خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

اسرائیل کی یہ جارحیت
جب گلف کی عرب مملکتوں نے اسرائیل کو گلے لگانے کی تحریک شروع کی تو خیال تھا کہ اب فلسطین میں بھی امن و امان قائم ہو جائے گا اور مالدار عرب مملکتیں اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھ سکیں گی۔ اگرچہ مالدار عربوں کی مہم سراسر اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کی تابع تھی، امت مسلمہ کے وسیع تر مفادات سے اسے کوئی علاقہ نہ تھا لیکن پھر بھی خوش گمانی تھی کہ کچھ نہ کچھ فائدہ امت کے کمزور طبقوں کو بھی ہو گا جن میں فلسطین کا کاز بھی شامل تھا۔ لیکن یہ کیا کہ عین ان خبروں کے درمیان اسرائیل نے فلسطین اور فلسطینیوں کے خلاف جنگی کارروائی شروع کر دی۔ آغاز مسجد اقصیٰ پر حملے سے ہوا تھا جو جلد ہی غزہ تک پہنچ گیا۔ بدھ ۱۲ مئی کی دوپہر تک اسرائیلی حملوں سے ساٹھ فلسطینی جاں بحق ہو چکے تھے جن میں ۱۶ معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ جوابی کارروائی میں فلسطین سے حماس نے بھی کئی سو راکٹ اسرائیلی آبادیوں پر داغے جن میں چھ سات اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ حماس فلسطین کی ایک اسلامی تنظیم ہے جو کئی میدانوں میں کام کرتی ہے۔ دعوتی، عسکری، خدمت خلق، رابطہ عامہ وغیرہ۔
عربوں کی حماس دشمنی
لیکن اسرائیل کی اس جارحیت کے خلاف عربوں میں کوئی بے چینی نہیں پائی جاتی۔ اسرائیل کی فوجی کارروائی کا جواب تو یہ عرب سوچ بھی نہیں سکتے مگر ڈپلومیسی تو کر سکتے ہیں۔ پتہ نہیں کوئی با اثر عرب ملک اپنے اثرات استعمال کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ مالدار عرب مملکتیں خود حماس کی دشمن ہیں جس طرح وہ عرب دنیا میں الاخوان المسلمون کو پسند نہیں کرتیں اسی طرح فلسطین میں حماس کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ ۲۰۱۳ میں جب مصر میں یہود نواز فوجی جنرل نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مالدار عرب ریاستوں نے اس کی خوب مالی مدد کی اسی دوران ایک مغربی خبر رساں ایجنسی نے خبر دی تھی کہ ایک مالدار عرب حکمراں نے اسرائیل کو پیغام بھیجا ہے کہ اخوان کو تو عرب دنیا میں کچل دیا گیا اب فلسطین میں حماس باقی ہے، اسے بھی کچل دو اور جتنا مال چاہو ہم سے لے لو۔ یہ بہر حال معلوم حقیقت ہے کہ عربوں کا حکمراں طبقہ حماس کا دشمن ہے اس لیے کہ وہ اسلامی تحریک ہے۔
یہ دن بھی دیکھنے تھے
فلسطینی اتھاریٹی، اسرائیل کے تحت ایک محدود اختیارات والی اسٹیٹ ہے۔ اسرائیل نے اس وقت فلسطینیوں کے خلاف جو جارحانہ مہم چھیڑ رکھی ہے اس کا جواب اسی اتھاریٹی کو دینا چاہیے لیکن اس پہلو سے وہ بالکل بے دست وپا ہے۔ ویسے بھی وہ اسرائیل اور امریکہ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔ فلسطین میں صرف حماس ہی ہے جو مزاحمت کر سکتی ہے۔ ایک اور گروپ اسلامی جہاد ہے جو محدود پیمانے پر سہی کچھ مزاحمت کر سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ترکی، ایران اور ملائشیا سیاسی سطح پر کچھ کریں۔ گلف سے قطر بھی کچھ کر سکتا ہے۔ ہم فلسطین سے ہزاروں میل دور برصغیر کے مسلمان فلسطینیوں کے لیے صرف دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ انہیں حوصلہ اور توانائی دے۔ اللہ نے یہ دن بھی ۲۱ ویں صدی کے مسلمانوں کو دکھلانے تھے کہ مسلم دنیا کے قلب میں اللہ کے دشمنوں کی ایک غاصب اور ظالم اسٹیٹ قائم ہو گی جو حرمین شریفین کے پاسداروں کو قابو میں کر لے گی اور جو خدمت ان سے چاہے گی لے گی، ۵۶ مسلم ملکوں کی موجودگی میں فلسطین پر قبضہ کر کے وہاں کے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گی اور مسلم دنیا دیکھتی رہے گی۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021