پرواز رحمانی
دیہات اور قصبات میں دلت برادریوں اور نچلی ذاتوں پر ظلم کی اطلاعات آئے دن آتی رہتی ہیں۔ان کے گھر پھونکے جاتے ہیں مندروں میں گھسنے نہیں دیا جاتا ،کنوؤں سے پانی نہیں نکالنے دیا جاتا ،ان کے دولہے گھوڑوں پر سوار نہیں ہوسکتے وغیرہ۔یہ عمل صدیوں سے جاری ہے ۔اس لیےحکومت نے اس عمل کے خلاف بہت سخت قوانین بنائے ہیں ۔لیکن مظالم پھر بھی کم نہیں ہوئے۔اس لیےکہ ظلم کرنے والے عام طور سے اپر کاسٹ یعنی اونچی ذات کے لوگ ہوتے ہیں اور مقامی پولیس اور اس کے قوانین ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔اگر تھانے دار خود بھی دلت ہے تو وہ بھی کچھ نہیں کرسکتا۔لیکن حال ہی میں اتر پردیش میں دلتوں پر ظلم کا ایک واقعہ پیش آیا ہے جس پر پولیس اور ریاستی حکومت کی کارروائی حیرت انگیز ہے۔واقعہ جون پور کے گاؤں بھدیٹھی میں پیش آیا جہاں کچھ کم سن لڑکوں میں کسی معمولی بات پر جھگڑا ہوگیا ۔بات بڑھی تو کچھ بڑے بھی آگئے اور کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے دلت ذات کے کئی گھروں کو آگ لگا کر برباد کردیا۔اور آگ لگانے والے مسلمان تھے۔گویا جھگڑا دلت برادری اور مسلمانوں کے درمیان ہوا تھا۔میڈیا نے واقعہ کے اس پہلو کو کہ مسلمانوں نے دلتوں کے گھر جلائے خاص طور سے اچھالا اس لیے ریاستی حکومت اور پولیس حرکت میں آگئی۔
غیر معمولی کارروائی
وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ملزمین (مسلمانوں)کے خلاف پولیس کو سخت ہدایات دیتے ہوئے گینگسٹر ایکٹ اور قومی سلامتی قانون کے تحت کارروائی کرنے کا حکم دیا ۔پولیس نے چالیس کے قریب افراد کو گرفتار کیا وہ سب مسلمان ہیں۔کسی دلت کو گرفتار نہیں کیا گیا۔جن لوگوں کے گھر جلائے گئے ہیں ،انہیں نئے گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا گیا ۔ان کی بھر پور مالی امداد بھی کی گئی ۔اور آئندہ کے لیےانہیں پورا تحفظ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ۔پولیس کی کارروائی سے گاؤں اور پاس پڑوس کے مسلمان خوف زدہ ہیں۔بہت سے لوگ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی واقعہ فی الواقع وہ ہوا ہے تو کیا یہ اس قبیل کا پہلا اور انوکھا واقعہ ہے؟معتبر ذرائع بتاتے ہیں کہ اس نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔یہ دراصل دلتوں اور مسلمانوں کو باہم لڑانے کی ایک سازش ہے جس میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کا ہاتھ ہے۔مشہور ایڈووکیٹ زیڈ کے فیضان بھی یہی کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے کوئی گھر نہیں جلایا۔لڑکوں کے درمیان کہا سنی آم توڑنے یا مویشیوں کو تالاب میں نہلانے پر ہوئی تھی۔گاؤں کے دلت تو بہت خوش ہیں کہ کچھ ہوا یا نہ ہوا ہو،انہیں نئے مکان مل گئے ہیں ،پیسہ بھی مل رہا ہے ،جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
دلت لیڈر کہاں ہیں؟
مگر کیا دلت لیڈر بھی اس واقعے کی گہرائی اور اس کے عواقب پر کچھ سوچ رہے ہیں۔شاید نہیں ،اس لیےکہ آج کے دلت لیڈروں کو صرف اپنے ذاتی مفادات سے دلچسپی ہے خواہ وہ کوئی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔مایا وتی نے جو آدتیہ ناتھ کی تائید کی ہے وہ قابل فہم ہے وہ بی جے پی کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں اور اس کی مدد سے ایک بار پھر یو پی کی وزیر اعلیٰ بننا چاہتی ہیں ۔رام ولاس پاسوان پہلے ہی بی جے پی کے کیمپ میں جمے ہوئے ہیں ۔مہاراشٹر کے رام اٹھاولے کا بھی یہی حال ہے ۔اُدت راج سے بھی کوئی امید نہیں ۔اس سلسلے میں اگر کوئی کچھ کر سکتے ہیں تو وہ مہاراشٹر کے وامن میشرم اور یو پی کے چندرشیکھر آزاد راون ہیں۔یہ لوگ سوچیں کہ حکم راں بی جے پی نے اپنی ہندتوا کی پالیسی کے تحت دلتوں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا یہ کون سا کھیل شروع کیا ہے۔اگر پارٹی دلت برادریوں کا واقعی بھلا چاہتی ہے اور انہیں سماجی لحاظ سے اوپر اٹھانا چاہتی ہے تو اُن مظالم کو سختی سے روکے جو دلتوں پر اپر کاسٹ کی جانب سے آئے دن ہوتے ہیں۔ہاں یہ تو واقعہ ہے کہ دلتوں اور مسلمانوں کے جھگڑوں سے اونچی ذات والوں کو ہمیشہ فائدہ پہنچتا ہے۔ ’ہندو مسلم فساد‘ کے نام پر یہ ذاتیں مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ دلتوں کو اُتارتی رہی ہیں لیکن عام دلت اپر کاسٹ کے مقصد کو نہیں سمجھتے۔اس کے لیے بیدار ذہن دلت لیڈروں کو آگے آنا ہوگا ۔وامن میشرم اور چندر شیکھر آزاد اپنے طور پر بھدیٹھی کے سچ کا پتہ لگائیں۔
حکم راں بی جے پی نے اپنی ہندتوا کی پالیسی کے تحت دلتوں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا یہ کون سا کھیل شروع کیا ہے۔اگر پارٹی دلت برادریوں کا واقعی بھلا چاہتی ہے اور انہیں سماجی لحاظ سے اوپر اٹھانا چاہتی ہے تو اُن مظالم کو سختی سے روکے جو دلتوں پر اپر کاسٹ کی جانب سے آئے دن ہوتے ہیں۔ہاں یہ تو واقعہ ہے کہ دلتوں اور مسلمانوں کے جھگڑوں سے اونچی ذات والوں کو ہمیشہ فائدہ پہنچتا ہے۔ ’ہندو مسلم فساد‘ کے نام پر یہ ذاتیں مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ دلتوں کو اُتارتی رہی ہیں لیکن عام دلت اپر کاسٹ کے مقصد کو نہیں سمجھتے۔اس کے لیے بیدار ذہن دلت لیڈروں کو آگے آنا ہوگا ۔وامن میشرم اور چندر شیکھر آزاد اپنے طور پر بھدیٹھی کے سچ کا پتہ لگائیں۔