دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی مذموم کوشش
ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں راکٹ لانچر تلنگانہ کی درسی کتاب میں متنازعہ تصویر کی اشاعت
ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین
درسی کتابوں میں وقتاً فوقتاً بھگوا کَرن اور دل آزاری کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شعبہ تعلیم میں ایک مخصوص نظریہ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور لوگوں کو اسلام کے بارے میں بدگمان کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی تعلیمی اداروں میں طلباء کی اسلام مخالف ذہن سازی اب عام ہوتی جارہی ہے۔ کسی بھی مذہب کی شبیہ کو بگاڑکر پیش کرنا قابل مذمت عمل ہے۔ معصوم طلبا کے ذہنوں میں اگر زہرگھولا جائے تو یہ بچے ملک و باشندگان ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتے۔ بقول شاعر مشرق:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
درسی کتب میں اسلامو فوبیا کی تازہ مثال ریاست تلنگانہ میں اس وقت سامنے آئی جب انگریزی میڈیم آٹھویں جماعت کی سوشل اسٹڈیز کی گائیڈ بک کے ایک مضمون میں ایک متنازعہ تصویر شائع کی گئی۔ یہ گائیڈ بک حکومت کی جانب سے جاری نہیں کی گئی بلکہ وی جی ایس نامی ایک پرائیویٹ پبلیشر نے شائع کی ہے، حالانکہ حکومت اور محکمہ تعلیمات کی جانب سے ناشرین کو اس طرح کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ آٹھویں جماعت کی نصابی کتاب Real Life Beyond Text Bookکے صفحہ نمبر 291 پر جو مضمون دیا گیا ہے اس کا عنوان National movement the last phase 1919-1947 ہے۔ اس کے تحت دی جانے والی چند تصاویر میں عدم تعاون کی تحریک، گاندھی جی کی ستیہ گرہ، نیشنل کانگریس کے اجلاس اور سِول نافرمانی تحریک کے ساتھ ایک تصویر شائع کی گئی جس میں ایک نقاب پوش کو ہاتھ میں کتاب اور کندھے پر راکٹ لانچر کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ اگر واقعی یہاں کسی ’دہشت گرد‘ کی تصویر دینے کی ضرورت تھی تو مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی تصویر سے بہتر اور کس کی تصویر ہو سکتی تھی؟
وی جی ایس پبلشر کے مینیجنگ پارٹنر نے اپنے مکتوبِ معذرت خواہی میں کہا کہ کمپنی نے اعتراضات کے ساتھ ہی بازار سے تمام کتابیں واپس لینے کے اقدام کیے ہیں اور ادارہ ایسی تصویر کی اشاعت پر معذرت خواہ ہے، تصویر کو حذف کرکے نئی کتاب کی اشاعت کی جائے گی۔
اس واقعہ کی بازگشت ریاستی اسمبلی میں بھی سنائی دی جب تلنگانہ کے وزیر امور مقننہ پرشانت ریڈی نے ارکان اسمبلی کو تیقن دیا کہ خانگی پبلیشر کی جانب سے سماجی علم کے کوئسچن بینک میں قابل اعتراض تصویر کی اشاعت پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ ریاستی اسمبلی کے مانسون اجلاس کے وقفہ صفر میں مجلس اتحاد المسلمین کے رکن احمد بلعلہ کی جانب سے حکومت کو توجہ دلائی گئی جس پر وزیر امور مقننہ پرشانت ریڈی نے کہا کہ اس معاملہ کا حکومت نے نوٹ لیا ہے۔ پبلیشر کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور آف لائن بھی متنازعہ تصویر ہٹانے کی ہدایت دی جائے گی۔
ہفت روزہ دعوت نے اس واقعہ کے تعلق سے مختلف افراد و تعلیمی جہدکاروں سے بات کی۔ سبھی نے اس حرکت کی مذمت کی اور اس طرح کے واقعات کے سدباب کے لیے محکمہ تعلیمات سے سخت اقدامات کرنے کی اپیل کی۔
جناب شیخ عبدالرحمٰن، معلم گورنمنٹ اسکول دیول گاؤں ماہی مہاراشٹرا نے کہا کہ ’’ایسی حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف سنجیدہ قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔ شرپسند عناصر ایسی گستاخانہ حرکت کا ارتکاب کرنے کے بعد بظاہر معافی مانگتے ہیں لیکن انہیں جو کرنا ہوتا ہے وہ کر دیتے ہیں۔ ایسے میں قانونی چارہ جوئی ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے چند افراد کو متعین کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک فالو اپ لیتے رہیں۔‘‘
قانونی چارہ جوئی کے خوف سے شرپسند پبلشر آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ اس جانب شعبہ قانون سے وابستہ افراد کو توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق ممبر تلنگانہ یونیورسٹی بورڈ، نظام آباد نے کہا کہ اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی ہو چکے ہیں۔ در اصل ہم اسلامی تعلیمات صحیح ڈھنگ سے دیگر ابنائے وطن تک نہیں پہنچا سکے۔ دہشت گردی کا الزام سیاسی ہتھکنڈا ہے۔ چند مٹھی بھر افراد کی وجہ سے مسلمان اور اسلام بدنام ہو جاتے ہیں۔ مسلمان امن کا پیامبر ہوتا ہے، مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ اسلام کے تعلق سے غلط باتیں تو ہمیشہ سے ہی پھیلائی جاتی رہی ہیں اس کے جواب میں ہمیں اسلام کے بارے میں صحیح باتیں برادران وطن تک پہنچانا چاہیے۔ اگر اس فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کی گئی تو اسلام دشمن طاقتیں مزید حملہ آور ہوں گی۔
احمد علی معلم گورنمنٹ اسکول نے کہاکہ حکومت نے 2018 میں دسویں جماعت کے لیے گائیڈ بکس کی فراہمی پر پابندی عائد کی تھی جس کا مقصد طلبا کو امتحان کی تیاری کے لیے آمادہ کرنا تھا۔ تیار جوابات سے ان کی سوچنے اور تحقیق کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ گائیڈ بکس شائع کرنے والے مان مانے طور پر غیر ضروری اور نامناسب تصاویر ڈال دیتے ہیں جس کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔ گائیڈ بکس پرپابندی نہ بھی لگائی جائے تب بھی اس تعلق سے سخت نوٹ ضرور لیا جائے اور مواد پر گہری نظر رکھی جائے۔
ایک خانگی اسکول کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد عثمان نے کہا کہ پہلے دل آزاری کرنا اور بعد میں معافی مانگ لینا اب معمول بن گیا ہے، ایسے لوگوں کی معافی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں سخت سزا دینا چاہیے تاکہ آگے آئندہ کوئی ایسی ہمت نہ کرسکے۔ اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑنے کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ مسلمان کبھی اس طرح کی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے، کسی مسلمان نے گاندھی جی کے قاتل کو ہندو دہشت گرد نہیں کہا بلکہ صرف دہشت گرد کہا ہے۔ دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے جوڑ دینا نہایت قابل مذمت ہے، اور خاص طور پر اسے اسلام کے ساتھ جوڑنا تو انصاف کے صریح خلاف ہے کیونکہ اسلام کے معنی ہی سلامتی کے ہیں، اب کوئی سلامتی کو ہی عدم سلامتی قرار دے تو ایسے شخص یا ادارے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہی ہوگی۔
ریاستی صدر آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن (AIITA) محمد یقین الدین پرنسپال گورنمنٹ بوائزجونیئر کالج نظام آبادنے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ ایسے مذموم واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں کتابوں کے پبلشرز اور اخبارات کے مالکوں نے دانستہ یا نا دانستہ اسلام، قرآن اور رسول پاکؐ کی شان میں گستاخی کی ہے یاپھرمسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ناپاک کوشش کی ہے، ریاست تلنگانہ میں پیش آنے والا تازہ واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس پبلشر نے بھی معافی مانگی اور کتابوں کو واپس لینے کا اعلان کیاہے، لیکن اس طرح کے واقعات کے روک تھام کے لیے مستقل حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت اس جرم کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کرے اور آئندہ اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے سخت قانون بنانے اور اجازت و رجسٹریشن کے مرحلہ پر ہی کتابوں کے پبلشرز، رسالوں اور اخبارات کے مالکان و سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مالکان سے مناسب تیقن حاصل کر لیا جائے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے مسلمانوں کو انصاف پسند برادرانِ وطن کے ساتھ مل کر منظم اور باضابطہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر مسئلہ پر خاموشی امت کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ امت مسلمہ کا دانشور طبقہ بھی اپنا کردار نبھائے اور ایسے لوگوں کے خلاف بڑے پیمانے پر عدالتی کارروائیاں کرے نیز، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے نفرت کے ماحول کو ختم کرنے اور اسلام کی سچائی سے عوام کو واقف کروانے کے لیے محبت، حکمت اور موعظت کے ساتھ منظم اور مستقل بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔
تلنگانہ کی درسی کتاب میں مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑ کر پیش کرنے کی حرکت قابل مذمت ہے۔ اس تعلق سے ماہرین نے چار باتوں کی تلقین کی ہے
۱) دل آزار واقعات کا سختی سے نوٹ لیں اور متعلقہ محکمہ میں احتجاج درج کرائیں۔
۲) کچھ لوگ قانونی چارہ جوئی کریں
۳) غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مناسب طریقوں سے اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں۔
۴) اسلام کی دعوت کو عام کریں اور برادرانِ وطن تک اسلام کو صحیح شکل میں پیش کریں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021