دلت اور آدیواسیوں کے خلاف جرائم کا بڑھتا گراف
یوپی، بہار میں سب سے زیادہ واقعات۔ پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ کی رپورٹ
پونم مشی
نئی دلی: ملک میں دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مانسون اجلاس کے دوران مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قبائلیوں اور دلتوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
لوک سبھا میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 اور 2020 کے درمیان دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف مجرمانہ معاملات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ دراصل تلنگانہ سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کومٹی ریڈی اور ٹی آر ایس کے رکن پارلیمنٹ مانے سرینواس ریڈی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے کمار مشرا نے لوک سبھا میں کچھ اعداد و شمار پیش کیے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 2018 سے 2020 کے درمیان دو سالوں میں دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف مجرمانہ معاملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں دلتوں کے خلاف 42,793 مجرمانہ معاملے درج ہوئے۔ دو سال بعد 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 50 ہزار ہو گئی ہے۔ دوسری طرف قبائلیوں کے خلاف سال 2018 میں 6,528 کیس رپورٹ ہوئے تھے جو کہ سال 2020 میں بڑھ کر 8,272 ہو گئے۔ پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 میں دلتوں کے خلاف 45,961 معاملے درج ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی قبائلیوں کے خلاف 7570 مقدمات درج کیے گئے۔
یوپی اور بہار دلتوں کے لیے غیر محفوظ
پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش اور بہار دلت مظالم میں سب سے آگے تھے۔ 2018 میں، صرف اتر پردیش میں 11,924 معاملے درج کیے گئے تھے۔ سال 2019 میں 11,829 اور سال 2020 میں بڑھ کر 12,714 ہو گئے جبکہ بہار میں سال 2018 میں 7,061 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ لیکن سال 2019 میں یہ گھٹ کر 6,544 ہوئے۔ سال 2020 میں ایک بار پھر یہ اعداد و شمار بڑھ کر 7,368 تک پہنچ گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندی پٹی میں سب سے زیادہ ظلم دلت قبائلیوں کے خلاف ہوئے ہیں۔
مدھیہ پردیش اور راجستھان میں قبائلیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
مدھیہ پردیش اور راجستھان میں قبائلیوں کے خلاف جرائم کے سب سے زیادہ کیس درج ہوئے ہیں۔ سال 2018 میں قبائلیوں کے خلاف جرائم کے 1,868 معاملے درج ہوئے جو سال 2019 میں کم ہو کر 1,845 ہو گئے تھے لیکن سال 2020 میں ایک بار بڑھ کر 2,401 ہو گئے جبکہ میں راجستھان میں 2018 میں 1,095 معاملے درج کیے گئے جو سال 2019 میں بڑھ کر 1,797 ہو گئے۔ سال 2020 میں یہ تعداد ایک بار پھر بڑھ کر 1,878 تک پہنچ گئی۔
اعلیٰ ذات کے افراد کی ایس سی کمیشن میں موجودگی
ملک میں دلت قبائلیوں کے خلاف جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر موک نائک ٹیم نے قبائلی سماجی کارکن ہنس راج مینا سے بات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کی سب سے بڑی وجہ حکومت ہے چاہے وہ ریاستی حکومت ہو یا مرکزی۔ غریبوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ سیاستدان واقعات کے بعد صرف ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔
مینا کہتی ہیں کہ ہمارے سماج کے لوگوں کے مقدمات درج ہونے کے باوجود ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کمیشن میں ہمارے سماج کے لوگوں کی عدم موجودگی ہے۔ حکومت کمیشن بناتی ہے لیکن اس میں کام کرنے والے لوگ زیادہ تر اعلیٰ ذات کے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کو انصاف ملے گا؟
دو برسوں کا سب سے دردناک واقعہ
مانسون سیشن میں دیے گئے جواب کے مطابق اتر پردیش میں دلتوں کے خلاف سب سے زیادہ مجرمانہ کیس درج ہوئے ہیں۔ سال 2020 میں ہاتھرس ریپ کا واقعہ بھی اسی دوران پیش آیا جس کے لیے متاثرہ خاندان ابھی تک انصاف کا منتظر ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ متاثرہ لڑکی کو گاؤں کے اونچی ذات کے لوگوں نے زیادتی کا نشانہ بنا کر اسے کھیت میں پھینک دیا تھا۔ یہ واقعہ شام کو پیش آیا۔ جب مقتولہ اپنی ماں کے ساتھ چارہ لینے گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد متاثرہ نو دنوں تک اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتی رہی۔ آخر کار اس نے دلی کے صفدر گنج اسپتال میں آخری سانس لی۔ حد تو اس وقت ہوئی جب مقامی انتظامیہ نے مقتول کی لاش لواحقین کو دیے بغیر ہی آدھی رات کو آخری رسومات ادا کر دیں۔ یہاں راجستھان میں جتیندر میگھوال نامی دلت نوجوان کو مونچھیں رکھنے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح جون میں مدھیہ پردیش میں ایک قبائلی خاندان کے پانچ افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022