دنیا ایک نئے انقلاب کے دہانے پر
(جمہوریتوں کا ایک جائزہ ہندوستانی جمہوریت کے خصوصی حوالے سے)
پروفیسر احمد سجاد، رانچی
مورخین کا اس امر پر کم وبیش اتفاق ہے کہ کسی ملک یا قوم کی جب اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی انتشار وبحران کا شکار ہو جاتی ہے تو کسی نہ کسی نوعیت کا انقلاب ضرور برپا ہو جاتا ہے۔ یہی قانونِ فطرت بھی ہے کہ رات کی تاریکیاں جب انتہا پر پہنچتی ہیں تو صبح کی کرنوں کے ظہور کے ساتھ ہی کافور ہو جاتی ہیں۔
اس وقت دنیا اونٹ کی مانند ہو گئی ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ غریب اور پسماندہ ملکوں کا ذکر ہی کیا ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والے ملکوں کا حال دیکھ لیجیے۔ وہاں کی اخلاقی صورت حال یہ ہے کہ خاندانی زندگی کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے۔ جنسی انارکی اور ہم جنسی کو قانونی حق دے دیا گیا ہے۔ سنگل مدرز کا چلن بڑھتا جا رہا ہے کسی بچے کے باپ کا نام معلوم کرنا معیوب سمجھا جانے لگا ہے حد یہ ہے کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادیاں رچا رہی ہیں۔ انفسی فساد کے علاوہ آفاقی آفات کی بوچھاڑ الگ ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہر تازہ ہوا اور صاف پانی کی قلت سے دوچار ہیں۔ نت نئے لا علاج امراض کی بہتات ہے۔ جو ملک جتنا بڑا اور طاقتور ہے وہ اتنا ہی بڑا ظالم وجابر ہے۔ پچھلی صدی تک برطانیہ کے بعد فرانس اور جرمن نے دنیا کا بندر بانٹ کر کے بیشتر ممالک کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ دنیا دو عالمی جنگوں میں کروڑہا انسانوں کے قتل اور اربوں انسانوں کو زخمی کر کے بھی پر سکون نہیں ہو سکی۔ اس لیے پچھلی صدی کا نصف آخر سرد جنگ کا شکار رہا۔ آج بھی امریکہ اور روس نے عراق، شام، افغانستان اور کئی ملکوں کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہر انتشار وبحران کے بعد انسانی زندگی قدم بقدم اکرامِ انسانیت کی طرف بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ زمانہ قدیم کے حکم راں مثلاً فراعنہ وغیرہ خدائی دعویدار تھے اس کے بعد شہنشاہوں نے خود کے ظل الٰہی ہونے کا اعلان کر دیا۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام آیا جس کے بطن سے اشتراکی نظام پیدا ہوا۔ اب بیشتر ممالک میں مختلف قسم کی جمہوریتوں کا بول بالا ہے جس میں ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ عالمی سطح پر لیگ آف نیشن کے بعد اقوام متحدہ، سارک، او آئی سی اور دوسرے چھوٹے بڑے اداروں WHO, WTO, UNESCO وغیرہ کا ایک جال سا بچھ گیا ہے جس کے بل پر بڑی طاقتوں نے چھوٹے ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت امیروں کو امیر ترین اور غریبوں کو بد ترین بناتی جا رہی ہے۔ جنگی اسلحوں سے لیس ہو کر بھی کسی ملک کو اطمینان نہیں۔ جوہری بموں کا ذخیرہ بڑھتا جا رہا ہے گویا پوری دنیا اس وقت بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہوئی ہے۔آج جس جمہوریت کے گن گائے جا رہے ہیں اس کی حقیقت اہل نظر نے اول روز ہی بتا دی تھی کہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
نیز
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
المیہ یہ ہے کہ صدیوں کی قتل وغارت گری ولوٹ کھسوٹ کے بعد بھی انسانی فکر وعمل نے اپنی سیاسی زندگی کی معراج اسی جمہوریت کو قرار دے کر یہ باور کر لیا ہے کہ اس کے چاروں ستون منتظمہ، عدلیہ، مقننہ اور میڈیا خود مختار ہو کر ایک خیالی جنت کی تعمیر و تشکیل کر لیں گے۔ چنانچہ مشرق وسطیٰ میں شیخڈم، کنگڈم اور ڈکٹیٹر شپ کے بیچ میں ایک نام نہاد آئیڈیل جمہوری ملک کی حیثیت سے اسرائیل کو پروجکٹ کیا گیا جس نے پچھلے ستر سالوں میں فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی، ان کے ساتھ بربریت، ان کو محصور ومجبور کرنے، ان کو زندہ رہنے کی بنیادی ضرورتوں تک سے محروم کرنے کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے اس نے فراعنہ مصر کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اس نے عالمی اداروں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی لا تعداد تجویزوں اور فیصلوں کی جس بے حیائی سے دھجیاں اڑائی ہیں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ اس کے حکم رانوں نے دہشت گردی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان پر کرپشن کے مقدمات مسلسل ہوتے رہے۔ موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو بدنظمی وبدکاری کی وجہ سے ایک سال میں تین تین بار الیکشن کرانا پڑا۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ چوتھی بار بھی اس کی نوبت آ سکتی ہے۔
دوسری مثال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی ہے جسے ’’وشوگرو‘‘ بننے کی تمنا ہے۔ اور اس آرزو کی تکمیل کے لیے اس نے جمہوریت کے چاروں ستونوں کو جس طرح مسمار کر کے ملبے میں تبدیل کر دیا ہے اسے دیکھ کر پورے ملک ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ماتم بپا ہے۔ آئیے علیٰحدہ علیٰحدہ اس خیالی جنت، جمہوریت کے چاروں ستونوں کا مختصراً جائزہ لے لیا جائے:
منتظمہ (Executive )
تقریباً سو سالہ منصوبہ بندی، گروہ بندی اور من مانی تاریخ سازی کے بعد جب سے مرکزی اور بعض ریاستی حکومتوں پر شب خون مار کے قبضہ کیا گیا ہے تب سے اس ۷۰؍ سالہ جمہوری ملک کا پورا نظم وانصرام تہہ وبالا ہو کر رہ گیا ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، ہجومی قتل (Lynching)، لو جہاد، کسانوں کی خود کشی، گھر واپسی، منافع بخش آمدنی کے وسائل کی فروخت، مہنگائی، کساد بازاری، بے روزگاری، غنڈہ گردی، بعض مجرموں کو کلین چٹ، بے قصور مخالفوں کو قید وبند، پرسنل لا میں دخل اندازی، طلاق ثلاثہ، کشمیر کے لیے دستوری دفعہ 370 کا تعطل، افسران بالا کا بد نیتی سے تبادلہ، بینکوں پر دست درازی، آر ٹی آئی کی کمزوری، JNU ،AMU، جامعہ ملیہ وغیرہ کے بعد آسام کا این آر سی کے بعد سی اے اے اور اب این پی آر کی دھمکی وغیرہ نے ثابت کر دیا ہے کہ ’’انتظامیہ نے عدلیہ سے تال میل‘‘ قائم کرنے میں کس قدر کامیابی حاصل کرلی ہے۔’’دہلی پولیس فرقہ پرست ہے۔ حکم راں جماعت کی جانب دار پولیس کی کارروائیوں میں اس کا پورا عکس دیکھا جا سکتا ہے ”Police Response invariably reflects lines of the ruling party”یہ جملے، دہلی پولیس کے بہت اچھے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے پولیس افسر مسٹر پرکاش کے ہیں جن کا مضمون انڈین ایکسپریس مورخہ ۲۶؍ فروری انڈین اکسپریس میں شائع ہوا۔ ان کا مزید یہ کہنا ہے کہ ’’سب کچھ اچھا نہیں ہے‘‘(All is not well ) بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ انہوں نے ۲۳؍ فروری ۲۰ء کو حیدر آباد میں شہریت ترمیمی قانون (CAA ) کے خلاف اور موافقت کے تصادم پر بھی کہا کہ فسادیوں کو روکنے کے بجائے پولیس الٹا انہیں فساد پر اکساتی رہی۔ انہوں نے اسے ایک غم ناک حادثہ قرار دیا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۱۹۸۴ء میں جو کچھ ہوا اس سے سبق نہیں لیا گیا۔ نیشنل پولیس کمیشن کی سفارشات پر سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ برطانوی نو آبادی کی طرح پولیس کو حکومت نے اپنا نوکر اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کا ایک ہتھیار بنا لیا ہے۔ چنانچہ دہلی حکومت کی مجرمانہ غفلت اور حکم راں جماعت کا مجرموں کی طرفداری سے زبردست فساد پھوٹ پڑا۔ ۵۳ آدمی مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ایک اردو اخبار نے مورخہ ۸؍ مارچ ۲۰ء کے اپنے اداریے کا یہ عنوان بنایا ’’دہلی فساد یا گجرات ماڈل پر مسلم نسل کشی‘‘۔ نریندر مودی نے جو گجرات میں کیا وہی امیت شاہ نے دہلی میں کیا۔ اسی لیے سابق آئی پی ایس ہرش مندر کا کہنا ہے کہ ’’دنگے ہوتے نہیں بلکہ کروائے جاتے ہیں‘‘۔ اسی لیے حزب اختلاف نے ان سے استعفیٰ دینے پر زور دیا تو اسے کسی طرح بھی غلط نہیں کہا جا سکتا۔
مودی جی کے چہیتے وزیر اعلیٰ یو پی، آدتیہ ناتھ یوگی نے اپنے صوبے میں گجرات ماڈل کو بڑی مہارت سے عملی جامہ پہنایا، اعلانیہ انتقامی کارروائی کی دھمکی کو عملاً انجام دیا۔ کئی شہروں میں گولیاں چلوا کر بے قصوروں کا قتل کیا۔ اعظم خاں کے پورے خاندان ہی کو نہیں ان کی قائم کردہ محمد علی جوہر یونیورسٹی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ ریاست کے درجنوں معزز مسلمانوں کی شخصی معلومات کے ساتھ لکھنؤ کی سڑکوں پر ان کی تصاویر کے ساتھ بینرز لگا کر ان کی جان کو خطرے میں ڈال دیا اور انہیں قانون شہریت کے خلاف مظاہروں کا سبب بتایا۔ ان میں سابق آئی پی ایس آفیسر ایس آر دارا پوری، جہد کار صدف جعفر اور دیپک کبیر بھی نامزد ہیں۔ ۸۰ سالہ شعیب بھی وکیل برادری کا نمائندہ چہرہ ہیں۔ ان تمام ۵۰؍ افراد پر ان کی تصاویر پر نام، گھر کا پتہ، والد کا نام تحریر ہے۔ اور یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان تمام افراد نے دسمبر ۲۰۱۹ء میں احتجاجوں کے دوران عوامی املاک کو نقصان پہنچایا جس کا ہرجانہ انہی سے وصول کیا جائے گا۔ ۷۶ سالہ دارا پوری کبھی لکھنؤ کے ڈی آئی جی تھے ان پر ۶۵ لاکھ روپے کا ہرجانہ عائد کیا گیا ہے۔ اس دھاندلی کے خلاف ان معتوبوں کے لیے ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور فیصلہ دیا کہ کسی بھی اتھارٹی کو کسی کی بھی پرسنل انفارمیشن شائع کرنے کا حق نہیں ہے سوائے انصاف سے بھاگنے والے مجرموں کے۔ مگر انتہائی بے حیائی کے ساتھ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اس پر ایک اردو اخبار میں مشہور ٹی وی اینکر رویش کمار کا ایک مفصل مضمون مورخہ ۱۸؍ مارچ کو اس عنوان کے ساتھ شائع کیا ہے:’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ لکھنؤ بینرز پر عدالتی حکم کے بعد حکومت کی ہٹ دھرمی‘‘۔۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ سرکاری انتظامیہ کو یقین ہے کہ ہر عدالت اس کی ہر نازیبا وناروا حرکت کا ساتھ دے گی اور تائید کرے گی۔ ان کا ایسا سمجھنا غیر فطری نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے رافیل جنگی جہاز کی خریداری اور اجودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے قضیے اور تین طلاق کے معاملے میں سپریم کورٹ کا جو رویہ رہا وہ جگ ظاہر ہے جس کے انعام کے طور پر سابق جج سپریم کورٹ رنجن گگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت کا تحفہ پیش کیا گیا۔ جس کی ہر حلقہ کے معززین نے مخالفت کی مگر جج صاحب نے پوری دل جمعی کے ساتھ اسے قبول کیا۔ اس پر مختلف ماہرین قانون کی رائیں ملاحظہ ہوں:سپریم کورٹ کے وکیل گوتم بھاٹیہ کا ٹویٹ ہے: ’’اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ آزاد عدلیہ کی آفیشیل موت ہوگئی‘‘۔
سپریم کورٹ کے مشہور سینئر وکیل سنجے ریٹائرڈ نے کہا ہے کہ ’’رنجن گوگوئی نے نہ صرف اپنے عدالتی ریکارڈ کو شک کے دائرے میں ڈال دیا ہے بلکہ جو ججز ان کے ساتھ فیصلے کے بینچ پر بیٹھے تھے ان کی آزادی اور غیر جانبداری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے‘‘۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دوشیانت دیو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ:’’جنسی زیادتی کے معاملے میں جسٹس گوگوئی کو غلط طریقے سے کلین چٹ دیا گیا تھا۔ مقدمے میں مظلوم خاتون کی طرف سے وکالت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ :’’جسٹس رنجن گوگوئی کی راجیہ سبھا کی ممبری کے لیے نامزد گی سراسر سیاسی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو کتنا نیچے گرا دیا گیا ہے۔ یہ اعلانیہ گواہی ہے اس بات کی کہ عدالت کو آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘‘
کانگریس پارٹی کے ترجمان اور ممتاز وکیل ابھیشک منو سنگھوئی کے الفاظ ہیں: ’’یہ تو ایسا ہی ہوا جیسے نیتا جی سبھاش چندر بوس نے کہا تھا کہ ’تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا‘ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ تم میرے حق میں فیصلہ دو میں راجیہ سبھا کی ایک سیٹ دوں گا‘‘۔ شکیل اختر نمائندہ بی بی سی دلی نے اپنے ایک مضمون کا عنوان ان الفاظ میں لکھا ہے:’’جسٹس گوگوئی کی راجیہ سبھا میں نامزدگی! کیا انڈیا میں عدلیہ بھی پسپا ہوگئی؟‘‘
جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا یہ حال ہے تو دیگر شیخڈم کنگڈم اور چھوٹے جمہوری ممالک کس شمار وقطار میں ہوں گے۔
عدلیہ (Judiciary )
عدلیہ جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل سمجھی جاتی ہے جو انتظامیہ اور مقننہ کے ہر خطرے کو بھانپ کے اس کا تدارک کراتی ہے کیونکہ وہ آزاد اور غیر جانبدار ہو کر آئینی وقانونی حدود میں کام کرتی ہے۔ مگر ۴؍جنوری ۱۸ء کو سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں (بشمول مسٹر رنجن گوگوئی سابق چیف جسٹس) نے ہندوستانی تاریخ میں پہلی بار پریس کانفرنس میں مختلف قسم کے دباؤ اور اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’جمہوریت خطرے میں ہے اور عدالتی نظام میں مداخلت ہو رہی ہے‘‘۔
اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا ججوں کی بینچ بناتے ہیں کچھ دنوں بعد مسٹر گوگوئی جب ایک جنسی معاملے میں پھنسے تو ان کا لہجہ بدل گیا۔ ۲۲؍ فروری ۲۰ء کو سپریم کورٹ کے جج ارون مشرا نے مودی کی تعریف میں شعرا کی قصیدہ گوئی کو مات کر دیا۔ فرمایا ’’وزیر اعظم غیر معمولی جینئس ہیں، بین الاقوامی سطح پر سوچتے ہیں اور مقامی سطح پر کام کرتے ہیں‘‘۔
جس پر بار کونسل میں مذمت کی گئی۔ جسٹس مرلی دھر کا واقعہ تو بالکل تازہ ہے کہ انہوں نے ۲۵ فروری ۲۰ء کے دہلی میں بھیانک فساد کے بعض ملزموں پر ۲۴ گھنٹوں کے اندر ایف آئی آر کرنے کا حکم دیا تو انہیں دہلی سے راتوں رات چنڈی گڑھ ہائی کورٹ تبادلے کا حکم نامہ تھما دیا جسے عدالتی تاریخ کا بڑا حادثہ کہا گیا۔ بعد میں جو دو ججز دہلی ہائیکورٹ میں لائے گئے تو انہوں نے پہلی ہی شنوائی میں حکومت کا عذر سنتے ہی چار ہفتوں کا موقع دے دیا۔ اس پر ایک سیاسی ترجمان نے کہا کہ’’حکومت کی اس کار کردگی سے پتہ چلتا ہے کہ جو کوئی انصاف کرے گا اس کو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔
ان سب کے علاوہ جسٹس لویا وغیرہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر میڈیا میں کافی بحث ہو چکی ہے۔ اور دنیا جانتی ہے کہ جمہوریت کے چار ستونوں میں سب سے ممتاز اور اہم ستون عدلیہ کو مانا جاتا ہے مگر نئی حکومت کے آتے ہی ملک بھر کے وہ مجرمین جنہوں نے گجرات سے دہلی اور لکھنؤ تک قتل عام اور نسل کشی کی تھی یکے بعد دیگرے ضمانت پر باہر آتے گئے اور پھر انہیں کلین چٹ بھی دیدی گئی مگر فرقہ وارانہ سیاست اور قتل وغارت گری کرنے والے اور امن وبھائی چارے کی فضا بنانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹر ہوں یا آئی ایس افسران اب تک عدالتوں کے جکڑ جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جس اپیل پر جسٹس مرلی دھر اور تشار مہتا جو دہلی میں سالیسٹر جنرل بھی ہیں کے درمیان جو مکالمہ ہوا اس کی تفصیل پریس میں آ چکی ہے۔ اس پر کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’حکومت کی اس کار کردگی سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی انصاف کرے گا اس کو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔ اس عدالتی کارروائی کے بعد بہتوں کو جسٹس لویا، ۱۹۸۴ء کے سکھ قتل عام، نیز فروری ۲۰۰۲ء میں گجرات کے قتل عام اور ججوں کی پریس کانفرنس کی یاد ستانے لگی۔ چنانچہ ’’عوامی نیوز‘‘ کے ایک اداریہ کا عنوان ان الفاظ میں لکھا گیا: ’’وہ فروری ۲۰۰۲ء مودی کا گجرات تھا یہ فروری ۲۰۲۰ء مودی کی دلی ہے‘‘۔
چند ہفتے قبل جسٹس ارون مشرا نے ٹیلی کام کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ ’’دیش میں کوئی قانون نہیں رہا، بہتر ہے اس ملک میں قیام نہ کریں بلکہ دیش چھوڑ دیں۔ مجھے مایوسی ہے کیونکہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ میں اس عدالت کے لیے کام نہیں کر رہا ہوں‘‘۔
یہ ایک تحقیقی معاملے کا ردعمل تھا۔ ٹیلی کام منسٹری کے ڈیسک آفیسر نے سپریم کورٹ کے آرڈر پر روک لگا دی تھی۔
پولیس عدلیہ کے ہاتھ پاؤں اور اعضائے رئیسہ کی حیثیت رکھتی ہے مگر اس نے جے ان یو، اے ایم یو، شاہین باغ کے بعد ۲۳ تا ۲۵ فروری ۲۰ء کو جعفر آباد اور سلیم پور وغیرہ میں جس درندگی اور بربریت کا یک طرفہ ثبوت دیا وہ شواہد کافی سے زیادہ ہیں۔ دہلی کی پولیس وزیر داخلہ کی ما تحت ہے وہ اسے کیا سزا کیا دلواتے الٹا انہوں نے دہلی فساد کے اصل مجرم کپل مشرا کی حفاظت کا انتظام اور بڑھا دیا۔ پولیس اور اس سے پہلے یو پی کے وزیر اعلیٰ کی دادا گیری بھی دنیا کے سامنے آ چکی ہے۔(جاری)
دوسری مثال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی ہے جسے ’’وشوگرو‘‘ بننے کی تمنا ہے۔ اور اس آرزو کی تکمیل کے لیے اس نے جمہوریت کے چاروں ستونوں کو جس طرح مسمار کر کے ملبے میں تبدیل کر دیا ہے اسے دیکھ کر پورے ملک ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ماتم بپا ہے