خبر و نظر
پرواز رحمانی
سنگھ کی سالانہ رپورٹ
آر ایس ایس ہر سال ایک رپورٹ جاری کرتی ہے جو اس کے سال بھر کی کارکردگی اور جائزے پر مبنی ہوتی ہے۔ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ سنگھ کے کام میں کہاں کہاں کمی رہ گئی نیز، اس سال کون کون سے نئے چیلنجز سنگھ کو پیش آئے اور کن ’’خطرات‘‘ نے سر اٹھایا۔ یہ رپورٹ سنگھ کی سب سے بڑی اور اعلیٰ اختیاراتی تنظیم اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا (اے بی پی ایس) کے اجلاس میں پیش کی جاتی ہے۔ اس سال یہ اجلاس احمد آباد میں ہوا جس میں یہ رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ کا سب سے خطرناک اور سنسنی خیز حصہ یہ ہے کہ اس میں ایک کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا جو چھل کپٹ اور سازشوں کے ذریعے سرکاری مشینری میں گھس پیٹھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملکی اقتدار پر سازشوں کے ذریعے قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اپنی تعداد کی بنا پر جلسے جلوس اور مظاہرے کر کے اپنے ناجائز اور غیر قانونی مطالبات منوانا چاہتی ہے۔ ہندووں پر حملے کر کے ہندو لیڈر شپ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ملکی آئین اور آزادی مذہب سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس ’’کمیونٹی‘‘ کو طاقت کے زور پر روکنا ضروری ہے۔ اسے ہر قیمت پر کنٹرول کیا جانا چاہیے ورنہ ملک میں ہندووں کے لیے حالات بد سے بدتر ہو جائیں گے۔ ہندو کچھ تو بیدار ہیں، انہیں مزید بیدار ہونا ہے‘‘۔
کوئی نئی بات نہیں ہے
رپورٹ میں اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاپولر فرنٹ کا نام خاص طور سے لیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان سازشوں کے پیچھے وہی ہے۔ تبدیلی مذہب کو روکنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا میں اس رپورٹ پر تبصرے بھی ہوئے ہیں۔ سبھی نے ’’کمیونٹی‘‘ کی شناخت کر لی ہے کہ یہ کمیونٹی مسلمانوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آر ایس ایس کی اس دستاویز پر کسی کو تعجب بھی نہیں ہے اس لیے کہ سبھی جانتے ہیں کہ مذہبی اقلیتیں اول روز سے اس کے نشانے پر ہیں۔ اپنے لٹریچر میں اس نے مسلمانوں کو دشمن قرار دیا ہوا ہے اور اسی کے مطابق اپنا رویہ روا رکھا ہے۔ اس لیے اب اس کے اس نعرے پر کہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کوئی یقین نہیں کرتا۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ اس دستاویز میں کہا گیا ہے اس پر سنگھ پہلے سے ہی عمل کرتا آرہا ہے۔ البتہ یہ دیکھنا ہے کہ جو ’’کمیونٹی‘‘ سرکاری مشینری میں گھس پیٹھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اسے باز رکھنے کے لیے وہ کیا کچھ کرتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مسلمان یا ان کا کوئی طبقہ سرکاری مشینری پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ہاں اکا دکا کچھ لڑکے لڑکیاں کالجوں میں تعلیم حاصل ضرور کر رہے ہیں اور غالبا یہی بات سنگھ کو ناگوار گزر رہی ہے، اسی لیے اس نے کرناٹک کی ایک گرلز کالج میں حجاب کے نام پر مسلم طالبات کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔
پالیسیاں اور ارادے
سنگھ کی پالیسیوں اور ارادوں کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ کیا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ ملک کی تعمیر وترقی کا جو دم بھرتا ہے، وہ دیگر پارٹیوں اور لوگوں سے بالکل مختلف ہے۔ دیش بھکتی اور راشٹر واد کے نام پر وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صرف ایک مخصوص طبقے کی ترقی کا ایجنڈا ہے۔ سوشل میڈیا میں اس پر مباحث ہوتے رہتے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا پر بتوسط امبانی اور اڈانی حکومت کا قبضہ ہے لیکن سوشل میڈیا آزاد ہے اور مقدور بھر حقائق دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کی آواز بھی دور دور تک پہنچ رہی ہے۔ سنگھ کو مسلمانوں کے خلاف نیا مورچہ کھولنے کا حوصلہ اس لیے ملا کیوں کہ یو پی کے حالیہ انتخابات اس نے کسی طرح جیت لیے جو اس کی زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اب ایک ’خاص کمیونٹی‘ کے خلاف وہ یا حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے اس سے بس باخبر رہنا ہے۔ مشتعل کسی صورت میں بھی نہیں ہونا ہے۔ کچھ مبصرین نے بھی شہریوں کو خبردار کیا ہے۔ مسلم علما اور دانشور ایمان کی روشنی میں بیانات دیں۔ مسلم سیاسی لیڈر جذبات کو قابو میں رکھیں۔ سول سوسائٹی اور شریف انسانوں سے روابط رکھیں۔ حقیقت حال وہ نہیں ہے جو بتائی جا رہی ہے۔ اسلامی تاریخ نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ یہ دور بھی گزر جائے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 تا 02 اپریل 2022