خبر و نظر: فرانس میں قتل؟

پرواز رحمانی

 

چند روز قبل پیرس سے خبر آئی تھی کہ وہاں ایک لیڈی ٹیچر نے اپنی کلاس میں طلباء کو پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے کچھ کارٹون دکھا کر اسلام کو نہایت ناپسندیدہ انداز میں پیش کیا تھا۔ اس پر فرانس کے مسلمانوں میں غصہ تھا۔ بالآخر ایک مسلم نوجوان نے لیڈی ٹیچر سمیوئل پاٹی پر حملہ کرکے اس کا سر قلم کردیا۔ اس نوجوان کا نام عبداللہ انظوروف بتایا گیا ہے جو چیچنیا کا شہری تھا۔ واقعے کے فوراً بعد پولس نے اسے پکڑ کر گولی ماردی تھی۔ اب ایجنسی فرانس پریس نے خبر دی ہے کہ اس نوجوان کا تعلق شام کی آئی ایس آئی ایس یعنی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا سے تھا جسے مختصراً آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ ) کہا جاتا ہے۔ آئی ایس سے عبداللہ انظوروف کے تعلق کا پتہ لگانے کے لیے فرانس کی پولیس شام بھی پہنچ گئی تھی۔ ٹیچر پاٹی کو پیغمبر مخالف کارٹون دکھانے کی تحریک غالباً فرانسیسی صدر میکروں کے اُس بیان سے ملی تھی جس میں انہوں نے اسلام کو ایک ناقص مذہب اور مسلمانوں کو بدحال قوم بتایا تھا۔ پاٹی کے قتل کے واقعے کے بعد بھی کیمرون کا سخت بیان آیا تھا کہ ’’اسلام پسند لوگ ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔وہ فرانس سے سیکولر ڈیموکریسی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں‘‘۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ عبداللہ انظوروف نے اقرار کر لیا تھا کہ سیموئل پاٹی نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف گستاخی کی تھی اس لیے اس نے اسے ہلاک کر دیا۔
قتل مشکوک ہے
اگر عبداللہ انظوروف نے پاٹی کو واقعی مارا ہے تو یہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ ایسے افراد سے پہلے بات کرنی چاہیے۔ ماشاءاللہ فرانس میں مسلمان خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ پڑھے لکھے بھی ہیں کچھ توفیق یافتہ مسلمان دعوت اسلامی کا کام بھی کر رہے ہیں۔ اس لیے پاٹی سے ملاقات کرکے اسے اسلام کی حقیقت بتائی جانی چاہیے تھی کہ اسلام کیا ہے کیا نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام کی عظمت سے واقف کرایا جانا چاہیے تھا۔ مسلمان اسے بتاتے کہ اسلام کی حقیقت جانے بغیر اسے کارٹونوں اور تصاویر کے ذریعے غلط طور پر پیش کرنا کمزوری ہے، کم ظرفی ہے، ناواقفیت ہے، نادانی ہے، گنوارپن ہے۔پڑھے لکھوں اور جمہوریت پسندوں کو یہ کام زیب نہیں دیتا۔ اگر اس فہمائش کے بعد بھی پاٹی کو اپنی بات پر اصرار ہوتا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ اسکول اور کالجوں کے ٹیچروں اور طلباء سے براہ راست ملاقات کرکے ان سے اسلام اور پیغمبر اسلام کا تعارف کرانا بھی کارِ دعوت ہے…..سیموئل پاٹی کی اس کہانی میں یہ سوال باقی ہے کہ کیا فی الواقع اسے کسی مسلم نے مارا ہے۔ فرانس کے صدر کیمرون نے چونکہ خود اسلام کے حق میں گستاخی کی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی مذمت ہو رہی ہے۔ اغلب ہے کہ ان کی اس حرکت سے اسلام مخالف ذہنوں کو تحریک ملی ہوگی اور انہوں نے ہی اس قسم کی شیطانی حرکات شروع کردی ہوں گی۔
ِکیا یہ اسلامو فوبیا ہے
فرانسیسی پولیس نے بات میں سے بات نکال لی ہے۔ لگے ہاتھوں عبداللہ انظوروف کا تعلق اسلامک اسٹیٹ نامی گروپ سے جوڑ دیا ہے جب کہ اسلامک اسٹیٹ نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کی حقیقت یہ ہے کہ دس سال قبل عرب اسپرنگ کے علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے شمالی افریقہ کے کچھ بے کار نوجوانوں کو سمیٹ کر تخریب کاروں کا ایک گروپ کھڑا کیا تھا اور اس کا نام ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ رکھا تھا۔ اس میں کچھ مسلم نام بھی تھے سب سے بڑا نام ابوبکر العراقی کا تھا۔ دنیا بھر میں پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ یہ گروپ حکومتوں کے تختے الٹ کر اسلامی حکومتیں قائم کرنا چاہتا ہے۔ کچھ مالدار عرب حکمرانوں کو ڈرا رکھا تھا کہ سب سے پہلے یہ گروپ (اسلامک اسٹیٹ) عرب حکومتوں کے ہی تختے الٹے گا۔ ’’اسلامی اسٹیٹ‘‘ کا نام سن کر مختلف ملکوں کے سر پھرے اور نادان مسلم نوجوان شام اور عراق جانے لگے۔ جب انہیں وہاں اسلامی اسٹیٹ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تو واپس اپنے ملکوں کو چلے جاتے۔ بہت دنوں سے اسلامک اسٹیٹ کا تذکرہ بند تھا۔ اب فرانس کو یہ نام اٹھانے کی سوجھی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ عالمی لیڈروں کے ساتھ اب فرانس کا صدر بھی اسلامو فوبیا کا شکار ہو گیا ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ کچھ عالمی لیڈروں کے ساتھ اب فرانس کا صدر بھی اسلامو فوبیا کا شکار ہو گیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020