مفتی تنظیم عالم قاسمی
اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی سے اس کے چاہنے والوں کو فطری طور پر رنج ہوا کہ ایک نامور اداکار اور ایک ابھرتا ہوا ستارہ ڈوب گیا لیکن اس طرح کی موت اور اپنے ہاتھوں زندگی ختم کرنے کے ایسے واقعات سے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے جس کے سبب لوگ اس طرح کا اقدام کرتے ہیں بالخصوص ایسے افراد جو متمول ہیں،آرام وراحت کی تمام چیزیں ان کے پاس موجود ہیں،کھانے پینے اور نوکر چاکرسے لے کر سیر وتفریح اور زندگی کو پر لطف بنانے والی ہر چیز انہیں مہیا ہے، دنیوی عیش وعشرت کے لیے جس چیز کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے وہ انہیں بآسانی دستیاب ہے، انہیں معاش کی فکرہے نہ بیماری میں علاج ومعالجہ کی،نہ پیسے کی کمی ہے اور نہ خدمت گاروں کی۔ بظاہراس قدر پرتعیش زندگی کے باوجود وہ کیا مجبوری ہے جس سے تنگ آکر یہ لوگ خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے جس سے لطف حاصل کرنے کے لیے لوگ اپنی دولت بہا دیتے ہیں اور آخری سانس تک جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سشانت ابھرتا ہوا اداکار تھا اور روز بروز مقبول ہو رہا تھا،بڑا بنگلہ تھا دوست واحباب تھے، قیمتی گاڑیاں تھیں،دولت اور پیسوں کا انبار تھا،نوکرچاکر اور خدام تھے،من پسند علاقے میں رہائش تھی،پھر اس طرح کا قدم اس نے کیوں اٹھایا، صرف یہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی سشانت کی منیجر 28 سالہ دشاسالیان نے 9 جون کو ایک اونچی عمارت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تھی۔ بالی ووڈ ارکان، مختلف دنیوی عہدیدار، اونچے مناصب پر فائز افراد اور اچھی تنخواہیں پانے والے لوگ جب اس طرح کا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں تو لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال گردش کرتا ہے کہ آخر کس چیز نے انہیں یہاں تک پہنچایا اور کیوں وہ اس دنیا سے اکتا گئے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض نجی مسائل ایسےہوتے ہیں جن کے سبب سے انسان ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اور وافر پیسہ، شہرت اور عزت کے باوجود ذہنی سکون ختم ہوجاتا ہے،جب ذہنی دباؤ بڑھتا ہے اور ٹینشن حد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو ذہنی حالت کمزور ہوجاتی ہے اور آدمی اسی میں عافیت محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے۔ لیکن ان سب کے باوجود اسلام خود کشی کی اجازت نہیں دیتا اور نہ کسی ایسے کام کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس سے انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو، یہاں تک کہ کسی پریشانی سے گھبراکر موت کی دعا کرنے کو بھی اسلام نے نا پسند کیا ہے،ہاں البتہ اسلام نے انسانی زندگی کے مختلف موڑ پر ایسی رہنمائی کی ہے اور ایسی ذہن سازی کی ہے کہ پریشانیوں اور سخت مشکلات کے درمیان رہ کر بھی ایک شخص سکون واطمینان محسوس کرتا ہے،ذہنی دباؤ اور مختلف ذہنی مسائل میں رہ کر بھی ایک مسلمان اپنی زندگی سے خوش رہتا ہے اور ہرگز نہیں چاہتا کہ خود کشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کر لے۔ سنگین مسائل سے گزرتے ہوئے بھی اسے زندگی میں لطف محسوس ہوتا ہے اور دل ودماغ میں طمانیت کی کیفیت رہتی ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلامی تعلیمات اور قرآنی ہدایات سے واقف ہوں اور وہ مکمل یقین کے ساتھ اس پر عمل بھی کریں، یہ صرف اسلام کا طرّہ امتیاز ہے کہ دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح ذہنی استحکام کے لیے ایسی بے مثال رہنمائی اس میں موجود ہے کہ اس پر عمل کرنے والا ہر شخص غربت اور پریشانیوں کے باوجود کبھی تناؤ کا شکار نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا بھی ہے تو وہ اسلام سے ناواقفیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آج بھی اگر لوگ اسلام کو اپنا دستورِ حیات بنا لیں تو پوری دنیا میں خودکشی کے واقعات نمایاں حد تک کم ہو جائیں گے۔
اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تقدیر پر ایمان لانے کی تعلیم دی ہے۔ جب ایک آدمی کو یقین ہوجاتا ہے کہ میری قسمت اللہ کے ہاتھ میں اور وہ میرے حق میں جو بہتر سمجھتا ہے کرتا ہے اس نے میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی تمام چیزیں لکھ دی ہیں جس کے مطابق دنیا میں خوش حالی اور پریشانی کا ظہور ہوتا ہے، رحمت ہو یا زحمت سب اسی کی جانب سے ہے۔ آسمان کے فیصلے پر جب کوئی شخص راضی ہونا سیکھ لیتا ہے تو تمام پریشانیاں یک لخت ختم ہوجاتی ہیں اور ہر موڑ پر وہ تصور کرلیتا ہے کہ یہی میرے مقدر میں تھا،اسی میں میرے لیے خیر ہے۔ اس سے ذہنی استحکام حاصل ہوتا ہے اور شدید دباؤ اور ٹینشن کے ماحول میں بھی ایسی قلبی طمانیت محسوس کرتا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ تقدیر پر ایمان جب مضبوط ہوتا ہے تو صبر وتوکل کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے ایک شخص ہر حال میں خوش رہتا ہے اور انتہائی تنگی اور پریشانی کے حالات میں بھی وہ زندگی سے مایوس نہیں ہوتا،اسی لیے قرآن واحادیث میں صبر وتوکل کی جگہ جگہ تعلیم دی گئی ہے اور مختلف انداز میں ان کی حوصلہ افزائی نظر آتی ہے۔ ایک جگہ ارشاد باری ہے: جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے،اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے،اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔ (الطلاق۔ 3)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو ہر حال میں اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے، چاہے خوش حالی ہو کہ بدحالی، صحت مندی ہو کہ بیماری وناتوانی، فراخی ہو یا تنگدستی،حالات موافق ہوں یا مخالف۔ جب ایک آدمی اپنے رب پر یقین کر لیتا ہے اور اس کی لکھی ہوئی تقدیر پر راضی رہتا ہے اور شکوہ نہیں کرتا تو غیبی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے اور ناموافق ماحول بھی موافق اور سازگار ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ توکل اور صبر سے انسان کام نہیں لیتا تو پھر اسباب و وسائل کام نہیں آتے،طاقت اور عزت نفع نہیں دیتی بلکہ ذہنی تناؤ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے اور پھر وہ کام کرجاتا ہے جس سے دنیا وآخرت دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر تین موقعوں پر خود کشی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ جب ایک شخص کی بیماری طول پکڑ جائے اور شفاء ملنے کی کوئی توقع نہ ہو یا بیماری سخت تکلیف دہ ہو۔ دوسرے جب ایک شخص معاشی تنگی کا شکار ہوجائے اور اس کا حل نکلتا ہوا نظر نہ آئے اور تیسرے گھریلو اختلاف جب وہ حد سے بڑھ جائیں اور صلح واتفاق کی راہیں مسدود دکھائی دیں۔ دین اسلام نے ان تینوں موقعوں پر انسان کی مکمل رہنمائی کی ہے، اگر اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو خود کشی تک نوبت ہی نہیں آئے گی بلکہ ناخوش گوار اور پریشان کن حالات بھی اسے پر لطف محسوس ہونے لگیں گے۔ چنانچہ آدمی جب بیمار ہوتا ہے اور دوا و علاج کرتے کرتے تھک جاتا ہے، علاج کے پیسے ختم ہوجاتے ہیں یا تیمارداروں کے لعن طعن سے حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے یا بیماری کی تکلیف تکلیف ناقابل بیان ہوتی ہے یا جو بھی شکل ہو، شریعت نے مریض کو صبر کی تلقین کی ہے اور یہ تصور دیا ہے کہ اس سے اس کے گناہ کم ہوں گے اور جنت میں درجات بلند ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ بعض بندوں کے لیے آخرت میں بلند مقام کا فیصلہ کرتا ہے مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں ہوتےجن کے سبب وہ اس کے مستحق ہوسکیں اس لیے بسا اوقات بعض بیماریوں میں مبتلا کر کے ان کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کی اس بلندی اور مقام کے اہل ہوجائیں،لہذا بیماری کو زحمت نہیں بلکہ رحمت اور موجب خیر سمجھنا چاہیے۔ جب ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ بیماری میرے لیے رحمت اور اخروی عذاب سے نجات کا ذریعہ ہے تو تمام کلفتوں کے باوجود مریض خود کشی کی جرأت نہیں کرے گا بلکہ اس سوچ سے اسے حوصلہ ملے گا، ہمت ملے گی اور اندر سے وہ نئی طاقت اور توانائی محسوس کرے گا۔ معاشی تنگی کا جب انسان شکار ہوتا ہے تو اس وقت بھی اس کا دماغ صحیح کام نہیں کرتا ایسے وقت فطری طور پر ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بسا اوقات وہ غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے،اس وقت بھی شریعت اس کی رہنمائی کرتی ہے اور اسے صبر کی تلقین کرتی ہے۔ متعدد آیات واحادیث میں دنیا کی بے ثباتی اور اس کے فنا ہونے کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا سے محروم رہ جائے تب بھی یہ غم کی بات نہیں ہے اس لیے کہ باقی رہنے والی آخرت کے مقابلے میں فانی دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لیے ایک مسلمان کو آخرت کی فکر کرنی چاہیے اگر ایک نماز فوت ہوگئی تو سمجھنا چاہیے کہ کائنات لٹ گئی۔ دنیا آتی جاتی رہتی ہے اور پھر دنیا کے بارے میں ہمیشہ اپنے سے کم تر افراد کو دیکھنا چاہیے کہ ہمیں تو پھر بھی دو وقت کا کھانا میسر ہے،بعض تو وہ ہیں جن کو ایک وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں،ہم اپنے ذاتی مکان میں ہیں جب کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کرائے کا مکان بھی نہیں اور وہ فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں کی زندگیوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دی، دنیا میں رہے لیکن آخرت کی فکر کی اور لوگوں دلوں میں آخرت کی فکر پیدا کی۔ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے، قید خانہ ہونے کے تصور سے معاشی تنگی کا احساس دور ہو جائے گا اور آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہوگا اسی میں وہ مگن اور خوش رہنے کا حوصلہ پائے گا۔
خاندانی اور گھریلو اختلاف بھی بسا اوقات ایسا خطرناک موڑ اختیار کرلیتے ہیں کہ انسان جینا نہیں چاہتا۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایسے وقت بھی صبر وتحمل اور قوت برداشت پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ جب ایک جگہ گھر کے مختلف لوگ ہوں گے تو آپس میں ناموافق باتیں ہو سکتی ہیں،اجتماعی زندگی میں برداشت کرنے کی قوت اگر نہ ہو تو زندگی میں چین اور حقیقی سکون نصیب نہیں ہوگا،پیسوں اور اسباب تعیش کے باوجود زندگی کا ایک ایک لمحہ کانٹا بن کر چبھتا رہے گا،اس لیے تمام مسلمانوں کو اسلام نے صبر اور برداشت کی تلقین کی ہے،اسی کے ساتھ یہ تاکید بھی کی ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے کا حق ادا کرے۔ باپ بیٹے کا حق ادا کرے اور بیٹا باپ کا،شوہر بیوی کے حقوق وفرائض کا خیال رکھے اور بیوی شوہر کے حقوق وفرائض کا،اس طرح باہمی حقوق کی ادائیگی سے نزاع اور اختلاف کا راستہ بند ہوجائے گا اور گھر جنت کا نمونہ محسوس ہوگا … یہ وہ تعلیمات ہیں جن کا دوسرے مذاہب میں فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ خود کشی کا رجحان غیر مسلموں میں زیادہ ہے۔ معمولی معمولی باتوں میں وہ اپنا حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں اور پھر سارے اسبابِ راحت کے باوجود ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس کے تصور سے بدن کانپ اٹھتا ہے۔
آسمان کے فیصلے پر جب کوئی شخص راضی ہونا سیکھ لیتا ہے تو تمام پریشانیاں یک لخت ختم ہوجاتی ہیں اور ہر موڑ پر وہ تصور کرلیتا ہے کہ یہی میرے مقدر میں تھا،اسی میں میرے لیے خیر ہے