جماعت اسلامی ہند نے ڈی ایم سی کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف ایف آئی آر ختم کرنے کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، مئی 3: دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف برادریوں کے مابین بغاوت اور فرقہ وارانہ تفریق پھیلانے کے الزام میں ایف آئی آر کے اندراج پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ایف آئی آر کو ختم کیا جائے، کیوں کہ ڈاکٹر خان کے خلاف الزامات ان کے بیانات کی غلط تشریح پر مبنی ہیں۔

ڈاکٹر خان کے خلاف جمعہ کی شام وسنت کنج کے ایک رہائشی کی شکایت کی بنیاد پر دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے مقدمہ درج کیا تھا۔ شکایت کنندہ نے کہا تھا کہ ڈاکٹر خان نے 28 اپریل کو اپنے ٹویٹ میں شمال مشرقی دہلی پر تشدد کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں پر ’’ظلم و ستم‘‘ کا نوٹس لینے پر کویت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر خان نے بعد میں کہا کہ میڈیا کے ذریعے ان کے ٹویٹ کی غلط تشریح کی گئی ہے۔

اتوار کی شام میڈیا کو جاری ایک بیان میں امیرِ جماعت نے کہا ’’ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ایک قابل احترام دانشور، مصنف اور صحافی ہیں۔ اردو، عربی اور انگریزی میں ان کی تحریریں پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں۔ فی الحال وہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ہیں، جو ایک اہم قانونی اور نیم عدلیہ ادارہ ہے۔ اقلیتوں پر ہونے والے مختلف ناانصافیوں کی طرف حکومت کی طرف توجہ دلانا اور ان کی توجہ مبذول کرنا اس کے سرکاری فرائض کا ایک حصہ ہے۔ اگر اس ایف آئی آر کی خبر درست ہے تو یہ بات عیاں ہے کہ نہ صرف قابل اعتماد افراد بلکہ اہم جمہوری ادارے بھی اب پولیس کی سرکشی سے محفوظ نہیں ہیں۔ پوری قوم کے لیے یہ بڑی پریشانی کی بات ہے۔‘‘

امیرِ جماعت اسلامی ہند نے کہا ’’ڈاکٹر خان کی سوشل میڈیا پوسٹوں کے کچھ پہلوؤں سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے جو اس ایف آئی آر کو درج کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ اس کے بعد انھوں نے اس کے بارے میں وضاحتی بیان بھی جاری کیا۔ پھر بھی ایف آئی آر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ واضح طور پر سوشل میڈیا ٹرولس اور شرارتی نفرت انگیز مبینہ چینلز کے دباؤ میں درج کیا گیا ہے۔ حالاں کہ پوری قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح پولیس اقلیتوں اور ان کے مذہبی جذبات کے خلاف انتہائی زہریلے اور نفرت انگیز سوشل میڈیا پوسٹس کو نظرانداز کررہی ہے۔ ان اقدامات نے دہلی پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت اور اعتراض پر سوالیہ نشان لگائے ہیں۔‘‘

اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے ڈاکٹر خان کی حقیقی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا ’’ڈاکٹر خان کے بروقت اقدامات سے اقلیتی کمیشن پر مسلمانوں، سکھوں ، عیسائیوں اور دہلی کی دیگر تمام اقلیتوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے پوری دنیا میں انتہا پسندی اور مذہبی تشدد کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریر کیا ہے۔ وہ اپنے بیانات اور تجزیاتی مضامین کے ذریعے داعش اور دیگر بنیاد پرست تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور انھوں نے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘

امیر جماعت نے مزید کہا ’’آج اگر وہ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف کچھ کہتے ہیں تو اسے عوام اور قوم سے ان کی محبت اور انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے خلاف جاری جدوجہد کے ایک حصے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔‘‘

جناب سعادت اللہ حسینی نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر خان کے خلاف ایف آئی آر کو ختم کیا جائے اور پولیس اور حکومت کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو ڈاکٹر خان کے جاری کردہ وضاحت کے بعد بھی معاشرے میں تفریق اور نفرت پیدا کرنے کے لیے ڈاکٹر خان کے بیان کی غلط تشریح کر رہے ہیں۔