دو ادب میں تقابلِ ادیان کا فروغ قومی یکجہتی کی علامت (قسط 5)

پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی کتاب "مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت" شاہکار تصنیف اگر معاشرے میں پر امن ماحول چاہتے ہو تو یقیناً دیگر مذاہب کا مطالعہ تعصب کی عینک ہٹا کر کرنا ہوگا

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی ،علی گڑھ

تقابل ادیان پر "مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت” کے نام سے ایک شاہکار اور معتبر و مستند تصنیف معروف اسلامی اسکالر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ دینیات سنی کے مؤقر استاد پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی ہے۔ اس کتاب کو ہندوستان کے معروف علمی، فکری اور تحقیقی ادارہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی نے 2019 میں شائع کیا ہے۔ کتاب کے محتویات میں ایک مقدمہ پیش لفظ اور دس ابواب ہیں۔ قارئین کی توجہ اور دلچسپی کے لیے ذیل میں کتاب کے مشمولات کی فہرست بھی قلمبند کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
باب اول میں عہد نبوی اور عہد صحابہ میں جو مکالمے وقوع پذیر ہوئے ہیں ان پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً قرآن کریم اور بین المذاہب مکالمہ، رسول کریم اور عتبہ بن ربیعہ کا مکالمہ، رسول کریم اور یہودی علماء کا مکالمہ، رسول کریم اور عیسائی وفد کا مکالمہ، جعفر طیار اور نجاشی کا مکالمہ، مصعب بن عمیر اور اسید بن حضیر کا مکالمہ، حاطب اور شاہ مصر کا مکالمہ، زہرہ اور رستم کا مکالمہ وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے باب میں مسلم سلاطین کے دور حکومت میں تقابل ادیان پر جو خدمات انجام دی گئی ہیں ان پر محققانہ گفتگو کی گئی ہے۔ مثلآ ہندوستان میں بین المذاہب مکالمہ، سندھ میں مسلم بودھ مکالمہ، اکبر کے عہد میں بین المذاہب مکالمہ، جہانگیر کے عہد میں بین المذاہب مکالمہ، انگریزوں کے عہد میں بین المذاہب مکالمہ، سر سید احمد خان اور لائف آف محمد کا جواب، جیسے اہم اور ناگزیر مباحث شامل ہیں۔ تیسرا باب البیرونی کی متداول کتاب تحقیق ماللہند پر مشتمل ہے۔ اس میں البیرونی کی کتاب کا تعارف اور اس کے ضروری گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چوتھا باب ابن حزم ظاہری کی کتاب "الفصل فی الملل والا ھوا ء والنحل” پر مشتمل ہے۔ اس کے اندر بھی کتاب کا مکمل تعارف کرانے کے بعد، مجوسی، صابی، مانی، برہمن، یہودی، عیسائی وغیرہ کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ پانچواں باب، شہرستانی کی کتاب "الملل والنحل” پر مشتمل ہے اس باب میں یہودی مذہب، عیسائی مذہب، ثنوی مذہب، صابی مذہب، فلاسفہ کے عقائد اور ہندو مذہب کی بابت تفصیلات کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹا باب، علامہ ابن تیمیہ کی کتاب” الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح” پر مشتمل ہے۔ اس باب میں الجواب الصحیح کی اہمیت، عیسائی پادری کا محاسبہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تمام انسانوں کے لیے، موجودہ عیسائی مذہب، تثلیث و اتحاد کی تردید، توریت وانجیل مستند نہیں ہے، اقانیم ثلاثہ کی تردید، عیسائیت میں گمراہی کی ابتداء، تجسیم و حلول کا عقیدہ،طکیا شریعت صرف دو ہیں، توریت وانجیل میں نبوت محمدی کی بشارت، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ ساتواں باب، ابن قیم کی کتاب "ھدایة الحیاری فی اجوبة الیھود والنصاری” پر ہے۔ اس باب میں بعثت کے وقت دنیا کے مذاہب، دین میں جبر نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی علامات اور علماء یہود، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے والے عیسائی سردار ،فارقلیط کون ہے، توریت و انجیل میں کتمان، عیسائی کونسل، توریت میں تحریف جیسے نکات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ آ ٹھویں باب ، مغل حکمراں شاہجہاں کے دور میں لکھی گئی کتاب دبستان مذاہب پر ہے اس باب میں الہامی اور غیر الہامی مذاہب پر گفتگو کی گئی ہے۔ نواں باب، سر سید کی تفسیر توریت ،”تبیین الکلام فی تفسیر التوراة والانجیل علی ملة الاسلام "پر ہے۔ اس باب میں تبیین الکلام کی وجہ تالیف، بائبل میں تحریف کا مسئلہ، بائبل میں اختلاف عبارت، کتب مقدسہ کے ترجمے کے مسائل، ناسخ ومنسوخ کی بحث جیسے بنیادی مباحث شامل ہیں۔ دسواں باب مولانا عنایت رسول چریا کوٹی کی تفسیر توریت، "بشری” کے نام پر مشتمل ہے، اس باب کے بھی عناوین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی کتاب "مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت ” کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا ہر باب نہایت جامع اور علمی و تحقیقی نکات سے مملو ہے۔
زبان سادہ اور سلیس ہے گنجلک اور پیچیدہ عبارتوں کے استعمال سے کلی طور پر اجتناب کیا گیا ہے۔ مصنف کی کوشش یہ رہی کہ اس کتاب کو بڑی آسانی سے اردو داں طبقہ، سامی اور غیر سامی ادیان کے متعلق خاصی شد بد پیدا کرسکتا ہے۔ کتاب پر انتہائی فاضلانہ اور محققانہ مقدمہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر اشتیاق ظلی کا ہے، جبکہ پیش لفظ خود مصنف نے تحریر کیا ہے۔
سببِ تالیف
صاحب کتاب پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی،
کتاب کے پیش لفظ میں سبب تالیف پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: "ایک عرصے سے مجھے یہ خیال آ رہا تھا کہ دوسرے مذاہب کے مطالعہ کی جو تحریک قرآن سے مسلمانوں کو ملی اور رسول پاک نے جس طرح دوسرے مذاہب کے علماء سے مکالمہ کیا ،سلف صالحین نے جس محنت سے دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا اور ان کے پیشواوں سے مکالمہ اور مناظرہ کیا نیز دوسرے مذاہب پر جو تحقیقی کتابیں لکھیں ان کا تعارف اور تجزیہ کیا جائے۔ عصر حاضر میں اس مطالعہ کی اہمیت یوں بڑھ گئی ہے کہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں بھی مذاہب کے مطالعہ اور مذاہب کے درمیان افہام وتفہیم کے شعبے کھل گئے ہیں اور مسلم دنیا میں بھی اس کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حالانکہ مغربی ممالک نے مذاہب کا مطالعہ انیسویں صدی سے کرنا شروع کیا ہے۔ اور مکالمے کی ابتدا بھی سیریا کے شہر "حمدون” سے ہوئی ہے جس میں عیسائیوں کے مختلف اور متحارب فرقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مکالمہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ پھر اسے دوسرے مذاہب تک پھیلایا گیا جبکہ مسلمانوں نے بہت پہلے بین المذاہب مطالعہ اور مکالمہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ مسلم بادشاہوں نے اپنے یہاں دوسرے ادیان ومذاہب کے رہنماوں کو آنے کی دعوت دی اور اپنے مذہب کا تعارف کرانے کی پیش کش کی۔ اس سلسلہ میں عباسی خلفاء اور ہندوستان کے مغل حکمراں بہت مشہور ہیں۔ لہذا مطالعہ مذاہب مسلمانوں کی قدیم روایت ہے، مغرب کی ایجاد نہیں۔ البتہ مغرب نے مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق ضرور یاد دلایا ہے۔ اسی احساس کے پیش نظر یہ کتاب لکھی گئی ہے”
مذکورہ اقتباس کے تناظر میں یہ بڑے وثوق واعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ مکالمہ کو مغرب کی ایجاد قرار دیتے ہیں ان کا نظریہ درست نہیں ہے ۔بلکہ ہمارے اکابر نے اس باب میں بیش بہا تحقیقی وعلمی سرمایہ چھوڑا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ وتہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم مفکرین نے تقابل ادیان پر جو کام کیا ہے وہ ہر دور اور ہر زمانہ میں جلی حروف سے ثبت کیا جائے گا۔
کتاب پر مفکرین کی آراء
پروفیسر اشتیاق ظلی نے موجودہ دور میں فاضل مصنف کی کتاب کی افادیت واہمیت کو انتہائی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے ،اسی کے ساتھ اس مختصر مگر اہم مقدمہ میں تقابل ادیان اور مطالعہ ادیان کی ہندوستان میں تاریخ اور اس سلسلے میں مسلم اسکالرس کی کاوشوں کا بھی مختصراً تعارف کرایا ہے۔ ادھر تکثیری سماج میں بقائے باہم اور پر امن رہنے کے اسلوب وآداب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ نیز انہوں نے بتایا ہے کہ اس وقت ہم ایک مخلوط اور رنگا رنگی ،تعدد پسند معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لہذا امت مسلمہ کو ایسا کردار ادا کرنا ہے کہ جس سے کسی بھی نظریہ اور فکر وخیال کا حامل اپنی زبان پر حرف شکایت نہ لا سکے۔ مطالعہ ادیان اور تقابل ادیان کی روایت کو فروغ دینے سے جہاں علمی وفکری، جہات روشن وتابناک ہوتی ہیں وہیں تکثیری سماج میں باہم مل جل کر گزر بسر کرنے کی بھی جڑیں مستحکم ہوتی ہیں۔ چنانچہ پروفیسر اشتیاق ظلی رقم طراز ہیں۔ "آج کی دنیا میں جو ایک گلوبل ولیج کی صورت اختیار کر چکی ہے جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار تکثیری معاشروں میں زندگی گزار رہے ہیں، باہمی مفاہمت اور رواداری کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے مذاہب کے بارے میں صحیح اور قابل اعتماد معلومات حاصل کی جائیں۔ اس کے بغیر نہ تو پرامن بقائے باہم کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی نوعیت کے مکالمہ کے لیے کوئی گنجائش” یعنی معاشرے میں امن وامان کے قیام اور ظلم وجور کے خاتمہ کے لیے لازمی ہے کہ تقابل ادیان اور مطالعہ ادیان کی روایت کو فروغ دیا جائے۔ اسی طرح آ گے لکھتے ہیں "مطالعہ مذاہب کے باب میں مسلمانوں کی اس نہایت قدیم اور تابناک روایت سے آج بالعموم خود مسلمان بھی زیادہ واقف نہیں ہیں۔ غیر مسلم علمی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے مطالعہ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ چنانچہ اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ اس موضوع پر مسلمان علماء نے جو عظیم الشان لٹریچر یادگار چھوڑا ہے اس سے واقفیت کے وسائل فراہم کیے جائیں۔ ہم پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بڑی عرق ریزی اور دقت نظر سے اس خلا کو پر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ دوسرے مذاہب کے مطالعہ کے موضوع پر مسلمانوں نے جو غیر معمولی نوعیت کا کام کیا ہے وہ پوری طرح سامنے آ جائے گا بلکہ مسلمانوں کے درمیان اس میدان میں مزید کام کرنے کی ضرورت کا احساس بھی پیدا ہوگا۔ شائقین کی خدمت میں ہم اس کتاب کو پیش کرتے ہوئے بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں”
پروفیسر اشتیاق ظلی کے اس اقتباس سے کتاب کی عظمت واہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب کتاب کے بعض ضروری مباحث پر گفتگو کی جائے گی۔
قرآن وسنت میں مطالعہ ادیان کا ثبوت
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی تحریر کرتے ہیں "اس دنیا میں عقیدہ وتہذیب کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے، فکر و خیال کا تنوع بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہاں عقیدہ وعمل اور فکر ونظر کا اختلاف ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسے کسی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے زندہ مذاہب میں اسلام آخری مذہب ہے جو تہذیب وعقیدہ کے اس اختلاف کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ منشائے الٰہی سمجھتا ہے”۔ اپنے اس مثبت اور تعمیری نظریہ کی تائید میں مصنف نے قرآن حکیم کی درج ذیل آیات سے استدلال کیا ہے۔ سورہ ہود آیت 118، سورہ انعام آیت108، سورہ یونس آیت 99، سورہ النحل آیت 125، سورہ آل عمران ایت 64، سورہ العنکبوت ایت46 سورہ بقرہ آیت 258۔مذکورہ تمام آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ دوسرے مذاہب کا نہ صرف احترام کیا جائے بلکہ ان کے ماننے والوں کو ان کے عقیدہ ومذہب اور رسم ورواج کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔ اسلام نے جو تہذیب امت مسلمہ کو سکھائی ہے اور جن ہدایات وخطوط پر رہنمائی کی ان میں دیگر ادیان کی عظمت اور ان کے وجود وبقا کو تسلیم کرنا دین اسلام کی بنیادی تعلمیات میں سے ہیں۔ اسی طرح سیرت رسول سے مطالعہ ادیان کے ٹھوس شواہد ملتے ہیں۔ صاحب کتاب نے مطالعہ ادیان کے ثبوت میں قرآن کریم کی متعدد آیات سے استدلال کیا ہے۔ یہ بات بالائی سطروں میں آ چکی ہے کہ تقابل ادیان یا مطالعہ ادیان کے ثبوت وشواہد عہد رسالت میں بھی جا بجا ملتے ہیں۔ چنانچہ فاضل مصنف کتاب کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں۔ "محمد صلی وسلم نے جب مکے کے مشرکوں کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کی تو مشرکوں نے محمد صلی وسلم کی دعوت کی مخالفت کی، ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ستایا مارا پیٹا قید کیا اور ہر طرح کی اذیت پہنچائی۔ تب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو افریقہ کے ملک حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ وہاں انصاف پسند بادشاہ نجاشی حکومت کرتا تھا۔ بادشاہ اور وہاں کے باشندے عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے اس لیے ہجرت کرنے سے پہلے قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کے نام سے پوری ایک سورہ مریم نازل ہوئی۔اس میں حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ اور ان کے پیغام کا حقیقی تعارف کرایا گیا تھا تاکہ مسلمان اس مذہب کی حقیقی تعلیمات سے واقفیت ہو جائیں، جس کے ماننے والوں کے درمیان ان کو جا کر رہنا ہے۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تو وہاں یہودیوں کے مختلف قبیلے آباد تھے جیسے بنوقریظہ، بنونضیر بنو قینقاع وغیرہ۔ یہ یہودی قبیلے توریت کے ماننے والے اور حضرت موسی علیہ السلام کا اتباع کرنے والے تھے۔ آپ نے ان کے مذہب کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے معاہدہ کیا۔ ان کو انصاف فراہم کیا اور پرامن بقائے باہمی کی شروعات کی۔ تاریخ میں یہ معاہدہ میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے”۔ اس اقتباس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عہد رسالت میں مکالمہ اور تقابل ادیان کی درخشاں روایات ملتی ہیں جو اس بات پر شاہد ہیں کہ معاشرے کو پرامن بنانے کے لیے دیگر مذاہب وادیان کا مطالعہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں بقائے باہم کی خوشگوار راہ ہموار ہو سکے۔ اس کے علاوہ بھی مصنف نے کئی اہم ایسے مکالموں کا تذکرہ کیا ہے جن میں بذات خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی ہے تھی۔
تکثیری سماج میں مطالعہ ادیان کی ضرورت
"ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد صحابہ کرام اور تابعین کے عہد میں شروع ہوئی۔ جنوبی ہندوستان کے ساحلی علاقوں پر ان کی بستیاں آباد ہوئیں۔ یہ لوگ سادہ مزاج تاجر تھے اور دعوتی جذبہ رکھتے تھے۔ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی وسط ایشیا بالخصوص ترکی وایران کے علماء اور مشائخ بھی آئے۔ یہاں انہوں نے اپنی حکومت بھی قائم کی اور اپنے مذہب وثقافت کی اشاعت بھی کی۔ ہندوستان میں جو مذاہب پہلے سے موجود تھے ان میں بودھ مت اور ہندو مت خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مگر یہ دونوں مذاہب نسلی مذاہب تھے، دعوتی نہیں تھے۔ بالخصوص ہندو مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب سے مکالمے و مباحثے سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ ان کا مذہب برہمنوں میں محصور تھا۔ مذہب کے عقائد ورسوم پر ان کی اجارہ داری تھی۔ ہندوستانی سماج کے دیگر طبقات کو مذہبی اصول واحکام سے واقف کرانے کے یہ لوگ روادار نہ تھے۔ دوسری قوموں کو اپنی طرف بلانا ان سے مکالمہ کرنا ان کے نزدیک درست نہ تھا۔ مزید یہ کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو وہ ناپاک تصور کرتے تھے اور ان سے دور رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ اس لیے ابتدائی مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوستان میں خاص طور پر عہد سلطنت میں بین المذاہب مکالمہ کی مثالیں کم ملتی ہیں”۔ اس کے بعد ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں تقابل ادیان کی کافی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں۔ حتی کہ مغل حکمراں باضابطہ مکالموں کی محفلوں کو آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سر پرستی بھی کرتے تھے جن میں جہانگیر، اکبر وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج ایک طبقہ مغل بادشاہوں کی مذہبی رواداری اور وسیع المشربی پر سوال کھڑا کرتا ہے جو یقیناً تعصب وجانبداری پر مبنی ہے اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کی سماجی ہم آہنگی میں مغل حکمرانوں کی جو بے لوث خدمات ہیں ان سے ملک میں کثرت میں وحدت کا تصور مضبوط ہوا ہے۔
ہندو مت میں تصورِ خدا
یہ سچ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب ونظریہ میں خدا کا تصور پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندو ازم میں بھی خدا کے حوالے سے ایک جامع تصور پایا جاتا ہے جو ان کے متون میں بھی درج ہے۔ فاضل مصنف نے البیرونی کی کتاب تحقیق ماللہند کے حوالے سے لکھا ہے۔
"اللہ پاک کی شان میں ہندووں کا اعتقاد یہ کہ خدا ازلی ہے جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہاء، اپنے فعل میں مختار ہے، قادر ہے، حکیم ہے، زندہ ہے، زندہ کرنے والا ہے، صاحب تدبیر ہے، باقی رکھنے والا ہے، اپنی بادشاہت میں اکیلا ہے، جس کا کوئی مقابل اور مماثل نہیں ہے۔ نہ وہ کسی چیز سے مشابہ ہے اور نہ کوئی چیز اس سے مشابہت رکھتی ہے”۔ اس اقتباس کو بیان کرنے کے بعد فاضل مصنف لکھتے ہیں "البیرونی نے اپنے اس بیان کے ثبوت میں ایک طویل مکالمہ سنسکرت زبان کی کتاب پاتنجلی سے نقل کیا ہے اور دوسرا اقتباس گیتا سے نقل کیا ہے۔ تیسرا اقتباس سانک نامی کتاب سے پیش کیا ہے۔ خواص کے عقائد کے بر خلاف ہندو عوام کے اعتقادات توہمات اصنام پرستی اور مظاہر پرستی پر مبنی ہیں”۔ گویا ہندو مذہب کے متون مقدسہ میں توحید کی تعلمیات ملتی ہیں۔ ہندو ازم اور اسلام میں توحید کے سلسلے میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ البتہ توحید کا جو تصور ہندو ازم میں پایا جاتا اب اس کی صورت مخدوش کردی گئی ہے اور تینتیس کروڑ دیوتاووں کی پرستش کی جاتی ہے جو افسوسناک ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہندو دھرم میں بت پرستی کہاں سے آئی؟ اس سلسلے میں پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے لکھا ہے۔”برہما کا ایک بیٹا تھا جس کا نام نارد تھا۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ اپنے رب کو دیکھے۔ وہ راہ چلنے کے لیے ہمیشہ ایک لاٹھی اپنے پاس رکھتا تھا۔ جب وہ اس لاٹھی کو زمین پر پٹکتا تھا تو وہ سانپ بن جاتی تھی۔ وہ اس سے عجیب وغریب کام لیتا اور کبھی اسے جدا نہیں کرتا تھا۔ایک دن وہ رب کے دھیان میں تھا کہ دور اسے روشنی دکھائی دی۔ وہ روشنی کی طرف گیا۔روشنی سے آواز آئی کہ تو جو چیز مانگتا ہے اور جس چیز کی تمنا رکھتا ہے وہ محال ہے۔تیرے لیے ممکن نہیں کہ تو اس طریقہ کے سوا اور طریقہ سے دیکھے۔ نارد نے نظر اٹھائی تو انسان کی شکل وصورت کا ایک نورانی شخص کھڑا تھا۔ اس وقت سے صورتوں کے بت بنائے جانے لگے۔
چنانچہ اب اس دھرم کی حقیقی صورت وتعلیمات توہمات وخیالات اور نت نئے افکار ونظریات میں گرد آلود ہوچکی ہیں۔ بلکہ ظلم بالائے ظلم یہ کہ ایک مخصوص طبقہ اب ہندو دھرم کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھا ہے۔ اس لیے ہندو عوام کو سوچنا ہوگا اور یہ طے کرنا ہوگا کہ مذہب کے نام پر جو طبقہ عوام کا استحصال کر رہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ اس لیے پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی کتاب "مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت” کی موجودہ زمانہ میں افادیت واہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ادیان ومذاہب کے جہاں بہت سارے جدید گوشوں کا انکشاف ہوگا وہیں ہندوستان کے تکثیری معاشرہ میں امن وامان اور روداری کی پرکیف فضا بھی ہموار ہوگی۔ تکثیری سماج کی اصل روح بھی تحمل وبرداشت اور سماجی ہم آہنگی ہے۔ جب تک سماج میں نوع انسانیت صلح وآشتی اور حلم وبردباری کے زیور سے آراستہ نہیں ہوتی ہے اس وقت تک کوئی بھی تکثیری یا مخلوط سماج فلاح وسعادت کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ اسی کے ساتھ اس کتاب سے اس بات کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ جامعات میں تقابل ادیان پر کام کرنے والے محققین کے پاس اردو زبان میں ابھی تک کوئی بھی اس نوعیت کا سرمایہ نہیں تھا۔ اس لیے یہ کتاب محققین کے لیے نعمت غیر مترقبہ کے مترادف ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی اس کتاب سے صاف ہوگئی کہ جو لوگ ابھی تک مسلم کمیونٹی پر یہ الزام عائد کرتے تھے کہ مسلم مفکرین نے دیگر مذاہب کی بابت کوئی خاص اور وقیع کام نہیں کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت وترویج نے اس اعتراض کو بھی یکسر معدوم کر دیا۔ لہذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے لٹریچر کو پڑھ کر اور اس کی ترویج اشاعت کرکے معاشرہ میں سکون و چین اور عدل وانصاف کے قیام کے تئیں سعی کی جائے۔ تاکہ تکثیری سماج کی روحانیت باقی رہے اور ایسے معاشروں میں سکونت پذیر عوام مسرت وشادمانی اور امن ویکجہتی کے ساتھ گزر بسر کرسکیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل دیگر مذاہب وادیان سے وابستگی پیدا کرے کیونکہ ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ لاعلمی اور عدم واقفیت کی بناء پر دیگر مذاہب کے تعلق سے بہت ساری غلط فہمی پالے ہوئے ہے۔ یہ غلط فہمیاں اسی وقت دور ہوسکتی ہیں جب نوجوان نسل دیگر مذاہب کو جاننے کی کامیاب سعی کرے۔ چنانچہ اس کتاب کا تابناک پہلو بھی اس بات کی تحریک دیتا ہے کہ نئی نسل اگر معاشرے میں پر امن وپرسکون ماحول کی خواہش مند ہے تو یقیناً انہیں دیگر مذاہب و ادیان کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق وتفتیش کا عمل بھی تعصب وتنگ نظری کی عینک ہٹا کر انجام دینا ہوگا۔ اسی کے ساتھ اس بات کا بھی نوجوان نسل پاس ولحاظ رکھے کہ کسی بھی دین یا مذہب کو تنقید وتنقیص کا نشانہ بنانے سے قبل مناسب ہے کہ اس کے بارے میں مستند ومعتبر مآخذ کے ذریعے اپنی معلومات کو درست کرلیا جائے۔ جب نوجوان نسل تحقیقی مزاج بن جائے گا تو یقیناً کسی بھی تکثیری سماج میں امن وسکون قائم ہوگا۔ نیز محبت وانسیت تحمل وبرداشت اور بقائے باہم کی بوسیدہ ہوتی تہذیب کو نئے سرے سے تازگی وجلا ملے گی۔ آج کے معاشرے کی بنیادی ضرورت بھی یہی ہے کہ اپنے اپنے اعتقاد ودین پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کی پر کیف فضا کے فروغ کے تئیں کاوش کی جائے ۔

***


اسی کے ساتھ اس بات کا بھی نوجوان نسل پاس ولحاظ رکھے کہ کسی بھی دین یا مذہب کو تنقید و تنقیص کا نشانہ بنانے سے قبل مناسب ہے کہ اس کے بارے میں مستند و معتبر مآخذ کے ذریعے اپنی معلومات کو درست کرلیا جائے۔ جب نوجوان نسل کا تحقیقی مزاج بن جائے گا تو یقیناً کسی بھی تکثیری سماج میں امن و سکون قائم ہوگا۔ نیز محبت وانسیت تحمل وبرداشت اور بقائے باہم کی بوسیدہ ہوتی تہذیب کو نئے سرے سے تازگی وجلا ملے گی۔