پرواز رحمانی
بر اعظم امریکہ کا صدارتی انتخاب اس بار اگر چہ غیر معمولی نوعیت کا نہیں تھا مگر کئی پہلوؤں سے بہت اہم تھا۔ بہت عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ امریکیوں نے ریپبلکن پارٹی کے صدر کو ایک ہی میقات کے بعد ہٹا دیا، دوسری میقات کا موقع نہیں دیا ورنہ امریکہ میں ایک پارٹی کو عموماً دو بار منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شکست خوردہ صدر انتخابی نتیجے کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں اور نتیجے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور جلسے جلوسوں کے پروگرام بنائے جا رہے ہیں۔ چار سال قبل جب ڈونالڈ ٹرمپ بہت شور شرابے کے ساتھ آئے تھے اور آتے ہی کئی ایسے اقدامات اور اعلانات کیے تھے تب امریکیوں نے بالعموم انہیں پسند نہیں کیا تھا۔ امریکہ کی چار سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک خاتون نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔ یہ انتخاب خود نو منتخب صدر جو بائیڈن کا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خاتون ہند نژاد ہیں …..جو بائیڈن یہودی ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی سے عرصہ دراز سے وابستہ ہیں۔ امریکہ میں دو ہی پارٹیاں ہیں جن کی سیاست کو یہودی کنٹرول کرتے ہیں اس لیے ان کا یہودی ہونا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ ٹرمپ کے دور میں بھی خارجہ پالیسی ٹرمپ کے داماد کے پاس تھی جو یہودی ہے۔ بل کلنٹن کی حکومت میں جو بائیڈن نائب صدر تھے مگر انہوں نے یہودی ہونے کی حیثیت سے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو صرف یہودی کر سکتا تھا۔
ریپبلکن اور ڈیموکریٹ
ہماری حکومت نے امریکی انتخاب میں کوئی رائے ظاہر نہیں کی ہے۔ اگر چہ وہ گزشتہ چار برسوں میں ٹرمپ کو قریب کرنے اور ان کی قیادت میں امریکہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ ہر چند کہ بعض مواقع پر ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات ہند مخالف رہے تھے۔ انہی جو بائیڈن نے کئی مواقع پر انڈیا کا ساتھ دیا تھا لیکن جمہوری اقدار اور اظہار خیال کی آزادی جیسے سوالات پر وہ حکومت ہند کے خلاف تھے۔ کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹائے جانے اور جمہوریت اور آزادی کی قدروں کو پامال کرنے پر انہوں نے حکومت ہند کی شدید تنقید کی تھی۔ پنڈت نہرو کے بعد حکومت ہند کا جھکاؤ زیادہ تر ریپبلکن پارٹی کی طرف رہا جو دائیں بازو کی پالیسیوں پر عمل کرتی ہے جبکہ اس کی حریف ڈیموکریٹک پارٹی جمہوری قدروں اور مذہبی غیر جانب داری کی بات کرتی ہے۔ (اگر چہ امریکی مفادات کے معاملے میں دونوں پارٹیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، دونوں اپنے اپنے طور پر دنیا کے بازاروں اور مالی و سائل کو لوٹ کر امریکہ کو مضبوط بنانا چاہتی ہیں) امریکہ کی نو منتخب نائب صدر کملا ہیریس ڈیموکریٹک پارٹی کی ممبر ہیں اور ظاہر ہے کہ انڈیا کے بارے میں ان کا رویہ وہی رہے گا جو جو بائیڈن کا ہوگا اسی لیے حکومت ہند نئی امریکی انتظامیہ کے سلسلے میں زیادہ جوش و خروش نہیں دکھا رہی ہے۔
ِہند امریکہ روابط؟
کملا ہیریس کا تعلق ریاست تمل ناڈو کے ایک دور دراز گاؤں کے ایک برہمن خاندان سے ہے۔ ان کے انکل جی بالا چندرن نئی دلی میں رہتے ہیں ان سے ملاقات کر کے کچھ لوگوں نے کملا ہیرس کی کامیابی پر انہیں مبارک باد دی۔ انہوں نے کملا کی قابلیت کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ وہ اپنی پالیسیوں اور بیانات میں اعتدال سے کام لیں گی اور یہ بھی کہا کہ کملا ہیرس کو کشمیر کی صورت حال پر ضرور بولنا چاہیے۔ امریکہ میں بھی کملا ہیریس کو ایک ذمہ دار اور اعتدال پسند خاتون ڈیموکریٹ سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ نئی انتظامیہ میں انڈیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کیسے رہیں گے۔ امریکہ میں انڈیا کی ایک مضبوط لابی کام کرتی ہے۔ ۲۰۱۵ میں پولنگ سے پہلے جب ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہونی چاہیے تو اس پر انڈین لابی بہت خوش ہوئی تھی اور اس کے اثرات یہاں بھی دکھائی دیے تھے۔ یہاں پوجا پاٹ اور ہون کیے گئے تھے لیکن بائیڈن کے آنے پر ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جا رہی ہے۔ امریکہ میں انڈین لابی بھی خاموش ہے۔ بائیڈن نے ٹرمپ کے تمام متنازعہ بیانات اور اقدامات کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کیا ہے جس میں مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے سے متعلق اعلان بھی ہے۔ حکومت ہند اور مسلم دنیا کو جنوری کے بعد کے عمل کا انتظار کرنا چاہیے جب بائیڈن باقاعدہ اقتدار سنبھالیں گے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020