خواتین اردو صحافت کی سوا سو سالہ کہانی:تہذیب نسوان سے ہادیہ تک

عورتوں کے فعال رول کے بغیر صحت مند معاشرے کی تعمیر ممکن نہیں

ڈاکٹر صبیحہ ناہید

انیسویں صدی کو برصغیر کی میڈیا میں بڑی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اوائل میں جہاں اردو میڈیا کا قیام عمل میں آیا وہیں اس کے اواخر میں اردو خواتین میڈیا بھی وجود میں آ گیا۔ یہ امر بھلے حیرت انگیز ہو مگر خوشگوار ہے کہ ۱۸۵۷ء میں ’’غدر‘‘ کے چند برسوں بعد ۱۸۸۴ء میں سید احمد دہلوی، مولف فرہنگ آصفیہ کے ذریعے نکالا گیا پہلا خاتون رسالہ ’’اخبار النساء‘‘ شروع ہوا اور پھر چودہ برسوں بعد ۱۸۹۸ء میں اپنے زمانے کی مشہور ناول نگار محمدی بیگم کی ادارت میں کسی خاتون کے ذریعہ اولین رسالہ ’’تہذیب نسواں‘‘ کی داغ بیل پڑی۔ خواتین کے ذریعے اخبارات ورسائل کا یہ سفر گزشتہ سوا سو سال سے جاری ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو میڈیا میں خواتین نے محمدی بیگم کے ’’تہذیب نسواں سے لے کر ۲۰۲۱ء میں عطیہ صدیقہ کی زیر ادارت نکالے گئے ماہنامہ ’’ہادیہ‘’ تک کا لمبا سفر کر کے تاریخ رقم کی ہے۔
جہاں تک اردو میڈیا میں خواتین کے کردار کا تعلق ہے تو اس شعبے میں خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو، الکٹرانک یا ویب میڈیا ہو یا موجودہ دور کا مقبول عام سوشل میڈیا ہو، ہر شعبے میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کرائی ہے اور ملک وقوم کی ترقی کے لیے کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ اردو کے بے شمار رسائل وجرائد ایسے ہیں جن کی ایڈیٹر شپ کی ذمہ داری وہ بخوبی نبھا رہی ہیں۔ کئی روزنامے ایسے بھی ہیں جن میں باقاعدگی کے ساتھ ادبی، سماجی، معاشی، معاشرتی ودیگر موضوعات پر کالمز لکھ رہی ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ کسی بڑے اردو روزنامے کی ادارت کی ذمہ داری نبھانے کا موقع انہیں ابھی تک نہیں ملا ہے۔ نوئیڈا سے شائع ہونے والے ہفتہ وار چوتھی دنیا ویکلی (اردو) کی ادارت کی ذمہ داری معروف صحافی ڈاکٹر وسیم راشد نے کئی سال تک بخوبی نبھائی ہے جو کہ اردو میڈیا اور خصوصاً خواتین کے لیے فخر کی بات ہے۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر ایمانداری کے ساتھ محاسبہ کریں تو ہر دور میں تقریباً ہر شعبے میں خواتین نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، خواہ وہ سائنس کا میدان ہو، ادب وشاعری کے محفل ہو یا صحافت کے پر خطر راستے ہوں، ہر جگہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کی چھاپ چھوڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شروع کے ادوار میں ان کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور ان کی صلاحیتوں سے بے اعتناعی برتی گئی لیکن خواجہ الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، راشد الخیری اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو تعلیم نسواں سے جوڑنے والے شیخ عبد اللہ عرف پاپا میاں جیسے دور اندیش اور بالغ النظر حضرات نے عورتوں کے حالت زار پر توجہ دی۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کے ایک صحت مند سوسائٹیی کی تعمیر میں عورتوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔
دراصل خواتین کے سلسلے میں اردو صحافت کے آغاز کا پہلا سرا عورتوں کی تعلیمی بیداری اور ان کے امپاورمنٹ سے جا کر ملتا ہے۔ بیسویں صدی میں عورتوں کی تعلیمی جدوجہد اور بیداری کے بڑے محرک پاپا میاں اور ان کے دیگر رفقا کی عملی کاوشوں سے نہ صرف تعلیم نسواں کو فروغ حاصل ہوا بلکہ ان کے اندر سماجی بیداری بھی پیدا ہوئی۔ ہندوستان میں تحریک تعلیم نسواں کی انہیں کوششوں کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلم خواتین کا ایک گروہ پیدا ہوا جس نے آگے چل کر اس کی کمان سنبھالی۔ اسی عملی جدوجہد کے نتیجے میں خواتین میں بیداری اور اصلاح کی لہر پیدا ہوئی۔ آج ہمارے معاشرے میں جو پڑھی لکھی خواتین ہمیں نظر آ رہی ہیں وہ انہیں خواتین کی سعی جمیلہ کا مظہر ہیں۔
خواتین نے انیسویں صدی کے ربع آخر سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ افسانے اور مضامین کے ساتھ ساتھ بچوں کی کہانیاں بھی لکھی گئیں۔ بچوں کا اخبار ’’پھول‘‘ اور خواتین کا رسالہ ’’شریف بیبیاں‘‘، ’’تہذیب نسواں‘‘ اور دیگر نسوانی جرائد کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ کیسی اعلی تخلیقی صلاحیتوں والی خواتین اس وقت بھی موجود تھیں۔ واضح رہے کہ ’’تہذیب نسواں‘‘ ۱۸۹۸ء میں نکلا اور اس کی ایڈیٹر محمدی بیگم جو کہ شمس العلماء مولوی ممتاز علی کی بیگم اور سید امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ محمدی بیگم اپنے وقت کی مشہور ادیبہ بھی تھیں، انہوں نے تین ناول ‘صفیہ بیگم‘ آجکل اور شریف بیٹی تصنیف کیں۔ ان کے علاوہ واجدہ تبسم، رشید جہاں، عصمت چغتائی اور ان کے دیگر رفقا کے نام تو لیے جاتے ہیں لیکن ان سے پہلے کی لکھنے والیوں مثلا رشید النساء، نادر جہاں، اکبری بیگم، صغری ہمایوں مرزا، نذر سجاد حیدر اور ایسی متعدد قابل ذکر قلمکاروں کے نام گمنامی کا شکار ہیں۔
انیسویں صدی کے نصف آخر سے نسوانی رسائل کا باضابطہ آغاز ہوا۔ شروع میں اس کا استعمال خواتین میں بیداری لانے، تعلیم نسواں کو اجاگر کرنے اور تشہیرو اشاعت کے لیے کیا گیا۔ ان رسالوں اور جریدوں میں فلسف، اخلاق، طب، سائنس اور حقوق نسواں کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری سے متعلق بھی مضامین ہوا کرتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ کوششیں عورت کو ایمپاورڈ کرنے کی راہ میں ایک قدم تھیں۔ ان کی یہ خدمات اندھیرے میں چراغ کی مانند تھیں جس کا تذکرہ فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی نے اپنے آخری خطبے میں بھی کیا ہے۔
رفتہ رفتہ یہ کارواں چل پڑا اور رفیق نسواں (۱۸۸۴ء) مسز بیڈلی کے زیر ادارت لکھنئو سے، اخبار النساء (۱۸۸۴ء) زیر صدارت سید احمد دہلوی (موئلف فرہنگ آصفیہ) دہلی سے شائع ہوا۔ اخبار النساء کو تو بر صغیر میں صحافت نسواں کا اولین علمبردار اخبار مانا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے آگرہ سے ’’مفید عام‘‘ اور لکھنئو کے رفیق نسواں نکل چکے تھے۔ اسی طرح ’’شریف بیبیاں‘‘ ۱۸۹۳ء زیر ادارت منشی محبوب عالم کو نسوانی صحافت کا پہلا رسالہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ سے خاتون دہلی اور کراچی سے عصمت، بھوپال سے اخلاق نسواں، گیا سے رہبر، میرٹھ سے خاتون مشرق، لکھنئو سے نسیم انہونوی کا معروف رسالہ حریم، دہلی سے خاتون مشرق، رام پور سے الحسنات، بتول اور حجا، دہلی سے بانو، دہلی سے فلمی میگزین شمع اور ایسے ہی متعدد رسائل وجرائد منظر عام پر آئے۔
یہ وہ تفصیلات ہے جو کہ کتابی دنیا دہلی سے شائع شدہ اس موضوع پر معروف محقق ودانشور ڈاکٹر جمیل اختر کے ذریعے کیے گئے گرانقدر تحقیقی کام کی دو جلدوں پر مبنی ۲۰۱۶ء میں شائع شدہ کتاب ’’اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ اردو خواتین میڈیا کے تعلق سے بڑا ہی اہم اور غیر معمولی کارنامہ ہے۔
آزادی کے بعد اور تقسیم ہند کے نتیجے میں سیاسی اور سماجی منظر نامہ بدل گیا اور ملک کو ایک پر آشوب دور کا سامنا کرنا پرا۔ظاہر ہے اس کا اثر رسائل وجرائد پر بھی پڑا۔ رسائل بھی ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہو گئے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں رسائل وجرائد دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے رہے۔ آزادی کے بعد عورتوں کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کے امکانات مزید روشن ہو گئے اور ترقی پسندی کے رجحان نے اس کو مزید تقویت بخشی۔مسلم خواتین کا ترقی پسند رجحان والا طبقہ پہلے سے بھی موجود تھا۔ نئے حالات اور نئے تقاضوں کے تحت مزید رسالے مختلف مکتبہ فکر کے حامی افراد وجماعت کی طرف سے منظر عام پر آنے لگے، لیکن خواتین کا ہر رسالہ ادبی مزاج کے ساتھ مذہبی وسماجی فکر کا بھی حامل ہوا کرتا تھا۔
خاتون مشرق جو آزادی کے قبل سے نکل رہا تھا وہ حسب سابق بدستور جاری رہا اس کے مزاج وفکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔صرف ایڈیٹر کی رحلت کے بعد نئے ایڈیٹر بدلے گئے۔ چشمہ فاروقی جو کہ خاتون مشرق فیملی سے وابستہ ہیں انہوں نے کئی سال تک خاتون مشرق کے ادارت کی ذمہ داری بخوبی نبھائی لیکن اب وہ رسالہ مختلف وجوہات کی بنا پر برسوں سے بند ہے۔ خاتون مشرق اچھی خاصی تعداد میں شائع ہوتا تھا اور قصباتی علاقوں کی پڑھی لکھی خواتین میں خاص طور سے مقبول تھا۔ ان کے علاوہ بھی شمع افروز، بیسویں صدی، فریدہ رحمت اللہ، زریں شعائیں، نسرین نقاش، صدا، نرگس امجدی، دوران اور عطیہ صدیقہ ماہنامہ ویب میگزن کامیابی کے ساتھ نکال رہی ہیں۔
آزادی کے بعد نسوانی رسائل میں دہلی اور اس کے گرد ونواح کو برتری حاصل رہی ہے۔ترقی پسند نظریات کا ترجمان دو ماہی سلسلہ ’’ماحول‘‘ ۱۹۵۱ء میں دہلی سے شائع ہوا۔ ادبی رسالوں میں اس کا شمار ایک معیاری رسالوں میں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ دہلی سے صبح، گلابی کرن، مشرقی آنچل، پاکیزہ آنچل، مشرقی دلہن رام پور سے حجاب اور بتول اور اس طرح کے متعدد ڈائجسٹ اور رسائل مقبول عام ہوئے۔ ان ڈائجسٹوں کا مقصد بھی خواتین میں علمی ذوق پیدا کرنا، ان میں ذہنی بیداری پیدا لانا، ان کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، امور خانہ داری سے واقف کرانا اور تربیت اولاد کا گر سکھانا رہا ہے۔
علی گڑھ سے راشدہ خلیل کے زیر ادارت ’’بزم ادب‘‘ ان چنندہ رسالوں میں سے ایک ہے جسے ہم مخصوص طور پر خواتین کا، خواتین کے ذریعے اور خواتین کے لیے شائع ہونے والا جریدہ کہہ سکتے ہیں۔
اردو صحافت میں نسائی خدمات کا یہ کارواں تو رواں دواں ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح اردو میڈیا خواتین کی حصہ داری سے ابھی بھی بہت تشنہ ہے، خاص طور سے اردو چینلز میں ان کی حصہ داری خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پرنٹ میڈیا میں تو سعدیہ دہلوی، طلعت سلیم، شمع افروز زیدی، غزالہ صدیق، زرینہ صدیقی وغیرہ چند نام تو دکھائی دیتے ہیں لیکن الکٹرانک اور ویب اردو میڈیا میں نظر دوڑانے پر بھی خواتین کی وہ حصہ داری نہیں دکھائی دیتی جس کی وہ مستحق ہیں۔ یہ واقعتا ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ البتہ سیما چشتی، عارفہ خانم، نغمہ تبسم ودیگر خواتین نے اپنی کارکردگی اور قبولیت کا مختلف چینلز پر لوہا منوایا ہے۔
ان تمام تفصیلات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی ملک کی میڈیا میں اردو خواتین میڈیا کو اخبارات ورسائل کی تعداد، تنوع اور کردار کے لحاظ سے سب سے زیادہ سبقت حاصل ہے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ اردو خواتین میڈیا کا یہ کردار سامنے نہیں لایا جا سکا جس کے سبب یہ پہلو دب کے رہ گیا۔ ’’گھر کی چہار دیواری تک محدود‘‘ خواتین جیسے الزام کی شکار خواتین نے میڈیا میں جو زبردست کارنامہ انجام دیا ہے یہ اسی کا تو مظہر ہے کہ آج اردو معاشرے میں غیر معمولی بیداری دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں ایک طرف ناخواندگی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف تعلیم کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، حتی کہ اعلٰی تعلیم حاصل کر کے یہ خواتین ملک وملت کو خود اختیار بنانے اور ترقی کے دوڑ میں شامل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ برصغیر کی میڈیا میں ان کا سوا سو سال یا اس سے زیادہ کا یہ سفر سنہرے حروف میں لکھنے کے لائق ہے۔ تاریخ اسے ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتی۔
(مضمون نگار کالم نویس صحافی ومصنفہ ہیں)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 تا 16 اپریل  2022