خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
(ولانا محسن عثمانی ندوی کے ایک مضمون پر اعتراض اور اس کا جواب)
ممتاز میر
ڈاکٹر پروفیسر محسن عثمانی ندوی ہمارے پسندیدہ علماء کرام میں سے ہیں۔ ہم اخبارات و رسائل میں ان کے مضامین ڈھونڈتے ہیں اور بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔مگر اس بار ہفت روزہ دعوت کے تازہ شمارے (۲۳تا۳۰جولائی) میں ان کا مضمون کچھ پسند نہ آیا۔
(۱) پروفیسر محسن عثمانی ندوی کے مضمون کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے ’’مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں ایک اہم سبب عصری علوم اور سائنس وٹکنالوجی میں مسلمانوں کا پسماندہ رہ جانا ہے۔ کئی سو سال کی درخشندہ اور تابندہ تاریخ کے بعد مسلم امت زوال و ادبار کا شکار ہو چکی ہے۔ تاریخ کے ہر طالب علم کے سامنے بلکہ اس عہد کے ہر مسلمان کے سامنے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ زوال کیوں شروع ہوا اور آسمان پر عروج کا چمکنے والا سورج کیوں غروب ہوا؟ اس کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ سائنس اور صنعت میں مسلمان دوسری قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے۔ اس میدان میں مسلمان کے ذہن کی تیزی وتابناکی رخصت ہو گئی۔ ان کا نشتر تحقیق کند ہو گیا‘‘
(۲) پھر ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں’’عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ’مسلمانوں کے زوال کے دو اسباب ہیں، ایک آپس کا اختلاف دوسرے مذہب سے دوری‘ یہ قول اپنی جگہ درست ہونے کے باوجود اس لیے غلط ہے کہ علم وتحقیق اور سائنس کی طاقت کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد بلا شبہ ضروری ہے لیکن اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور انہیں عصری طاقت حاصل نہ ہو تو یہ اتحاد انہیں غالب اور سر بلند نہیں کر سکتا۔ بلا شبہ مذہب سے دوری بھی نقصان دہ ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ دنیا کی بہت سی قومیں مذہب سے بہت دور ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ہیں‘‘۔ اللہ رحم کرے ہمارے ممدوح نے یہ کیا لکھ دیا۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ وہ تو اپنی تحریروں میں ہم سے بڑے عاشق اقبالؒ دکھائی دیتے ہیں۔ کیا مولانا کو اقبالؒ کا یہ شعر یاد نہیں رہا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
بڑا دکھ اور افسوس ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے بڑے جغادری علما کو بھی زمانے کی ہوا لگ جاتی ہے۔ وہ تنقیدوں اور مخالف نظریات کی یورش سے گھبرا کر سرنڈر کرنے کو یا دفاع سے دست برداری کو مناسب سمجھنے لگتے ہیں یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے شتر مرغ طوفان آنے پر اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہے۔
ہم پہلے اقتباس پر بات کرتے ہیں۔ پروفیسر محترم نے عصری علوم اور سائنس وٹکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کو زوال کا سبب بتایا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ موجودہ سائنس کی بنیاد رکھنے والی قوم سائنس میں یا عصری علوم میں پیچھے کیوں رہ گئی؟ ہمارے نزدیک اس کی وجہ ہے توحید سے شرک کی طرف سفر۔ خلافت صرف چار خلفائے راشدین یا زیادہ سے زیادہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ڈھائی سالوں تک محدود تھی۔ حضرت امیر معاویہؓ سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک بادشاہت ہی بادشاہت تھی۔ حضرت امیر معاویہ خود تاریخ کے متنازعہ کردار ہیں۔ بعد میں تو پھر بادشاہ ظل الٰہی، عالم پناہ اور نہ جانے کیا کیا ہونے لگے۔ یہاں تک کہ ہم مومن بھی ہوتے تھے اور بادشاہ کو سجدہ تعظیمی کے بھی قائل تھے۔ پھر ہم نے دین اسلام چھوڑ کر دین الٰہی بھی ایجاد کیا۔ جب ہم سے اپنا اصل دین ہی چھوٹ گیا تو پھر قرآن کی ضرورت بھی کہاں باقی رہی؟ جب قرآن ہی ہمارے لیے کتاب ہدایت نہ رہی تو ترقی کے راستوں سے ہمارا تعلق ہی ختم ہو گیا۔ علما کرام بتائیں کہ کیا آج تک ہم دوبارہ یہ تعلق پھر دور اول کی طرح جوڑ سکے ہیں؟ ہم نے اپنی جوانی کی کئی دہائیاں یہ دیکھتے ہوئے گزار دیں کہ جماعت اسلامی کے درس قرآن کی دیو بندی بھائی جی جان سے مخالفت کرتے تھے۔ یعنی قوم کی مٹی پلید دنیا دار نہیں بلکہ دین دار طبقے کی رہین منت ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جو کل بھی تھا آج بھی ہے جو اپنے ماننے والوں کو تحقیق و تفتیش کے راستوں کی طرف بلاتا ہے۔ بہت افسوس کے ساتھ ہمیں اپنے ممدوح کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ قرآن تو اپنے ہر دوسرے تیسرے صفحے پر اپنے پڑھنے والوں کو علم و تحقیق کی طرف بلاتا ہے۔ فہم ادراک کی دعوت دیتا اور عقل وجدان سے کام لینے پر ابھارتا ہے۔ اگر ہمارے آباء اللہ کی ایسی توحید کے قائل ہوتے جیسے حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام تھے اور قرآن کو حرز جاں بنا کر رکھتے تو سائنس و ٹکنالوجی میں دنیا کی ساری قومیں ہمارے نقش قدم پر چلتیں اور یہ کوئی نئی بات نہ ہوتی۔
دوسرا اقتباس پہلے سے بھی زیادہ مایوس کن ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس دباؤ کے تحت ان کے قلم سے یہ جملے نکل گئے۔ ہم انہیں یاد دلا دیں کہ اسلام کے تمام اصول و ہدایات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ایک اصول چھوڑیں گے تو اس کا اثر دوسرے پر پھر تیسرے پر پڑے گا، اور ان تمام کی بنیاد توحید ہے۔ آپ جوں جوں توحید سے دور ہوں گے توں توں آپ کا زوال بڑھتا رہے گا۔مولانا نے اپنے اس دوسرے اقتباس میںاس عام خیال کو رد کیا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب دین سے دوری اور آپس کا اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک دونوں باتیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ دین سے دوری ہی آپسی اختلافات کا سبب ہے۔ قرآن کہتا ہے: وعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا یعنی ہمارے اتحاد کی بنیاد قرآن کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہے مگر ہم نے قرآن کو طاق پر رکھ دیا اور مختلف فقہوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ ہمارے علمائے کرام نے اس مرکزی بنیادی تبدیلی کی جی بھر کر حوصلہ افزائی بھی کی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ یہودیوں کی چال تھی۔ اب غور فرمائیے کہ کیا ہمارا انتشار ہمارا ادبار فطری نہیں ہے؟ جب فقہ کے متوالوں میں قرآن کی اہمیت نہ رہی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ آج سے قریب 35 سال پہلے بمبئی کے ایک ہفت روزہ میں جب تبلیغی نصاب پر بحث چلی تھی تو تبلیغی نصاب کے ایک چاہنے والے نے لکھا کہ ہاں، جب تبلیغی نصاب میں سب موجود ہے تو پھر قرآن و حدیث کی ضرورت کیا ہے؟ کیا یہ جواب بریلوی حضرات سے بھی دو جوتے آگے نہیں ہے۔ مگر دیوبندیوں کی بھی زمین نہیں ہلی۔ یہ نوبت یکدم تو نہیں آئی ہو گی۔بگاڑ دھیرے دھیرے آتا ہے۔ اس لیے آج یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ پورا بگاڑ توحید سے دوری اور شرک کی طرف مراجعت کے نتائج ہیں۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا نے بڑی عجیب بات کہہ دی کہ متحد ہونے کے باوجود عصری طاقت نہ ہو تو اتحاد انہیں غالب اور سر بلند نہیں کر سکتا۔ حیرت ہے کہ یہ بات قابل صد احترام عالم دین اس وقت کہہ رہے ہیں جب جاہل اور عصری طاقت سے نابلد افغانوں نے نہ صرف تاریخ کی سب سے بڑی عسکری طاقت امریکہ کو بلکہ گزشتہ دو صدیوں میں دو اور سپر پاوروں کے غرور کو مٹی میں ملا دیا، جبکہ پڑھے لکھے ہندوستانی، چینی اور بہت سی دوسری قومیں صدیوں انگلینڈ اور فرانس کی غلام رہیں۔ ایک سوال جو اب تک ہم کئی لوگوں سے کر چکے ہیں مولانا سے بھی کرتے ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے شہر بغداد پر ہلاکو نے اور دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک اسپین پر فرڈیننڈ نے کن بنیادوں پر غلبہ پایا تھا۔ یہ تو مولاناکی تھیوری کے برعکس معاملہ ہے۔
مولانا نے کچھ باتیں ایسی بھی لکھی ہیں جن سے ہم کلی اتفاق رکھتے ہیں مثلاً یہ کہ مسلمانوں نے اب نماز روزہ حج و زکٰوۃکو ہی اصل دین بنا لیا ہے اور اس کی وجہ وہی توحید کی روح کا ختم ہو جانا ہے۔ شرک نے دین کی انقلابی روح کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ دوسری بات، خیر امت ہونے کا مطلب۔جب نماز روزہ حج و زکٰوۃ ہی آخرت میں نجات کے لیے کافی ہو گئے تو لوگوں کو اپنی من پسند برائیوں سے روک کر ان کی ناراضگی کون مول لے گا۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ برائیوں سے روکنے والے کو لوگ یہ کہہ کر ڈانٹنے لگے ہیں کہ کیا ضرورت پڑی ہے آپ کو معاشرے میں مسائل پیدا کرنے کی؟ بس اپنی راہ دیکھیے۔ حضور اکرم ﷺ نے کہا تھا کہ برائی کو دل میں برا سمجھنا ایمان کا آخری درجہ ہے۔ ہمیں یہ حد بھی پار کیے ہوئے صدیاں گزر گئیں اور پتہ بھی نہ چلا۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارا یہ مضمون پروفیسر محترم تک پہنچ جائے اور وہ ہمارے اٹھائے گئے سوالات کاجواب دیں یا پھر اپنے مضمون پر نظر ثانی کریں۔
نوٹ: مذکورہ اعتراض پر مولانا محسن عثمانی ندوی نے سردست درج ذیل جواب بھیجا ہے:
قرآن میں اسلحہ سازی کا حکم ہے۔ اس دور میں اعلی درجے کی اسلحہ سازی سائنس اور ٹکنالوجی میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں۔ افغانستان کا حوالہ دے کر سائنس اور ٹکنالوجی کی اہمیت کو ختم کرنا مناسب نہیں ہے۔ قرآن میں جو حکم ہے وہ امر کے صیغہ میں ہے اور اس حکم پر عمل جدید علوم میں مہارت حاصل کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022