ش م احمد
غالب ؔ نے دنیا کو بازیچہ اطفال کہا تھا کیوں کہ انہوں نے شب و روز بچوں کی دلچسپی کا تماشہ بنتا بگڑتاہوا دیکھا تھا۔ اصلاً خدائے سخن مرزا غالبؔ نے اپنے دور میں ایک زوال آمادہ تہذیب کے آخری ایام ، مغل سلطنت وسطوت کازوال ، فرنگ کی مردم آزاریاں ، سامراجی آقائیت کے تماشے بہ چشمِ عبرت دیکھ کر ان پر چوٹ کی تھی ۔ آج ہم جن صدمہ خیز حالات وکوائف سے گزررہے ہیں ،اگر غالبؔ زندہ ہوتے تو زوال ِانسانیت کے عصری وقائع پر اشک باریاں اور سینہ کوبیاں ان کو قطعی بچوں کا کھیل نظر نہ آتیں۔ آج ہندوستان کی تصویر ناقابلِ برداشت حالات وواقعات کے حوالے سے اُنیسویں صدی کے ہندوستان سے کروڑوں گنا بدتر نظر آرہی ہے ۔ یہاں کوئی ایک تماشہ ہوتا تو ایک اُچٹتی نگاہ اس پر ڈال کر آگے بڑھتے مگر حال یہ ہے کہ انسانیت پر پے در پے قیامتیں نازل ہورہی ہیں جن سے پورا ملک ایک ایسافسانہ عجائب بن چکا ہے جس کے گردشِ لیل ونہار کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، اس پل سفید،اگلے پل سیاہ ۔ آج ہم کورونا کی جو قہرسامانیاں دیکھ رہے ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بطن گیتی سے اب ہمیں فصلِ بہاراں کی کوئی امید نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ باور کر لینا چاہیے کہ ہماری سرزمین سے اب مسلسل تاسف آمیز خبریں، پریشان کن المیے، غم ناک واقعات، درد بھرے حادثات کی فصلیں ہی اُگ آئیں گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس جانب خال خال بھی توجہ مبذول نہیں کرتے کیوں کہ ؎
میں ہوں مشینی دور کا مصروف آدمی
خود سے بھی بات کرنے کی فرصت نہیں مجھے
کرونا کی عالمی وبا ’’صاعقہ بلائے آسمانی بر زمینیاں نازل شد‘‘ کا استعارہ ہے جس کے زیرسایہ سب لوگ ایک پژ مردہ زندگی گزار رہے ہیں، فکریں اورپریشانیاں خلقِ خدا کے تعاقب میں ہیں، رنج وغم کی پرچھائیاں ہر بستی ہر فرد کا مقدرہوچکی ہیں۔ بایں ہمہ بہ حیثیت انسان جب ہم اپنی ذات کے حصار سے ذرا اُوپر کر اٹھ کرگردوپیش کو دیکھتے ہیں تو بے کیف زندگی کے بہاؤ میں وقوع پذیرجگرسوز واقعات کو معمولات کی موجیں نہیں کہہ سکتے ، دل دہلانے والے حالات کو زندگی کا روزنامچہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اگر ہمارے ساتھ معاملہ اس کے اُلٹ ہو تو سمجھ لیجیے کہ شاید حکم راں ٹولے کی طرح بے ضمیری، سنگ دلی اور کور چشمی کا لا علاج روگ ہمیں بھی لگا ہے ۔ بھلے ہی ان کریہہ المنظر حالات و واقعات کومیڈیا میں کوریج نہ ملتی ہو یا زیادہ سے زیادہ دو لفظوں کی کہانی بناکر انہیں حاشیے پر پھینکاجا رہاہو ، تو بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس مغالطے میں رہیں کہ ایسی تند وتلخ خبروں کے متاثرین یا انسان دوست لوگوں کے لیے یہ آنسوؤں کا طوفان نہیں لاتے ، آہوں سسکیوں کی آندھی کا سبب نہیں بنتے ، نوحہ خوانی کا موجب نہیں ہوتے ۔ یہاں کچھ ایسی ہی چند ’’غیراہم‘‘ خبروں نے آج میرے ٹوٹے پھوٹے قلم کو اظہار کی زبان عطا کی ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک بہت ہی مایوس کن خبر پال گھر مہاراشٹر میں وقوع پذیر ہوئی۔ بتایا جاتاہے کہ پسماندہ قبائلی سماج سے تعلق رکھنے والی منگلا نامی ایک پنتالیس سالہ خاتون نے خودکشی کر لی۔ یہ انتہائی قدم منگلا نے کیوں اُٹھایا، اس بابت پولیس کہتی ہے کہ زیادہ غربت ، مالی دشواریاں ، بے روزگاری کے کچوکے ہی منگلا کے افسوس ناک خاتمے کا سبب بن گئے ۔ بے چاری کا غریب ولاچار مزدور خاوند دلیپ بے ہنگم لاک ڈاؤن کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ سے تنگ دستی ، محتاجی اور بھکمری سے دوچار تھا ، یہ ناقابل برداشت سنکٹ منگلا کے لیے اتنا جان لیواثابت ہوا کہ اس نے اپنی زندگی لینے کو درد کا درماں سمجھا اس نے خود کشی کا مصمم ارادہ کر لیا اور اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے سب سے پہلے اپنے مامتا بھرے دل سے پیار اور ترحم کے جذبات کھرچ ڈالے ، پھر اپنے ہاتھوں میں اتنی پتھر دلانہ قوت بھردی کہ اپنی لاڈلی بیٹی کا گلا دبایا، اگلا قدم اُٹھاتے ہوئے اپنی ساڑھی کو پھندا بناکر دنیا سے ہمیشہ کی چھٹی لی۔ منگلا نقالی کی گلیمرس کی دنیا میں رہنے والی کوئی فلمی ہستی نہ تھی کہ شائقین اس کی خودکشی پر زاروقطار روتے ، حتیٰ کہ پار سے سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز بھی فلمی ستارے کی خود کشی پر غم واندوہ کا غبار دل سے ہلکا کرنے میں پیش پیش ہوتیں ۔ مودی جی نے بھی فلمی اداکار کی قابل صد تاسف غیر فطری موت پر ٹویٹ کر کے تعزیت پرسی میں چند ثانیوں کی بھی تاخیر نہ کی، حالانکہ گلوان وادی میں چینی فوج کے ہاتھوں ہلاک شدہ فوجی جوانوں کو شردھانجلی دینے کے لیے انہوں نے دو دن کا وقت لیا۔ بہر صورت غربت وافلاس کی ماری بھکمری کی شکار منگلا اتنی خوش نصیب نہ تھی کہ اُس کی آتم ہتھیا حاکمانِ باکمال ،فلمی دنیا، عوام الناس، سیاسی گلیاروں اور فن و ادب کے پرستاروں کو آنسوؤں کے سیلاب میں ڈبو دیتی ۔ پھر بھی حاکمانِ وقت سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا کورونا کی لپیٹ میں آئے لوگوں کی امداد و راحت کے لیے بیس لاکھ کروڑ روپیوں کی خطیر رقم کا اعلان واقعی ایک حقیقی ریلیف پیکج ہے؟ کیا پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا کسی طلسماتی دنیا کی بات نہیں؟ کیا غریبوں کو مفت اناج، دال آٹے کی دستیابی ہوا ہوائی والی بات نہیں؟ کیا ایک غریب مزدور گھرانے کی بھکمری کا یہ ڈراپ سین اور یہ دُکھ بھری داستان ان اعلانات کو صاف لفظوں میں نہیں جھٹلاتی؟ کیا منگلا کا انتہائی اقدام سب کے لیے ایک قیامتِ صغریٰ نہیں کہ اس پر لوگ ہزار بار روئیں؟
ایسا ہی ایک اور دل دوز واقعہ دلی یونیورسٹی کے عربی مدرس پروفیسر ولی اختر کی افسوس ناک موت کی خبر کی صورت میں ۱۱/ جون کو پیش آیا۔ ایک نامی گرامی عربی اسکالر پروفیسر مرحوم ۲/ جون کو اچانک سینے میں درد کی شکایت کرتے ہیں ، ان کے لیے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے ، گھروالوں کو ان میں کووڈ۔ ۱۹ جیسی علامات محسوس ہوتی ہیں ، گھبراہٹ کے عالم میں پروفیسر صاحب کو لے کر وہ دلی اور نوئیڈا کے ہسپتالوں کا رُخ کر تے ہیں تاکہ موصوف کا شدید تکلیف سے افاقہ ہو ۔ یہاں خلاف توقع پروفیسر صاحب ایک عجیب وغریب کہانی کا عنوان بن جاتے ہیں ۔ دل تھام کر سنیے کہ گھروالے درد سے کراہتے ہوئے اپنے مریض کوجس کسی نجی ہسپتال کی چوکھٹ پرلاتے ہیں، وہاں پروفیسر صاحب کوداخلہ تو دور اندر جانے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے ۔ چھ بڑے شفاخانوں ۔۔۔ فورٹس ، بنسل ، مُول چند ، ہولی فیملی ہسپتال دلی ، کیلاش ہسپتال نوئیڈا۔۔۔ کی دہلیز سے وہ بے نیل ومرام واپس لوٹا دیے جا تے ہیں ۔ پروفیسر صاحب کے پریشان حال اہلِ خانہ کی تمام کاوشیں اور حجتیں اکارت جاتی ہیں ۔ مرحوم کے بھائی علی اختر کے الفاظ میں باوجودیکہ میرے بھائی جان درد سے تڑپتے رہے ، ایک بھی ہسپتال میں انہیں ایڈمٹ نہیں کیا گیا،نہ جنوبی دلی کی کسی لیباریٹری نے ان کا کووڈ۔۱۹ ٹیسٹ کرنا قبول کیا ۔ بالآخر ولی اختر صاحب کو جامعہ نگر کے نجی ’’الشفا اسپتال‘‘ میں داخلہ دیاجاتاہے،یہاں ابھی کورونا ٹیسٹ کیا ہی جاتا ہے تاکہ مرض کی حتمی تشخیص ہو، پروفیسر صاحب کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کیا دلی کے بڑے ہسپتالوں میں ہنگامی حالات میں بھی درد سے تڑپ رہے ایک مریض کے علاج سے انکار کرنا پیشہ طب سے ناانصافی نہیں؟ کیا یہ انسانیت کے گال پر زناٹے دار طمانچہ نہیں ؟ کیا یہ ہمارے انتظامی نظام کے انہدام کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟ اس دکھ بھرے سانحہ پر دلی یونیورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر آدتیہ نارائن مشرا نے اپنے رد عمل میں نجی ہسپتالوں کو آڑے ہاتھوں ضرور لیا مگر جہاں انسانیت مر گئی ہو ، جہاں انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہ رہی ہو ، جہاں شفاخانوں میں بھی اب مذہبی بنیادوں پر مریضوں کے درمیان اسی طرح تفریق کی جاتی ہو جیسے سنہ سنتالیس میں ریلوے اسٹیشنوں پر ’’ہندوپانی مسلم پانی‘‘ کے دوالگ الگ مٹکے انسانیت کا مذاق
اُڑا تے رہے تھے، وہاں کسی تیز طرار کاغذی بیان سے کون سابھونچال آنے والا ہے؟
اسپتال کے مالکان، طبی اور نیم طبی عملہ کا یہ قابلِ دست اندازی قانون رویہ آج ہمیں کہاں کہاں نظر نہیں آتا ؟ آج کی تاریخ میں تند وتلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک معمولی استثنیٰ کو چھوڑ کر کئی ڈاکٹر صاحبان اور میڈیکل اسٹاف کووڈ۔۱۹ سے متاثر مریضوں سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے وہ اُن کے لیے پیکِ اجل ہوں، یہاں تک کہ بے یار و مددگار مریضوں کو درد و کرب میں دیکھ کر بھی ان کی رگِ حمیت نہیں پھڑکتی ۔ اس طرح کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں موجودہیں۔ یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہورہاہے ۔ کیا یہ انسانیت کی بے دردانہ موت نہیں ہے؟
ایک اور پہلو سے انسانیت کی بے کفن لاش ہمیں دیدہ عبرت نگاہ سے اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ کووڈ۔۱۹ سے مرے اکثر مریض اتنے کم نصیب ہوتے ہیں کہ بسا اوقات اُن کی میت ان کے اپنے عزیز واقارب بھی بادل ناخواستہ ہی آخری رسومات کے لیے اسپتالوں سے گھر لے جاتے ہیں،بہت سوں کو بعد از مرگ اپنوں کا کندھا نصیب ہوتاہے نہ عزت واحترام ۔ سری نگر کے سول لائنز میں سالہاسال سے کام کرنے والے کولکاتہ کے رہنے والے ایک ٹیلر ماسٹر کی کووڈ۔۱۹ سے موت اسپتال میں موت واقع ہوئی ، متوفی کو مقامی قبرستان میں دفنانے پر کوئی تیار نہ ہوا۔ جب ایک مقامی رضاکار تنظیم ’’ہیلپ پور‘‘ نے میت کو سپرد خاک کرنے کی ہمت جٹائی تو قبرستان سے ملحقہ بستی والوں نے اس پرکافی شور و ہنگامہ کیا ۔ یہ تو بھلا ہو این جی او کے نرم مزاج منتظم کا جنہوں نے بڑی دانائی سے ایک پردیسی مہمان کو دائمی خاکدان میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی کے ہوبہو ایک اور کہانی سری نگر میں رہنے والے ایک سابق انجینئر کی بنگلور میں بنی ۔ ان کا فرزند بنگلور میں ملازمت کرتاہے،انجینئر صاحب پانچ چھ سال سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کشمیر کی کڑاکے کی سردیاں ٹالنے کے لیے بنگلور اپنے بیٹے کے پاس جاتے ہیں، دوچار ماہ وہاں گزار کر وادی کشمیر لوٹتے ہیں۔ اس بار وہ وقت پر کشمیر لوٹ نہ سکے کیوں کہ ان کی شریکِ حیات کے ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب انجنیئرصاحب کو بنگلور میں رُکنا پڑا۔ بنگلور کے کسی اسپتال میں ان محترمہ کا علاج معالجہ چل رہاتھا جس نے نہ صرف مہینوں کی طوالت کھینچ لی بلکہ چالیس لاکھ روپیوں کے خرچ کا بھاری بوجھ بھی ان کے کندھوں پر ڈالا۔ اتنی خطیر رقم جمع کرنے کے لیے اُنہیں سری نگر میں اپنا گھر بار تک نیلام کرناپڑا، مگر مریضہ ہسپتال میں دم توڑگئیں۔اب مسئلہ لاک ڈاؤن کا تھا، اس کی موجودگی میں میت کا سری نگر پہنچایا جانا بعید ازامکان تھا ،اسی وجہ سے میت کی تجہیز وتکفین کے لیے انجنئیرصاحب نے مقامی مسلم قبرستان والوں سے رابطہ قائم کیا جنہوں نے بہانے کرکے تدفین کی اجازت دینے سے صاف انکار کیا ۔ سری نگر کا ایک رہائشی بنگلور میں پریشانیوں کے بھنور میں ہچکولے کھاتا رہا مگر شکر کہ اوقاف اسلامی نے کسی مسجد سے ملحق اپنے مقبرے میں مرحومہ کی تدفین کی اجازت دے دی ۔ یوں اللہ کے بندوں نے یہ گتھی سلجھا دی۔یہ عبرت آموز واقعات ہماری پوری حزنیہ کہانی کا احاطہ کرتے ہیں یا نہیں مگر یہ ضرور بتاتے ہیں کہ انسانیت کے فقدان کے تناظر میں ہم سب پرمحشر کی گھڑیاں سایہ فگن ہیں جن کے درمیان ہم خواہی نہ خواہی جیے جا رہے ہیں مگر یہ بھی کوئی جینا ہوا؟؟؟
(مضمون نگار کشمیر کے آزاد سینئر صحافی ہیں)
کووڈ۔۱۹ سے مرے اکثر مریض اتنے کم نصیب ہوتے ہیں کہ بساواقات اُن کی میت ان کے اپنے عزیز واقارب بھی بادل نخواستہ ہی آخری رسومات کے لیے اسپتالوں سے گھر لے جاتے ہیں،بہت سوں کو بعد از مرگ اپنوں کا کندھا نصیب ہوتاہے نہ عزت واحترام ۔