عبید احمد آخون، سرینگر
جب اسلام نے موت کی دعا کرنے کی ممانعت کی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مصائب و مشکلات اور بیماری وغیرہ سے دوچار ہونے کے بعد انسان کو خود کشی کی اجازت دے۔ اگر کوئی شخص خود کشی کرتا ہے تو وہ فعل حرام کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔انسان کتنا ہی متقی اور پرہیز گار کیوں نہ اور کتنی ہی نیکیاں کیوں نہ کمائی ہوں اور بھلائی کے کام کیے ہو، اگر وہ دنیوی پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہوکر یہ اقدام کرتا ہے تو اس کے سارے اچھے اعمال رائیگاں ہو جائیں گے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ ذہن کی اصلاح، عمل کی اصلاح ہے اور ذہن کی تعمیر زندگی کی تعمیر۔ اقوام متحدہ کے دستور میں جو باتیں درج ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ ’’جنگوں کی ابتدا چونکہ ذہن سے ہوتی ہے اس لیے یہ دراصل لوگوں کے ذہن ہیں جہاں قیامِ امن کا مورچہ بنایا جائے‘‘۔
ذہنی ارتکاز کسی بھی کام میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ فطرت نے دماغ کی صورت میں انسان کو حیرت انگیز طاقت دی ہے۔ دماغ کو استعمال کر کے آدمی اپنی ہر کمی کی تلافی کر سکتا ہے انسان کے ذہن میں منفی خیالات ہمیشہ رد عمل کے طور پر پیدا ہوتے ہیں نا پختہ ذہن کے لوگ ایسی صورت حال پیش آنے پر چیخ اٹھتے ہے غلط فیصلے لیتے ہے اور پختہ ذہن کے لوگوں کو جب ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو وہ اس سے موافقت کر لیتے ہیں تاکہ ان کا سفر حیات کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ خودکشی کا اقدام مشکلات سے فرار کا راستہ ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ ہر وقت اور ہر منزل پر آدمی کا واسطہ نئے نئے مسائل سے پڑتا ہے اور وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا جم کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ جو شخص شدائد ومشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلد بازی و بے صبری میں متاع حیات ہی کو ختم کردے وہ موت کے بعد جو اس کی دوسری زندگی شروع ہونے والی تھی اس کو اپنے ہی کرتوتوں سے درہم برہم کر دے گا۔ اس دوسری زندگی میں بھی وہی شخص کامران ہو گا اور اس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ قرار دیا ہے۔ یہاں جو عمل اچھا یا برا کیا جائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔
خود کشی ایک غلط اور نا پسندیدہ عمل ہے جس سے آدمی کی آخرت خراب ہو گی۔ فقہ اسلامی میں یہ اصول موجود ہے کہ المشقة تجلب التیسیر․.. مشقت اپنے ساتھ سہولت لاتی ہے۔ اسی لیے فقہا نے لکھا ہے کہ ”اس دنیا میں انسان کی ساری حالتیں مشقت کی ہیں، حتٰی کہ کھانا پینا بھی مشقت سے خالی نہیں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی قدرت و طاقت دی ہے کہ وہ ان مشقتوں پر حاوی ہے نہ کہ مشقتیں انسان پر حاوی ہیں؟ خود کشی کرنے والے کے ساتھ نہ صرف خدا کا معاملہ دردناک ہو گا بلکہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے برے نتائج سے اس کے گھر والے اور عزیز واقارب دوچار ہوتے ہیں اور سماج کی ہمدردی سے بھی وہ محروم ہو جاتا ہے۔ خود کشی کرنے والا تو دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اس کے اس غلط عمل سے ان کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ اگر اسے خود کشی کرنے سے پہلے ہو جائے تو وہ اس فعل حرام کا مرتکب نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی ﷺ کو ایک مسلمان کے خود کشی کرنے کی خبر ملی تو آپ برہم ہو گئے اور فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا۔ آپ نے فرمایا ’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘حکم نبوی واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کےحقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ آپ نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًامُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا (وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا) فرما کر درد ناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔ شریعت کے اصولوں کو اگر انسان اپنے ذہن میں جگہ دے تو وہ زندگی بھر کے مشکلات، مصائب اور تکالیف کو بآسانی جھیل لے گا لیکن خود کشی نہیں کرے گا۔ حیرانی کی بات ہے کہ اسلام میں خود کشی کے بارے میں اتنی واضح تصریحات کے باوجود آج ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام ہو گئی ہے۔ معاشرے میں مسائل اور پریشانیاں ضرور بڑھ گئی ہیں لیکن ایک مسلمان کو اﷲ سے مدد طلب کرتے ہوئے ہمت و حوصلے سے ان کا مقابلہ کرے نہ کہ ہمت ہار کر اپنی زندگی کاخاتمہ کر لے اور پسماندگان کو مزید پریشانیوں کا شکار بنادے۔ بقول علامہ اقبال
موت کو سمجھے ہیں غافل اِختِتام زندگی
ہیں یہ شام زندگی صبح دوام زندگی
خود کشی کے اسباب کا حساب لگانا آسان نہیں ہے کیونکہ انسانی سوچ ہر فرد کی جدا گانہ ہوتی ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں آئے دن خود کشیوں کی خبریں ہم سُنتے ہے اگر ان خود کشیوں کے وجوہات کو ہم اسباب مان کر چلیں تو کچھ یوں ہو سکتی ہیں:
١- والدین کی ازدواجی زندگیوں میں تناو کا اثر بچوں کے ذہن پر پڑتا ہے جو آگے بڑھ کر خود کشی کا سبب بھی بنتا ہے۔ والدین پر ذمہ داری عائد
ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے نشوونما میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے ذاتی تنازعات خوش اسلوبی سے حل کریں
٢- غَمِ روزگار پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سرکاری نوکریوں کی آس میں اور اچھے پوسٹ کی تمنا دل میں لیے ہوئے جب مسلسل ناکام ہوتے ہے تو زندگی کو الوداع کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا نوجوانوں کو چاہیے کہ سرکاری نوکریوں کو حاصل کرنے کی چاہ میں اپنے وقت کا زیاں نہ کریں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے مواقع تلاش کریں یا خود کا کوئی چھوٹا موٹا بزنس شروع کریں۔ اس سلسلے میں بہت ساری سرکاری اسکیموں سے استفادہ کر سکتے ہیں،
٣- کاہل سماج میں بہت سارے ایسے افراد بھی موجود ہیں جو بغیر کچھ کیے من وسلویٰ کی چاہت رکھتے ہے محنت کیے بغیر سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب انہیں ایسی زندگی نہیں ملتی تو ذہنی امراض کا شکار ہو کر خود کشی بھی کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں میں کام کرنے کا جذبہ بچپن سے ہی پیدا کریں نہ کہ انہیں اتنا لاڈ پیار دیں کہ وہ نکمے ناکارہ ہو کر سماج پر بوجھ بن جائی۔
۴- تعلیمی کونسلنگ کی کمی: کچھ بچے دسویں جماعت کے بعد subjects اور stream کا انتخاب کرتے وقت جلد بازی کرتے ہیں اور جب آگے جا کر اُن streams میں اُنہیں کامیابی نہیں ملتی یا دلچسپی نہیں رہتی تو ذہنی کشمکش میں مبتلا
ہو کر خود کشی کو ہی اپنا سبجکٹ بناتے ہیں۔کشمیر میں کونسلنگ کی بہت زیادہ کمی ہے، طالبِ علم کون سے مضامین وقت کی ضرورت کے حساب سے Choose کرے اس پر نہ تو والدین سوچتے ہیں اور نہ subject councelors سے مشورہ لیتے ہے بس دیکھا دیکھی وہی subjects بچوں پر تھوپتے ہیں تاکہ اپنےخاندان میں اور قریبی رفقاء میں اپنی جھوٹی انا قائم رکھیں اور کچھ معاملوں میں بچے ہی غلط فیصلے لینے پر والدین کو مجبور کرتے ہیں۔ ایک اچھا subject کونسلر ہی دونوں معاملوں رہنمائی کرسکتا ہے۔
۵- منشیات کی لت میں آج کشمیر سر فہرست ریاست بن گئی ہے۔ تمباکو نوشی، شراب نوشی ودیگر نشہ آور منشیات میں نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اپنی زندگیوں کا خاتمہ خود کشی کر کے یا مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو کر انجام دیتی ہے۔ والدین پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور اُنہیں نقدی دیتے اور لیتے وقت حساب مانگیں تاکہ پیسوں کا استعمال صحیح جگہ پر ہو اور بچوں کا کن کن دوستوں سے مراسم ہے اس کی بھی خبر رکھیں اور بچوں کو وہ ماحول مُہیا کرائیں جو بے حیائی، بے شرمی، ظلم وجبر، قتل وخون، رشوت خوری اور غرض غلط کاموں سے پاک ہو.۔ آج معاشرے میں اگر اسلامی تعلیمات عام ہوں تو خود کشی کے رجحان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے، جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ مایوس ہو کر خود کشی جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔ ہمیں ﷲ کی رحمت سے بالکل مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے حکم رانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اب منہگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ کریں تاکہ لوگ اپنی قیمتی جانوں کو خود کشی کر کے ضائع نہ کریں۔ ﷲ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں اپنے نبی ﷺ کی سچی محبت سے سرفراز فرما کر ہماری انفرادی و اجتماعی مشکلات کو آسان کرے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔
[email protected]
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021