ابونصر فاروق، پٹنہ
یہ وہ لوگ ہیں جو (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور اُن سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ، ہمیں تو اپنے رب سے اُس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔ (الدہر:۷تا۱۰)
موجود ہ مسلم معاشرے میں اسلام کی جو تشریح و تعبیر کی جاتی رہی ہے اُس کے سبب اسلام صرف ایک مذہب بن کر رہ گیا ہے، جس میں کچھ مراسم عبادات، کچھ ورد و وظائف اور کچھ دعا درود کو ہی اعلیٰ درجہ کی عبادت سمجھ لیا گیا ہے۔ اسلام کا جو سماجی خدمت و اصلاح کا پہلو ہے وہ دب کر رہ گیا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ انسانوں پر دو طرح کے حقوق کا ادا کرنا فرض کیا گیا ہے۔ ایک اللہ کا حق ہے اور دوسرا اللہ کے بندوں کا حق۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اُس نے جو کچھ بندوں پر فرض کیا ہے اُن کو پوری ذمہ داری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اور بندوں کا حق یہ ہے کہ اللہ نے انسانوں پر انسانوں کے جو حقوق طے کیے ہیں اُن کو بھی پوری ذمہ داری، دیانت داری اور خوش دلی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اللہ کا حق ادا کرنے میں کمی کوتاہی ہو جائے گی تو اللہ رحمان و رحیم ، غفور و کریم ہونے کی وجہ سے توقع ہے کہ وہ اُن کو معاف کر دے گا لیکن بندوں کے حقوق ادا نہیں ہوں گے تو وہ معاف نہیں ہوں گے۔ چنانچہ جہاں اللہ کے حقوق کا ادا کرنا ضروری ہے وہی اس کے بندوں کے بھی حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن موجودہ مسلم معاشرے میں بندوں کے حقوق سب سے زیادہ پامال کیے جارہے ہیں۔
اوپر کی آیات میں کہا جا رہا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو ہر طرف ایسی آفت پھیلی ہوئی ہوگی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہوگا۔ اُس وقت اللہ کے وہ بندے جو دنیا میں اللہ کو خوش کرنے کے لیے قیدی، یتیم اور مسکین کو کھانا کھلاتے تھے اور اُن کی دوسری ضرورتیں پوری کرتے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کر رہے ہیں ،اس لیے تم سے ہمیں نہ کوئی بدلہ چاہیے نہ شکریہ۔ ہم تو یہ سب اپنے اللہ کو راضی اور خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ ایسے نیک بندے اُس روز کی آفت سے بھی اور دنیا میں بھی بلاؤں اور آفتوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔سورہ المدثر میں فرمایا گیا کہ جنت والے جہنم والوں سے جہنم میں جانے کی وجہ پوچھیں گے تو وہ اقرار کریں گے کہ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ جو آدمی نماز تو پڑھتا ہے لیکن مجبور، معذور اور ضرورت مند کی مدد نہیں کرتا ہے، اگر اُس کی نماز قبول نہیں ہوئی تو ضرورت مند کا حق نہیں ادا کرنے کے جرم میں جہنم میں چلا جائے گا۔ اس لیے نماز کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں کی مدد کرنا بھی انتہائی ضروری اور لازمی ہے:’’وہ مجرموں سے پوچھیں گے’’ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟‘‘ وہ کہیں گے’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے، اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گیا۔ ‘‘اُس وقت سفارش کرنے والوں کی کوئی سفارش اُن کے کسی کام نہ آئے گی‘‘ ۔ (المدثر:۴۰تا۴۸)۔حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا : بندہ کہتا ہے یہ مال میرا ہے، یہ مال میرا ہے حالانکہ اُس کے لیے مال میں تین حصے ہیں۔(۱) جو کھالیا وہ ختم ہوا جو پہن لیا وہ بوسیدہ ہوا۔(۲)اور جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کیا وہی اپنے لیے جمع کیا۔(۳)اس کے علاوہ جو مال ہے تو آدمی قبر میں چلا جائے گا اور مال اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ جائے گا۔ (مسلم)۔ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو میرے محتاج بندوں پر اور دین کے کاموں پر خرچ کر ، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ (بخاری /مسلم)
اوپر کی دونوں حدیثوں میں نبی ﷺفرما رہے ہیں کہ انسان کے پاس جو مال ہے اُس میں نفع بخش وہ حصہ ہے جو اُس نے ضرورت مندوں پر خرچ کر دیا۔ جو استعمال کر لیا وہ ختم ہو گیا، جو چھوڑ کر گیا وہ دوسرو ں کے پاس چلا گیا۔دوسری حدیث میں یہ خوش خبری دی جارہی ہے کہ جو آدمی اللہ کے محتاج بندوں پر اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کی دنیا کی تمام ضرورتوں پر خرچ کرنے والا بن جائے گا۔ لوگ مستقبل کے لیے انشورنس کراتے ہیں جس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ میرے پاس انشورنس کرا لو۔ میں تمہاری تمام ضرورتوں پرخرچ کروں گا۔ اندازہ کیجیے کہ ضرور ت مند بندوں پر مال خرچ کرنا کتنا قیمتی اور اعلیٰ عبادت اور کیسے نفع کا کاروبار ہے۔
حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہﷺ بنی عمرو بنی عوف کے محلے میں تشریف لے گئے، چہار شنبہ کا دن تھا،وہاں حضورﷺ نے فرمایا: اے گروہ انصار! انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ہم حاضر ہیں ارشاد فرمائیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا: جاہلیت کے زمانہ میں جب تم اللہ کی پرستش نہیں کرتے تھے، تب تو کمزوروں اور بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے تھے، تم غریبوں کو اپنا مال دیتے اور مسافروں کی مدد کرتے تھے، لیکن جب اللہ نے اسلام اور اس کے نبی ﷺپر ایمان لانے کی توفیق دی ، تو اب تم لوگ اپنے باغوں کی حفاظت کی خاطر ان کے گرد دیواریں اٹھاتے ہو؟ یاد رکھو کوئی آدمی تمہارے باغ کا پھل کھا لے تو اس پر تمہیں اجر ملے گا۔ اگر درندے یا چڑیاں کھالیں تو اس پر بھی تم اجر کے مستحق ہو گے۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگوں نے حضورصلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن کر اپنے باغات کے دروازے ڈھا دیے۔ ایسے تیس دروازے تھے جو ڈھا دیے گئے۔(المنذری بحوالہ مستدرک حاکم)
اس حدیث میں رسول اللہﷺ باغ والوں سے فرما رہے ہیں کہ جب تم اہل ایمان نہیں تھے تب تو ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے اب جبکہ ایمان کی دولت سے مالامال ہو گئے تو باغوں میں دروازہ لگا کر بند کر دیتے ہو۔یہ سننا تھا کہ باغ والوں نے اپنے باغوں کے دروازے ضرورت مندوں کے لیے کھول دیے کہ جس کو جتنی ضرورت ہے لے جائے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: محتاج و نادار لوگوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا، اُس آدمی کی طرح ہے جو اللہ کی راہ(جہاد) میں سرگرمی دکھا رہا ہے۔(راوی کا بیان ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: ایسا آدمی اس تہجد گزار کی طرح ہے جو نوافل کی ادائیگی سے تھکتا نہیں ہے، یا اُس روزہ دار کی طرح ہے جو روزے رکھنا نہیں چھوڑتا۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث میں جس آدمی کا ذکر کیا جا رہا ہے اُس کے پاس مال و دولت نہیں ہے اور وہ ضرورت مند کی مدد نہیں کر سکتا ہے، لیکن وہ ضرورت مند کی مدد کرنے کے لیے دوسرے مالداروں کے پاس دوڑ دھوپ کر کے اُن کے ذریعہ ضرورت مندوں کی مدد کروا رہا ہے۔ دیکھیے اس انسان کو اس عمل خیر کی جو نیکی اور ثواب ملے گا کیا کوئی صرف تہجد پڑھنے والا اور نفل روزے رکھنے والا اُس کی برابری کر سکتا ہے۔ کاش مسلم ملت کے مالدار لوگ قرآن کی ان آیتوں اور احادیث رسول ﷺکے مضامین کو پڑھیں، ان پر غور کریں، ان کے تقاضوں کو سمجھیں اور اپنا مال اللہ کے ضرورت مند اور محتاج بندوں پر خرچ کرنا شروع کر دیں تو دنیا کی آفتوں، بلاؤں اور بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں گے اور آخرت کے دن کے عذا ب اور بدحالی سے بھی نجات پائیں گے۔
صراحی جھک کے پیمانے بھرا کرتی ہے محفل میں
سلیقہ سیکھ لیں جینے کا اس سے مال و زر والے
(صارمؔ)