آج کا میڈیا
ہندوستانی میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی شکایت ایک دنیا کو اس دور سے ہے کہ جب یہ صرف پریس کی شکل میں تھا، ٹی وی چینلوںنے اپنے پیر نہیں پسارے تھے۔ پریس اس وقت بھی امیر گھرانوں اور امیر سیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں تھا اور حکومت تو امیر ہوتی ہی ہے۔ آج جب کہ پریس میڈیا بن گیا ہے، صورت حال اور زیادہ سنگین ہوگئی ہے۔ میڈیا کی ہر چیز امیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ جرنلسٹ اور اینکر ان کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ اس میڈیا کے ہاتھوں جو لوگ پریشان اور ہراساں ہوئے ہیں یا جن کمیونٹیوں یا برادریوں کے افراد اس زیادتیوں سے متاثر ہوئے ہیں، وہ آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں، لیکن انہیں کوئی نہیں سنتا۔ سوشل میڈیا کی یلغار سب سے زیادہ ظلم ڈھارہی ہے۔ ہر طبقے کے امیر زادے جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں ۔ میڈیا اپنی سیاسی فکر اور اپنے ذرائع دولت کے سامنے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ حتی کہ اب عدالتوں کے معاملات میں بھی دخل دینا شروع کردیا ہے۔ مسئلہ کوئی بھی ہو، ٹی وی چینلوں پر اس پر اس طرح بحث ہوتی ہے کہ عدالتوں میں کیا ہوتی ہوگی اور فیصلے بھی سنادیے جاتے ہیں، ٹی وی اینکر بحث میں حصہ لینے والوں کے منہ میں اپنی بات ڈالتے ہیں اور پھر ان کی بات سے اپنا مقصد اخذ کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کیا کہا
یہی وجہ ہے کہ اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی میڈیا کی اس بے راہ روی کا نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے ایک بیان میں کہا کہ میڈیا کنگارو کورٹس چلارہا ہے۔ بیشتر چینلوں کے اینکرس برسر اقتدار طبقے کے مقاصد پورے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ میڈیا جمہوری قدروں کو کمزور کررہا ہے۔ بڑے انگلش روزناموں اور ذمہ دار افراد نے چیف جسٹس کے بیان کی تعریف کی ہے۔ روزنامہ ہندو میں ایک صاحب نے چیف جسٹس کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر یہ لوگ نازک اور حساس مسائل پر اپنے ناظرین کو خام اور بے بنیاد کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ بیشتر چینل اور اخبارات مالدار لوگ اور امیر سیاستداں چلاتے ہیں اور میڈیا ان ہی کے مفادات کی تکمیل کرتا ہے۔ مذہبی اقلیتوں اور کمزور ذاتوں کو یہ میڈیا نرم چارا سمجھتا ہے۔ خاص طور سے گزشتہ آٹھ سال کے عرصہ میں ان طبقات پر جس طرح حملے ہوئے اور ہورہے ہیں اور جس طرح ان کے حقوق پامال کیے گئے ہیںاس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس رجحان کو ہوا دینے میں بھی مین اسٹریم میڈیا نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔
کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے
تھوڑی سے خاطر جمع سوشل میڈیا کے ایک چھوٹےسے حصہ کی وجہ سے رکھی جاسکتی ہے۔ یو ٹیوب کے کچھ نیوز چینل اور ہندی، اردو کے چھوٹے اخبارات یقیناً موجود ہیں جو پوری جرات اور دیانت داری کے ساتھ حقائق پیش کرتے ہیں۔ بڑے چینلوں کے طرز پر لندن، نیویارک، واشنگٹن، انقرہ ، تہران، ریاض اور دیگر ملکوں کے شہروں میں موجود مبصرین کو ایک ساتھ جوڑ کر ان سے سوالات کرتے ہیں اور یہ مبصرین بلا تردد حقائق پر بات کرتے ہیں۔ تاہم میڈیا کے اس حصے کی پہنچ زیادہ دور تک نہیں ہے لیکن پھر بھی ان چینلوں کی جرات رندانہ کی داد دی جانی چاہیے کہ پورے زور کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں۔چیف جسٹس رمنا کی نصیحت سے کچھ فرق پڑے گا، اس کی امید تو نہیں کیوں کہ اس میڈیا کے سرپر حکومت کا ہاتھ ہے جبکہ حق گو چینلوں اور اخباروں کو وہ پریشان کرتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر پریس کونسل آف انڈیا پریس کلب آف انڈیا اور دیگر ذمہ ادارے اور افراد صورت حال کا نوٹس لیں اور چیف جسٹس ریمارکس کی بنیاد پر کچھ کرنے کی عملی کوشش کریں۔ سوشل میڈیا کا معروضی حصہ اس سلسلے میں بھی کچھ کرسکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022