دہلی شہری اداروں کی طرف سے مسلم اکثریتی علاقوں میں انہدام کی حالیہ کارروائیاں فرقہ وارانہ اور سیاسی طور پر محرک تھیں۔

دریں اثنا جنوبی دہلی کے میئر مکیش سوریان نے 25 اپریل کو کہا تھا کہ میونسپل کارپوریشن شاہین باغ، اوکھلا اور تلک نگر کے علاقوں میں انہدامی مہم چلائے گی۔