خود کفیل بھارت کے لیے دیہی معیشت کا استحکام ضروری

جملہ بازی سے کام نہیں چلے گا۔شعبہ خدمت اور مینو فیچکرنگ میں نمو کی ضرورت

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

ملک کے بے روزگار نوجوانوں نے بے روزگاری اور نجکاری (پرائیویٹائیزیشن) کے خلاف9ستمبر 2020کو 9بجے 9 منٹ کے لیے ایک ملک گیر علامتی احتجاج منظم کیا تھا۔ یہ حکومت مخالف مظاہرہ سوشل میڈیا پر بھی جاری رہا۔ اس کے بعد 17ستمبر کو نوجوانوں نے ’’قومی یوم بیروزگاری‘‘ منا کر سوشل میڈیا میں تیز بحث چھیڑ دی ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اس کا خوب چرچا رہا۔ بلاشبہ کورونا کے قہر سے ہماری معیشت کی پہلی سہ ماہی میں بدترین گراوٹ درج کی گئی۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وباء کی آمد سے قبل سے ہی ہماری معیشت پٹری سے اترتی ہوئی نظر آرہی تھی لیکن اس کی بہتری کے لیے کوئی مناسب اور بروقت تدبیر نہیں کی گئی جس کا اثر ملک کے ہر طبقہ پر پڑا ہے۔ خاص طور سے روزگار کے شعبہ پر کورونا کے قبل ہی سے بے روزگاری 45سالوں میں سب سے اونچی سطح پر تھی۔ مگر عام انتخابات میں اس کو انتخابی موضوع بنانے کے بجائے حکمراں جماعت نے ہندو۔مسلم، مندر۔مسجد اور طلاق ثلاثہ۔آرٹیکل 370 کو موضوع بنایا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق کورونا عالمی وبا کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے خصوصاً جنوبی ایشیائی ممالک میں روزگار میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ 2019تک 72فیصد افراد کے روزگار خطرے میں تھے۔ نوجوان کے حساس مسئلہ پر حسب ضرورت توجہ نہیں دی گئی لیکن پرائیویٹائزیشن برابر جاری تھا۔ کورونا قہر حکومت کے لیے ایکٹ آف گاڈ کیوں نہ ہو مگر بے کار نوجوانوں پر بے روزگاری کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہی۔ ملک میں کھلے پن کے باعث معیشت سنبھلتی ہوئی نظر آئی۔ عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے عمل سے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے مگر یہ مستحکم نہ رہ سکے۔ اس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے روزگار کے مواقع آئے مگر اس کا الگ ہی انجام دیکھنے کو ملا۔ کھلے پن کے اصولوں سے پرائیویٹائزیشن کی ہمت افزائی کی جانے لگی اور پبلک سیکٹر جو بڑے پیمانہ پر روزگار فراہم کرتے تھے ان کی شراکت داری کم ہونے لگی۔ نتیجتاً اس سے روزگار کی فراہمی میں کمی آنے لگی۔ ایسے منصوبوں نے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھاوا دیا بلکہ اس سے سرمایہ کی مرکزیت کو بھی بڑھاوا ملا۔ گزشتہ دہائی سے دنیا کے سب سے امیر لوگوں کی فہرست میں زیادہ تر سرمایہ داروں کا نام شامل ہوتا رہا۔ کورونا وبا کے دوران بھی امیروں کی فہرست میں ان کی درجہ بندی بڑھی ہے جبکہ روزگار کی شرح تیزی سے گری ہے۔ نجی ہاتھوں میں سرمایہ کے ارتکاز سے ریاستوں کے ہاتھوں میں روزگار دینے کی صلاحیت ختم ہونے لگی۔ سب سے زیادہ روزگار دینے والے ریلوے سیکٹر میں بحالی تقریباً ختم ہوگئی۔ پہلے جہاں روزگار سے لوگوں کو سلامتی مہیا ہوتی ہے وہ خیال ہی ختم ہوگیا۔ نوکریوں کو مستقل بنانے کی جگہ ٹھیکے کا انتظام ہونے لگا ہے۔ اتر پردیش سے خبر آئی ہے کہ وہاں گروپ بی اور گروپ سی کی بحالیاں 5 سال کے کنٹراکٹ پر ہوں گی۔ کنٹراکٹ والے ملازمین، ملازمت ترک نہیں کریں گے اور نہ انہیں مستقل کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں دیگر فوائد ملیں گے۔ اس کے علاوہ آہستہ آہستہ صحت، تعلیم اور پولیس جیسے اہم شعبوں میں بھی مستقل نوکریاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کی جگہ غیر مستقل نوکریوں کا انتظام ہونے لگا ہے۔ مثلاً پارا ٹیچر، تعلیم دوست (شکشا متر) سواستھ متر، معاون پولیس وغیرہ۔ ایسی نوکریوں میں تنخواہیں، بھتے اور دیگر سہولیات میں بڑی حد تک کٹوتی کی گئی ہے۔ ان ملازمین کے ذریعے زیادہ سہولیات کے مطالبے پر ان پر لاٹھی چارج بھی کیے جارہے ہیں۔ اس طرح لیبر قوانین کو کمزور کرکے محنت کشوں کی عزت نفس کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ محض صنعت کاروں اور کارپوریٹ ہاوس کے مفاد کی خاطر محنت کشوں کو بلی بکرا بنایا جا رہا ہے۔ یومیہ مدت کار بھی بڑھا دی گئی ہے۔ اب اجرت میں اضافہ ساہوکاروں کے رحم و کرم پر ہوگا۔ مرکز ہو یا ریاستیں ہر جگہ ایک جیسے حالات بن رہے ہیں۔ بلا شبہ ایسے حالات نوجوانوں کے لیے ایک ٹریجڈی سے کم نہیں ہیں۔ حکومتوں کے جھوٹے وعدوں سے نوجوان تکلیف میں ہیں۔ روزگار کے لیے درخواستیں طلب کرکے رد کرنا، امتحان کی تاریخ طے کر کے ملتوی کر دینا۔ ریزلٹ کا انتظار کرتے کرتے معاملہ کورٹ میں چلا جانا وغیرہ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت روزگار کے تعلق سے اپنی حیثیت متعین کرے۔ روزگار کے لیے ایک قومی کیلنڈر بنایا جانا چاہیے۔ ’’یوم قومی بے روزگاری‘‘ منانے کا یہ معاملہ نوجوانوں کے اندر بے صبری بیچارگی اور اشتعال پیدا کرتا ہے۔ مگر اب ہمارا سماج اور ہماری سیاست اس معاملے میں حساس ہونے کے بجائے بے حسی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
بھارت میں روزگار کا فقدان اور سب سے اونچی سطح پر بے روزگاری مودی حکومت کے لیے سردرد بن گئی ہے۔ وزیراعظم کے یوم پیدائش کو بے روزگار نوجوانوں نے ’’یوم قومی بے روزگاری‘‘ کے طور پر منایا جو کہ سارے ملک میں خوب وائرل بھی ہوا۔ اعداد و شمار ہی خطرناک حالات کی غمازی کرتے ہیں۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق موجودہ حالات میں ایک ماہ کے اوسط سے بے روزگاری کی شرح 7.05فیصد رہی۔ مئی اور اگست کے درمیان 66لاکھ وہائیٹ کالر والی نوکریوں سے لوگوں کو دستکش ہونا پڑا۔ بشمول ٹیچرس، اکاونٹنٹس، کنسلٹینٹس، انجینئرس اور ڈاکٹرس وغیرہ کی نوکریاں گئیں۔ اگر غیر منظم شعبوں کو جوڑا جائے تو یہ 50 لاکھ سے ایک کروڑ تک چلا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ محنت کشوں کے روزگار میں کافی تیزی آئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کام کی عمر کے لوگ روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یہ مہاجر مزدور ہوسکتے ہیں جو اپنے گھروں کو لَوٹ کر دیہی علاقوں میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ بے روزگاری کے اعداد و شمار کو پیش کرنے کے معاملے میں حکومت پس و پیش میں ہے کیونکہ اسٹیٹسٹکس ڈپارٹمنٹ جو ایک سرکاری ایجنسی ہے اس کو بھی عوامی کرنے میں پس و پیش ہو رہا ہے۔ بھارت میں اصل اور صحیح ڈاٹا ایک نایاب شئے ہوگئی ہے۔ لوگوں کی آمدنی، بے روزگاری اور صنعتی پیداوار کے متعلق کسی طرح کا ڈاٹا دستیاب نہیں ہے۔ اس طرح حکومت عوام کو اندھیرے میں رکھ کر جملہ بازی کے ذریعے بڑے بڑے خواب دکھاتی ہے۔ کہانی سننے اور مور نچانے کے لیے کہتی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی تمام اداروں میں حکومت ہیرا پھیری اور توڑ جوڑ کے ذریعے ایک خود ساختہ امیج بنانا چاہتی ہے۔ حقیقت کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ اس طرح سے حکومت تین طرح کے مسائل سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اول یہ کہ حکومت شفافیت کی کمی کی وجہ سے بھروسہ کھو رہی ہے۔ مثلاً کووڈ۔19کا ڈاٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں غلط ڈاٹا پیش کرنے کی وجہ سے بھارت کی عالمی تصویر اور شبیہ پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ دوم یہ کہ غلط ڈاٹا کی وجہ سے پالیسی سازی بھی غیر مؤثر ہوجاتی ہے کیونکہ پالیسی سازوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ سرکاری ڈاٹا میں کتنی چھیڑ چھاڑ اور ہیرا پھیری کی گئی ہے۔ اس سے مجوزہ منصوبوں کو زمین پر اتارنے میں کافی تکلیف ہوتی ہے۔ سوم یہ کہ قومی مسائل کی درستگی کے لیے حکومت کوئی اقدام نہیں کر پاتی یہی وجہ ہے کہ حکومت نے لوک سبھا میں سوال و جواب کے وقفہ کو بھی ختم کر دیا ہے۔ جمہوریت کی صحت بھی صحیح ڈاٹا سے جڑی ہوئی ہے۔ حکومت ہمیشہ عوام کے سامنے جواب دہ اور ذمہ دار ہوتی ہے۔ کسانوں کی خود کشی اور ریل کی پٹری پر اور دیگر حادثات میں مارے گئے مہاجر مزدوروں کا ڈاٹا بھی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس طرح مرکزی حکومت بیشتر اطلاعات چھپاتی رہی۔روزگار کے معاملے میں ہمارے ملک کا حال ابتر ہے۔ اس کی ایک وجہ کورونا کا قہر ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اپنے تازہ لگائے گئے اندازہ میں کہا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے کام کے گھنٹوں میں بھاری نقصان کی وجہ سے پوری دنیا کے محنت کشوں کی آمدنی میں بڑی گراوٹ آئی ہے۔ آئی ایل او نے کہا کہ 94فیصد محنت کش ایسے ملکوں میں ہیں جہاں کام کی جگہوں پر کسی نہ کسی طرح کی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ 32فیصد محنت کش ایسے ملکوں میں ہیں جہاں بقیہ میدانوں میں تگ و دو کو چھوڑ کر محض کاروباری تگ و دو پر روک لگی ہوئی ہے۔ آئی ایل او کے ڈائرکٹر گائے رائیڈر نے جینوا میں کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں محنت کشوں کے کام کے اوقات میں 15فیصد سے زیادہ گراوٹ آئی ہے۔ رائیڈر نے کہا کہ حکومتوں نے مالی راحت نہیں دی ہوتی تو اپریل-جون سہ ماہی میں ورکنگ آور لاس 28 فیصد ہوتا۔
ورکنگ ٹائم لاسٹ کے مقابلے زیادہ آمدنی والے ملکوں میں فراہم کیے گئے راحت پیکیج کی برابری کرنے والے ترقی پذیر ملکوں میں 982 ارب ڈالر کی مزید راحت دینی ہوگی۔ اس کے تحت کم آمدنی والے ملکوں کو 45 ارب ڈالر اور متوسط آمدنی والے ملکوں کو 937 ارب ڈالر کا مزید راحت پیکیج دینا ہوگا۔ ہمارا ملک متوسط آمدنی والا ترقی پذیر ملک ہے۔ ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے آر بی آئی کے سابق گورنر ڈاکٹر سبا راؤ نے حکومت کو چند مشورے دیے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ منیریگا کی حالت میں بہتری لانی ہوگی۔ حکومت کو بیڈ لون (Bad Loan) پر قابو رکھنے اور روزگار کو بچانے کے لیے مصیبت زدہ صنعتوں کی مدد کرنی ہوگی۔ حکومت کو بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر پر خرچ کرنا ہوگا تاکہ نوکریاں نکل آئیں۔ اخیر میں حکومت کو بینکوں میں رقم ڈپازٹ کرنا ہوگا تاکہ کریڈٹ بڑھایا جا سکے۔ پہلی ضرورت ہے نوکریاں پیدا کرنا۔ وبا کے شروع ہونے سے پہلے بھی نوکریوں کا ملنا ایک چیلنج تھا۔ سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کے مطابق اگست میں بے روزگاری کی شرح 9.1 فیصد تھی۔ ضرورت ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے ایک ماہ میں 10 لاکھ نوکریاں پیدا کی جائیں۔ مودی جی اسی وعدہ کے ساتھ جیت کر آئے تھے کہ روزگار کے متلاشی افراد کی زندگیاں بدل دیں گے اور ہر سال 2 کروڑ نوجوانوں کو روزگار دیں گے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس وعدہ کا پورا نہ ہونا ان کی بڑی ناکامی مانی جائے گی۔ سوال ہے کہ نوکریاں آئیں گی تو کہاں سے؟ تو ڈاکٹر راؤ کہتے ہیں بھارت کو مینو فیکچرنگ شعبہ پر انحصار کرنا ہوگا اس لیے کہ میک ان انڈیا میک فار انڈیا اور میک فار دی ورلڈ اہم شعبے ہیں جنہیں متحرک کرنا ہوگا مگر مرکزی حکومت آر بی آئی سے قرض لے کر اسے دیوالیہ کر چکی ہے۔ اس نے جی ایس ٹی معاوضہ 47272 کروڑ روپے غلط طریقے سے روک لیا ہے تو معیشت بڑھے گی کیسے؟
***

ابھی بھی ملک کا زرعی نظام دستکاروں اور دیہی کاریگروں پر ہی منحصر ہے۔ آج بھی بڑے پیمانے پر زرعی اوزاروں کی تیاری دیہی کاریگروں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اس طرح کاشت کاری کی طرح دستکاری میں بھی روزگار کے کافی امکانات ہیں۔ حکومت کو اس سمت میں بھرپور توجہ دینا چاہیے محض زبانی جمع خرچ اور جملہ بازی سے حالات نہیں بدلتے۔ ملک کی معیشت انتہائی سنگین دور سے گزررہی ہے۔ صورتحال ایسی ہے کہ ہماری جی ڈی پی اور ہمارا ریزرو بینک بھی غریب ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020