گمشدہ فائلز : حقائق اور افسانہ

کشمیری پنڈتوں کو ستانے والے ہی اب شور مچا رہے ہیں

افروز عالم ساحل

فلم ’کشمیر فائلس‘ کے بہانے کشمیری پنڈت ایک بار پھر چرچے میں ہیں۔ ان سے متعلق طرح طرح کے اعداد وشمار پیش کیے جا رہے ہیں۔ فلم ’کشمیر فائلس‘ کے ڈائریکٹر وویک اگنیہوتری 1989 سے لے کر اب تک مرنے والے کشمیری پنڈتوں کی تعداد چار ہزار بتا رہے ہیں۔ اسی طرح طرح مختلف الگ لوگ مختلف اعداد وشمار پیش کر رہے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ صحیح اعداد وشمار کیا ہیں اور سرکاری اعداد وشمار کیا ہیں۔

حکومت ہند کے وزارت داخلہ نے حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے تحت ایک سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ ’جموں وکشمیر میں ہنگامہ آرائی کے دوران 1989 سے اب تک کل 219 کشمیری پنڈت مارے گئے ہیں۔‘ یہ معلومات حکومت ہند کی ڈپٹی سکریٹری مسز سلیکھا نے 7 مئی 2013 کو دہلی کے یوگیش چھابرا نامی ایک شخص کے ذریعہ داخل کردہ آرٹی آئی کے جواب میں دی ہیں۔ مارچ 2015 میں جموں وکشمیر کی ریاستی حکومت نے قانون ساز اسمبلی میں بھی یہی بتایا کہ 1989 سے اب تک کل 219 کشمیری پنڈت مارے جا چکے ہیں۔ یہ اعداد وشمار جموں وکمشیر میں ریونیو، ریلیف اور بازآبادکاری کے وزیر رمن بھلا نے سید بشارت بخاری کے ایک سوال کے جواب میں پیش کیے تھے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ مارچ 1989 سے 31 دسمبر 1990 کے درمیان 129 کشمیری پنڈتوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

یہی نہیں بلکہ 2003 میں جب مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی، جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ندیمرگ میں 11 خواتین اور دو بچوں سمیت 24 کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا۔ واضح رہے کہ وزرات داخلہ کے 219 میں یہ اعداد وشمار بھی شامل ہیں۔

لیکن 20 دسمبر 2017 کو راجیہ سبھا کے رکن امر سنگھ نے راجیہ سبھا میں جب یہ سوال پوچھا کہ ’کیا یہ سچ ہے کہ جموں و کشمیر حکومت نے 1990 کی دہائی میں کشمیری پنڈتوں کے قتل کے سلسلے میں بڑی تعداد میں درج کی گئی ایف آئی آر کی جانچ نہیں کرائی ہے؟‘ تو اس کے جواب میں وزارت داخلہ کے وزیر مملکت ہنس راج گنگارام اہیر نے تحریری طور پر یہ جواب دیا کہ ’جموں وکشمیر ریاستی حکومت کی رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر پولیس نے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کشمیری پنڈتوں کے قتل کے 174 مقدمات درج کیے ہیں۔ تحقیقات کے بعد 30 کیسز میں چالان کیے گئے اور 142 کیسز میں ناقابل شناخت معلومات موصول ہوئیں۔ ایک کیس میں جرم ثابت ہو چکا ہے۔‘

کشمیری پنڈتوں کے معاملے پر مرکزی حکومت کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ امر سنگھ کے ذریعے پوچھے گئے سوال اور وزارت داخلہ کے ذریعے جواب سے لگایا جا سکتا ہے۔

امر سنگھ نے مزید یہ سوال پوچھا تھا کہ ’کیا یہ سچ ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی تنظیم کے رہنماؤں نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے درخواست بھی کی تھی لیکن مذکورہ درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی؟ اور اگر کی گئی تھی تو اس کی کیا خاص وجوہات ہیں اور کشمیری پنڈتوں کے قتل کی تحقیقات شروع کرنے کے لیے حکومت جموں وکشمیر کو کب تک ہدایات جاری کرنے کا خیال ہے؟ امر سنگھ کے ان دونوں سوالوں کے جواب میں وزیر مملکت ہنس راج گنگارام اہیر نے تحریری طور بتایا کہ ’اس وزارت میں کشمیری پنڈتوں سمیت مختلف علاقوں سے وقتاً فوقتاً شکایات حاصل ہوتی رہتی ہیں اور انہیں مناسب کارروائی کے لیے ریاست جموں وکشمیر کی حکومت کو بھیج دیا جاتا ہے۔

کیا کہتے ہیں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کمیشن کے اعداد وشمار؟

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کمیشن کی ’سالانہ رپورٹ 1999-2000‘ میں لکھا ہے کہ ’مرکزی حکومت کے مطابق جموں وکشمیر ریاست میں 1988-1997 کے درمیان شورش اور دہشت گردی کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 16,850 تھی، جن میں 710 ہندو شہری اور 6,219 مسلم شہری شامل تھے۔‘

یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ مرکزی حکومت نے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کمیشن کو اس عرصے کے دوران وادی میں مارے جانے والے 157 لیڈروں کی فہرست بھی فراہم کی تھی، اس فہرست کے مطابق مرنے والے لیڈروں میں 37 ہندو اور 120 مسلمان تھے۔

کیا کہتے ہیں خود کشمیری پنڈتوں کے اعداد وشمار

کشمیری پنڈتوں کی مشہور تنظیم ’کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی‘ (کے پی ایس ایس) نے اپنی ایک سروے رپورٹ سال 2011 میں جاری کی تھی۔ اس سروے رپورٹ میں تنظیم نے بتایا تھا کہ 1990 سے 2011 کے درمیان ہلاک ہونے والے کشمیری پنڈتوں کی تعداد 399 تھی۔

یہی نہیں، ان دنوں سوشل میڈیا پر 22 ستمبر 1990 کو اس وقت کے 23 نامور کشمیری پنڈتوں کے ایک گروپ کے ذریعے سری نگر کے ’الصاف‘ اخبار کو لکھا گیا کھلا خط بھی وائرل ہو رہا ہے، جس میں صاف طور پر کہا گیا کہ جموں وکشمیر کے اس وقت کے گورنر جگموہن نے کشمیری پنڈتوں کے کمیونٹی کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنایا تھا، اور اس میں بی جے پی، آر ایس ایس اور شیو سینا کا بھی کردار تھا۔

کتنے کشمیری پنڈتوں کی ہوئی تھی نقل مکانی

سوال کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کا بھی ہے۔ فلم ’کشمیر فائلس‘ کے بہانے سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 5 تا 6 لاکھ کشمیری پنڈتوں نے 1990 میں ہجرت کی تھی۔ لیکن ہفت روزہ دعوت نے تحقیق میں پایا کہ یہ اعداد وشمار بھی غلط ہیں۔

حکومت ہند کے وزارت داخلہ میں وزیر مملکت نتیانند رائے نے راجیہ سبھا میں دگ وجئے سنگھ کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں 2 فروری 2022 کو تحریری طور پر بتایا کہ ’جموں وکشمیر حکومت کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق 44,684 بے گھر کشمیری خاندان رجسٹرڈ ہیں، جن میں 1,54,712 افراد شامل ہیں۔‘ اس سے قبل 28 جولائی 2021 کو نتیانند رائے نے راجیہ سبھا میں سنجے راؤت کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں تحریری طور پر بتایا تھا کہ ’جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے 1990 میں قائم کیے گئے ریلیف آفس کی رپورٹ کے مطابق، 44,167 رجسٹرڈ کشمیری مہاجر خاندان ہیں، جنہیں 1990 میں سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے وادی چھوڑنا پڑا تھا۔ ان میں سے رجسٹرڈ مہاجر ہندو خاندانوں کی تعداد 39,782 ہے۔‘ یعنی ان معلومات سے یہ واضح ہے کہ بے گھر ہونے والے کشمیریوں میں 4,385 مسلم خاندان بھی شامل ہیں۔

لیکن 17 مارچ 2020 کو وزارت داخلہ کے وزیر مملکت کشن ریڈی نے لوک سبھا میں تحریری طور پر بتایا ہے کہ 1990 کی دہائی میں وادی کشمیر میں دہشت گردی کے آغاز کی وجہ سے 43,618 کشمیری خاندان جموں، 19,338 خاندان دہلی اور 1,995 ملک کی دیگر ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ اس طرح کل 64,951 کشمیری خاندان بے گھر ہوئے تھے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ان اعداد وشمار میں تمام مذہب کے خاندانوں کے اعداد وشمار شامل ہیں۔

اس سے قبل مارچ 2015 میں ریاست جموں وکشمیر کی حکومت نے قانون ساز اسمبلی میں ریونیو، ریلیف اور بازآبادکاری کے وزیر رمن بھلا نے بتایا تھا کہ 38,000 خاندان جن میں 34,202 پنڈت، 2,168 مسلم اور 1,749 سکھ خاندان شامل ہیں جو وادی سے ملک کے دوسرے حصوں میں ہجرت کر چکے ہیں۔

وہیں 29 فروری 2000 کو لوک سبھا میں جو اعداد وشمار پیش کیے گیے، اس کے مطابق، ’51,122 کشمیری مہاجر خاندان ملک کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جموں (29074 خاندان) اور دہلی (19338 خاندان) میں مقیم ہیں۔

کشمیری مہاجرین کے گھروں پر حکومت کا قبضہ

17 جولائی 2002 کو راجیہ سبھا میں منور حسن نے پوچھا تھا کہ ’کیا یہ سچ ہے کہ مرکزی حکومت اور جموں وکشمیر کی ریاستی حکومت کے مختلف محکموں نے بے گھر کشمیری پنڈتوں ودیگر مذہب کے افراد اور ان کی مذہبی اداروں کی جائیدادوں پر مالکین کی رضامندی لیے بغیر عارضی/مستقل طور پر قبضہ کر لیا ہے؟‘ اس کے جواب میں تحریری طور پر وزرات داخلہ کے اس وقت کے وزیر مملکت ودیاساگر راؤ نے بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے مختلف محکموں نے بے گھر کشمیری مہاجرین کی جائیدادوں پر ان کے مالکین کی رضامندی لیے بغیر قبضہ کر رکھا ہے کیونکہ ریاست میں سیکیورٹی کی صورتحال پیچیدہ ہے۔‘

جموں کے دھماکوں میں آر ایس ایس کا ہاتھ

اس دور میں جب کشمیری پنڈتوں پر ظلم ہو رہا تھا، اس دور میں جموں کے کچھ بم دھماکوں میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کی بات بھی سامنے آئی تھی۔ اس بارے میں 21 دسمبر 1992 کو ٹائمس آف انڈیا نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ یہ رپورٹ ٹائمس آف انڈیا کے صحافی دوارکا پرساد شرما نے لکھی تھی۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کے پاس اس رپورٹ کی کاپی موجود ہے۔

ٹائمس آف انڈیا کے اس رپورٹ میں صاف طور پر لکھا گیا تھا، ’جموں وکشمیر حکومت نے کہا ہے کہ جموں میں حال ہی میں ہوئے کچھ بم دھماکوں میں آر ایس ایس کا ہاتھ تھا، بشمول ماہ اکتوبر میں یہاں کے ایک اسکول میں ہونے والا بم دھماکہ۔ یہ سرکاری انکشاف 15 دسمبر 1992 کے سرکاری نوٹیفکیشن میں درج الزامات کا مرکز ہے، جس میں آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو جموں اور کشمیر فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 1983 کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔‘

اس رپورٹ میں آگے درج ہے، ’سرکاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 9 دسمبر 1992 کو یہاں گیتا بھون میں منعقدہ تینوں تنظیموں کی مشترکہ میٹنگ میں تینوں تنظیموں کے کارکنوں نے اینٹیں اور دیگر مواد اس بات کے ثبوت کے طور پر دکھایا کہ بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا ہے، تاکہ اس کے نتیجے میں ریاست میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی اور نفرت پیدا کی جا سکے۔‘

اس رپورٹ میں ٹائمس آف انڈیا نے یہ بھی لکھا ہے کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کے حکام کے پاس تینوں تنظیموں کے خلاف دیگر حقائق اور مواد موجود ہیں جن کا انکشاف کرنا وہ مفاد عامہ کے خلاف سمجھتے ہیں۔

ٹائمس آف انڈیا کی اس رپورٹ میں مزید یہ بھی ہے کہ ’جموں کے علاقے میں حالیہ بم دھماکوں کا سلسلہ مختلف طور پر کشمیر اور پنجاب کے عسکریت پسندوں اور پاکستانی ایجنٹوں سے منسوب کیا گیا تھا، یہاں تک کہ 26 اکتوبر کو یہاں کے شری رنبیر ہائر سیکنڈری اسکول میں بم دھماکہ ہوا تھا جس میں دو کشمیری پنڈت طالب علموں میں سے ایک ٹائم بم لے کر جا رہا تھا۔ اس کے لگنے سے پہلے ہی پھٹنے سے وہ مارا گیا۔ ان کا ہدف وادی کے طلباء تھے جنہیں یہاں محفوظ حالات میں امتحان دینے کے لیے لایا گیا تھا۔‘

ٹائمس آف انڈیا کی اس رپورٹ کے مطابق، ’زندہ بچ جانے والے نوجوان سے اس وقت پوچھ گچھ کی گئی جب وہ ہسپتال میں صحت یاب ہو رہا تھا، لیکن ان باتوں کو اس بنیاد پر خفیہ رکھا گیا کہ کوئی بھی انکشاف کیس کی مزید تفتیش میں رکاوٹ بنے گا۔‘

ٹائمس آف انڈیا کی اسی رپورٹ میں یہ بھی ہے کہ ’اس واقعہ سے جموں میں خوف وہراس پھیل گیا ہے۔ ان حقائق نے خطے میں عسکریت پسندی سے متعلق واقعات پر ایک نیا نقطہ نظر فراہم کیا تھا اور پولیس کو بھی چونکا دیا تھا، جس نے اس وقت تک تمام دھماکوں کا ذمہ دار عسکریت پسندوں کو ٹھہرایا تھا۔ شیو سینا نے جو ’سنگھ پریوار‘ کے ساتھ آنکھ ملا کر نہیں دیکھتی تھی، یہاں تک کہ پنڈت مہاجروں کو بے دخل کرنے کی کال بھی دی تھی کیونکہ وہ جموں کی مہمان نوازی کا غلط استعمال کر رہے تھے اور یہاں فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں پنڈت برادری کو چند ہفتے بے چینی کے عالم میں گزارنے پڑے۔‘

ٹائمس آف انڈیا اپنی اسی رپورٹ میں یہ بھی لکھتا ہے کہ ’لوگ گزشتہ سال یہاں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر ویر بھون میں ہونے والے بم دھماکے کو بھی یاد کرتے ہیں، جس میں دو پنڈت نوجوان زخمی ہوئے تھے۔ جب کہ آر ایس ایس نے اس کا الزام عسکریت پسندوں پر لگایا تھا، ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ٹائم بم بناتے وقت پھٹا ہو گا۔ یہ معاملہ اس وقت تک پراسرار طور پر التوا میں پڑا ہوا تھا جب تک کہ اسکول کے دھماکے کے بعد یہ تجویز نہیں کیا گیا تھا کہ دونوں کے درمیان کوئی تعلق ہے۔‘

ٹائمس آف انڈیا کی اس رپورٹ کے مطابق، اس وقت کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی طرح مختلف سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اسکول دھماکے کی تحقیقات کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور عوام کو آگاہ کیا جائے۔۔۔ یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ حکومت نے ان اداروں اور ان سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اس سرکاری آرڈر کے خلاف نمائندگی کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا تھا لیکن اس کے آگے کیا ہوا، یہ تحقیق طلب ہے۔

ابھی تک نہیں بن سکا جموں وکشمیر میں مندروں کے تحفظ کا قانون

مارچ 2015 میں جموں وکشمیر ریاستی حکومت نے قانون ساز اسمبلی میں ریونیو، ریلیف اور بازآبادکاری کے وزیر رمن بھلا نے یہ کہا تھا کہ’’کم از کم 17 مندر سیکیورٹی فورسز کے قبضے میں ہیں۔‘‘ تب رمن بھلا کے اس بیان کی کافی تنقید کی گئی۔ اس ہنگامے کے بعد رمن بھلا نے اپنے بیان کو درست کیا اور کہا، ’’میرا مطلب ہے کہ 17 مندروں کی حفاظت سیکیورٹی فورسز کر رہی ہے۔‘‘ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اسی دن کشمیر کے لنگیٹ اسمبلی سیٹ کے آزاد رکن اسمبلی عبدالرشید نے وادی کشمیر میں مندروں کے تحفظ کے لیے بل کا مطالبہ کیا تھا۔ غور طلب ہے کہ یہ بل اب تک پاس نہیں کیا جا سکا ہے اور بی جے پی اب اسی بل پر سیاست کر رہی ہے اور اس کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ یو پی اے حکومت نے اس بل کو پاس نہیں کیا تھا۔ حالانکہ میڈیا میں موجود رپورٹیں بتاتی ہیں کہ یو پی اے حکومت نے مارچ 2014 میں اس بل کو جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا تھا، اس کے بعد سے مرکز میں این ڈی اے کی حکومت ہے۔

***

ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 تا 02 اپریل  2022