پرواز رحمانی
گزشتہ میقات کا نعرہ
وزیر اعظم نے اپنی گزشتہ میقات میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ابھی اس کا مطلب سمجھنے میں بہت سے شہریوں کو دقت ہورہی تھی کہ اس میقات میں اس نعرے میں ایک اور لفظ کا اضافہ کر دیا گیا یعنی ’’سب کا وشواس‘‘ بنا دیا گیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان الفاظ کو وہی لوگ سمجھ سکے اور انہی لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایا جو آج کی حکمراں پارٹی کے بے داغ وفادار تھے، باقی شہریوں تک اِن الفاظ کا کوئی حصہ نہیں پہنچ سکا۔ مسلمانوں اور دلت طبقے ان خوش نما الفاظ سے محروم ہی رہے۔ گزشتہ میقات میں وزیر اعظم کے حلف لیتے ہی گائے کے تحفظ کا مسئلہ پیدا کیا گیا اور گائے کو مارنے کے الزام میں کچھ لوگ شارعِ عام پر مسلمانوں کو قتل کرنے لگے۔ اعلیٰ سطح سے دلت ریزرویشن کا مسئلہ اٹھایا گیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ دلت برادری کے لوگوں کو سرِ عام مارا جانے لگا۔ عیسائی برادری کے ساتھ بھی اس دوران اچھا سلوک نہیں کیا گیا…. اب سب کا وشواش کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف گورنمنٹ کو ایک اور مسئلہ مل گیا ہے اور وہ ہے تبلیغی جماعت۔ کورونا وائرس کے شور کے درمیان کچھ شر پسند اور بد دیانت ٹی وی چینلوں نے بستی حضرت نظام الدین کے تبلیغی مرکز کے خلاف یہ واویلا مچانا شروع کر دیا کہ کورونا وائرس وہیں سے پھیلا ہے۔
وزیر اعظم کی آتما خوش ہوئی
پرائم منسٹر کو جب یہ بات بتائی گئی تو انہوں نے فوراً ایک اشتعال انگیز بیان دے ڈالا۔ ’’نظام الدین پورے ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘‘ بس پھر کیا تھا حکومت اور بی جے پی کے لوگ اسے جگہ جگہ اٹھانے لگے۔ بدیانت اور بدکار میڈیا نے بھی پوزیشن سنبھال لی….. ایک سانس میں بولنے لگے کہ مرکز تبلیغ میں بہت سے غیر ملکی بھی آئے تھے۔ وہاں دو دن کا بہت بڑا اجتماع ہوا تھا۔ جب لوگ اجتماع کے بعد اپنے اپنے مقامات پر پہنچنے کورونا وائرس بھی اپنے ساتھ لے گئے۔کورونا وائرس کے جو پازیٹو مریض اسپتال میں داخل ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر تبلیغی ہیں۔مرکزی حکومت میں اعلیٰ سطح کی کئی میٹنگیں ہوئیں جن میں عوام کو اس ’’خطرناک چیلنج‘‘ سے خبردار کیا گیا۔ تبلیغی لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لانے پر انعامات کا اعلان کیا گیا۔ پھر کیا تھا جن لوگوں کا تبلیغ سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا وہ مسلمان بھی پکڑے جانے لگے ….. اور یہ سب مرکزی حکومت اور وزیر اعظم کے ایماء پر ہوا اور ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے لاک ڈاون میں کئی بار عوام سے خطاب کیا۔ ان کے تازہ خطاب میں سات باتوں میں تعاون یا ان سے دور رہنے کی نصیحت کی گئی تھی لیکن ایک بات بھی ایسی نہ تھی جس میں تبلیغی جماعت کو ہراساں کرنے یا کسی ایک دھرم کو موردِ الزام ٹھہرانے سے روکا گیا ہو۔
سازش بہت گہری ہے
سچ ہے کہ نظریاتی پارٹیاں خواہ وہ کسی مقصد وخیال کی ہوں اپنے مقصد اور طریقِ کار سے کبھی باز نہیں رہتیں۔ یہ پارٹیاں مثبت نظریات کی بھی ہوتی ہیں منفی نظریات کی بھی۔ منفی نظریات کی پارٹیوں کا طریقہ سماج میں بے چینی پیدا کرنا، نفرت پھیلانا اور مذاہب و کلچر کی بنیاد پر شہریوں میں داراڑیں ڈالنا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی حالت میں یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں خواہ ملک پر کسی اور وجہ سے کوئی مصیبت ہی کیوں نہ آئی ہوئی ہو۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حکومت اس وقت یہی کر رہی ہے۔ ملک میں کورونا وائرس آیا چین سے لیکن بد نام کیا جا رہا ہے تبلیغی جماعت اور اس کی آڑ میں تمام مسلمانوں کو۔ حالانکہ حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ کسی اجتماع کا نتیجہ نہیں ہے۔ تبلیغ کے دوچار افراد کو ہوسکتا ہے کہ یہ وائرس چھو گیا ہو لیکن پوری جماعت یا کمیونٹی اس سے بالکل محفوظ ہے۔ لیکن آر ایس ایس کی حکومت کو تو چونکہ اپنے ایجنڈے پر عمل کا یہ زریں موقع مل گیا ہے، یہ اسے ہاتھ سے کیسے جانے دے گی۔ چنانچہ حکومت کا سارا فوکس اسی پر ہو گیا ہے۔ سازش بہت گہری ہے پوری امت مسلمہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اسے بھی اسلام کی اخلاقی، سماجی اور طبی خدمات کے تعارف کا ایک بہترین موقع ہاتھ آیا ہے۔
***
نظریاتی پارٹیاں خواہ وہ کسی مقصد وخیال کی ہوں اپنے مقصد اور طریقِ کار سے کبھی باز نہیں رہتیں۔ یہ پارٹیاں مثبت نظریات کی بھی ہوتی ہیں منفی نظریات کی بھی۔ منفی نظریات کی پارٹیوں کا طریقہ سماج میں بے چینی پیدا کرنا، نفرت پھیلانا اور مذاہب و کلچر کی بنیاد پر شہریوں میں داراڑیں ڈالنا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی حالت میں یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں خواہ ملک پر کسی اور وجہ سے کوئی مصیبت ہی کیوں نہ آئی ہوئی ہو۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حکومت اس وقت یہی کر رہی ہے۔