خبر و نظر

ایک تازہ شرارت کی بدبو

پرواز رحمانی

سیکڑوں ہزاروں ہندو سنگھٹنوں میں سے ایک ’’وشو بھدرا پجاری پروہت مہا سنگھ‘‘ بھی ہے۔ اس نے چند روز قبل سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی تھی کہ عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء میں جو قانون بنایا گیا تھا اس کی شق ۴ کو منسوخ کر دیا جائے کیوں کہ اس سے مہا سنگھ کے بقول ’’حملہ آوروں کی کارروائیوں کو تحفظ ملتا ہے اور ہندو پوجا استھلوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں‘‘ نیز یہ کہ ’’حملہ آوروں نے یہ مساجد ہندوؤں کے مندروں کو منہدم کر کے بنائی تھیں‘‘ مہا سنگھ کی اس پٹیشن کو جمعیۃ علماء ہند نے اسی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت اس کا نوٹس ہرگز نہ لے کیوں کہ اس سے مسلمانوں کے اندر خوف وہراس اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگا۔ بابری مسجد سے متعلق عدالت عظمیٰ کا جو فیصلہ آیا ہے اس سے مسلمان پہلے ہی مایوس اور غم زدہ ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۹۹۱ء میں جب اجودھیا کا تنازع بہت گرم تھا، حکومت نے سبھی فریقوں کو اعتماد میں لے کر یہ قانون بنایا تھا جس کے مطابق سوائے بابری مسجد کے پورے ملک میں ۱۰ تاریخی عمارتیں جوں کی توں رہیں گی۔ کوئی تاریخی عمارت خواہ وہ مسجد ہو یا مندر، درگاہ ہو یا مٹھ یا کوئی بھی عمارت کسی بھی فرقے کی ہو اسے چھیڑا نہیں جائے گا۔ بابری مسجد کا معاملہ چوں کہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے اس کا فیصلہ آنے تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
شرارت کیوں سوجھی
اس قانون کو بنے ہوئے تیس سال ہوگئے ہیں مگر کسی کو اس کی تنسیخ کا خیال نہیں آیا۔ اب پروہت مہا سنگھ کو غالباً اس لیے جراءت ہوئی کیوں کہ آج کل کے حالات ایسے کاموں کے لیے بہت موزوں ہیں۔ مرکز میں آر ایس ایس کی حکومت ہے جو ایسے ہر کام کی سرپرستی کرتی ہے۔ ویسے بھی ملکی معیشت کے بحران جیسے مسائل کے پیش نظر حکومت اِدھر اُدھر کے غیر ضروری اور غیر متعلق مسائل چھیڑ رہی ہے۔ اگر چہ حکومت ان چیزوں سے بظاہر لا تعلقی ظاہر کرتی ہے لیکن اس کے نا معلوم کارندے ان مسائل کو مسلسل چھیڑتے رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی غیر جانب داری اور اس کے انصاف سے انکار نہیں لیکن حالیہ عرصے میں اِس قبیل کے مسائل میں عدالت کا وزن چوں کہ حکومت اور حکم راں پارٹی کے حق میں گیا ہے اِسی لیے زیر گفتگو مسئلے میں مسلم شہریوں کو تشویش ہو رہی ہے۔ اگر چہ مقدمہ صاف ہے ۱۹۹۱ء کا قانون اور اس کی ہر شق قانون بن چکی ہے اب اس میں کچھ نہیں کیا جا سکتا اس لیے عدالت کو کسی قسم کا نوٹس بھی جاری نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم عدالت کا رخ کیا ہوگا کہا نہیں جا سکتا۔ حکم راں پارٹی کے کچھ شر پسند عناصر کاشی اور متھرا کی بات کر رہے ہیں لیکن حکومت انہیں اِن شر انگیز باتوں سے روک نہیں رہی ہے جس سے حکومت کا طرز عمل صاف سمجھ میں آتا ہے۔ باوجود اس کے کہ عدالت عظمیٰ کے حالیہ بعض فیصلوں سے مسلم شہریوں کو مایوسی ہوئی ہے ہمیں اعتبار عدالت پر ہی کرنا چاہیے۔
اٹھارہ سال قبل
اٹھارہ سال قبل گجرات میں یک طرفہ مسلم کش فسادات کے بعد جب گجرات کے وزیر اعلیٰ کو ملک کا سچا خیر خواہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور کانگریس ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے لگی تو اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والے دن ہندتوا کے ہوں گے اور وہی کچھ ہونے لگے گا جس کا سبق ماضی میں چانکیہ نامی ودوان بھارتی سماج اور سیاست کو پڑھا گیا تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ چانکیہ نے چندر گپت موریہ کو راجہ بنا کر ایک ویدک حکومت قائم کرنی چاہی تو اس مقصد کے لیے ابتدا میں اس نے کچھ مثبت اور اچھے طریقے اختیار کیے تھے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی، پھر جلد ہی اس نے اعلان کر دیا اب وہ بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے سبھی اچھے ہرے، مثبت منفی، انصاف اور بے انصافی کے تمام طریقے استعمال کرے گا چنانچہ اسے کامیابی پر کامیابی ملتی چلی گئی۔ موجودہ حکومت بھی چانکیہ کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے اس کے لیے طریقہ کوئی معنی نہیں رکھتا اصل چیز مقصد کا حصول ہے۔ اور انہی طریقوں سے یہ سیاسی گروہ اقتدار تک پہنچا ہے۔ اب اگر ملک کے امن و انصاف پسند اور دوراندیش شہری اِس صورتِ حال پر فکر مند ہیں تو انہیں لازماً آگے آنا چاہیے۔ حکم راں گروہ تو ملکی باشندوں کو یہ تاثر دینے میں جی جان سے لگا ہوا ہے کہ ملک میں ہندتوا قائم ہو چکا ہے اور اب اس کا کوئی مخالف نہیں۔ لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کیوں کہ سوِل سوسائٹی میں اب بھی شریف شہریوں بڑی تعداد موجود ہے جو ہندتوا کی مخالف ہے۔


 

اٹھارہ سال قبل گجرات میں یک طرفہ مسلم کش فسادات کے بعد جب گجرات کے وزیر اعلیٰ کو ملک کا سچا خیر خواہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور کانگریس ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے لگی تو اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والے دن ہندتوا کے ہوں گے اور وہی کچھ ہونے لگے گا جس کا سبق ماضی میں چانکیہ نامی ودوان بھارتی سماج اور سیاست کو پڑھا گیا تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ چانکیہ نے چندر گپت موریہ کو راجہ بنا کر ایک ویدک حکومت قائم کرنی چاہی تو اس مقصد کے لیے ابتدا میں اس نے کچھ مثبت اور اچھے طریقے اختیار کیے تھے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی، پھر جلد ہی اس نے اعلان کر دیا اب وہ بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے سبھی اچھے ہرے، مثبت منفی، انصاف اور بے انصافی کے تمام طریقے استعمال کرے گا چنانچہ اسے کامیابی پر کامیابی ملتی چلی گئی۔ موجودہ حکومت بھی چانکیہ کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے اس کے لیے طریقہ کوئی معنی نہیں رکھتا اصل چیز مقصد کا حصول ہے۔ اور انہی طریقوں سے یہ سیاسی گروہ اقتدار تک پہنچا ہے۔