بنگلورو تشدد:عدم برداشت کا غماز یا تفریق و امتیاز کے خلاف احتجاج

تلافی نقصان کے لیے صرف مسلمانوں کے اثاثے ضبط کرنے کا خطرناک رجحان

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

11؍ اگست کی شام بنگلورو میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے جن میں تین قیمتی جانیں پولیس کی فائرنگ میں تلف ہوئیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 175لوگوں کو گرفتار کیا گیا ۔ ذرائع ابلاغ میں اس سانحہ کو مسلمانوں کے عدم برداشت یا انتہا پسندی سے منسوب کیا گیا ۔ اس کی حقیقت جاننے کے لیے واقعات کی تفصیل میں جانا ضروری ہے۔ بنگلورو کا ڈی جے ہلی مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کانگریس کے مقامی ایم ایل اے اکھنڈ سرینواس کو مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ تشدد کے بعد سرینواس نے اپنے ویڈیو بیان میں اس کا بلا واسطہ اعتراف بھی کیا ہے۔ اس رکن اسمبلی کا بھتیجا نوین کچھ عرصے سے مسلمانوں کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر پوسٹ ڈالنے لگا ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر توہین آمیز مضامین تک شائع کر دیے ۔ نوین اگر مقامی ایم ایل اے کا مخالف ہوتا تو اس کی حرکات کے لیے اکھنڈ سرینواس کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا تھا لیکن چونکہ وہ تو ان کا دستِ راست تھا اس لیے اسے کو روکنے کی ذمہ داری ایم ایل اے پر آتی ہے۔ وہ اگر اپنے بھتیجے کو منع کرکے قبل از وقت اپنے رائے دہندگان سے معافی تلافی کرلیتے تو یہ نوبت نہ آتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کا ویڈیو اس وقت آیا جبکہ چڑیا کھیت چگ چکی تھی۔

ڈی جی ہلی کے مسلمان نوین کے خلاف شکایت درج کرانے کی خاطر پولیس تھانے گئے تھے ۔ ان کا ارادہ تشدد برپا کرنے کا نہیں تھا بلکہ وہ تو اسے گرفتار کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ اس معاملہ کی نزاکت کا احساس کرکے اگر فوراً کارروائی کی گئی ہوتی یعنی نوین کو گرفتار کرلیا جاتا یا کم ازکم شکایت کنندگان کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد پولیس ایکشن میں آجاتی اور قانونی کارروائی شروع کر دیتی تب بھی عوام کو سمجھا بجھا کر لوٹایا جاسکتا تھا لیکن اس میں مجرمانہ تاخیر ہوئی ۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس افسر اور اے سی پی نے مظاہرین کو 2 گھنٹے انتظار کرنے کے لیے کہا کہ اس کی وجہ سے ہجوم مشتعل ہوگیا اور جو تناؤ کا ماحول بنا تو وہ تشدد کی شکل اختیار کر گیا ۔ عوامی غم و غصے کو کم کرنا بھی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی اس قابلِ مذمت تشدد اور جانی و مالی نقصان کا سبب بنی ہے ۔ یہ سارے حقائق غیر جانبدارانہ تحقیقات سے سامنے آئیں گے۔ اس معاملے کو یہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا کہ ملک کا انتظامیہ سست رو ہے لہٰذا اس کا خیال کرکے عوام کو صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے؟ یہ نہ صرف تساہل بلکہ تفریق و امتیاز کا بھی معاملہ تھا۔ کسی خاص طبقے کو اگر بار بار بھید بھاؤ کا شکار بنایا جائے تو فطرتِ انسانی کے مطابق اس کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔

کرناٹک کی پولیس پہلے کئی مرتبہ چستی اور پھرتی کا مظاہرہ کرکے چکی ہے اس کی امتیازی سلوک چند مثالیں دیکھ لینے کے بعد اضطراب کی وجہ ازخود سمجھ میں آجاتی ہے۔ دور جانے کے بجائے اسی علاقہ کی مثال لیں تو آصف نامی مقامی نوجوان یاد آتا ہے جسے ایم ایل اے اکھنڈ سرینواس کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے کے سبب شکایت درج کرنے کے صرف 10منٹ میں حکام نے گرفتار کرلیا تھا۔ آصف کے معاملہ میں پولیس نے جس مستعدی کا مظاہرہ کیا اگر اسی طرح نوین کو بھی حراست میں لے لیا جاتا تو نہ پولیس اسٹیشن پر حملہ ہوتا اور نہ گولی چلانے کی نوبت آتی ۔ مجمع کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کا ہوائی فائر یا کمر کے نیچے گولی چلانے کے بجائے سینے پر نشانہ سادھنا بھی قابل مذمت ہے۔ مظاہرین پر طرح طرح الزامات لگانے والوں کو ملعون نوین پر توہین رسالت، معاشرے میں نفرت انگیز جرائم، فسادات کو بھڑکانے کا مجرم قرار دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ لاپروائی برتنے والے پولیس افسران کو بھی معطل کرکے ان کے رویہ کی جانچ ہونی چاہئے تاکہ آگے چل کر انتظامیہ کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا ہو۔

بنگلورو میں برپا ہونے والے تشدد کے بعد ملزم نوین کو عدالت نے 5 دنوں کے لیے پولیس تحویل میں بھیج دیا ہے اور معاملہ کی تحقیقات ہو رہی ہیں ۔ اس بیچ نوین نے اپنا اکاونٹ ہیک ہونے کی بات بھی کہی لیکن تفتیش کے بغیر اس کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ بی جے پی کی صوبائی حکومت کے لیے مسلمانوں کا کانگریس کے خلاف ہونا خوش آئند بات ہے اسی لیے غالباً اس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی نگرانی میں پورے معاملہ کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ اس کام کے لیے بنگلورو کے ڈپٹی کمشنر جے این شیو مورتی کو مجسٹریٹ نامزد کیا گیا ہے اور انہیں 3 ماہ کے اندر رپورٹ دینے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ریاستی حکومت نے اتر پردیش کے طرز پر تشدد میں ہونے والے نقصان کی بھرپائی کے لیے ملزمین کے اثاثہ جات ضبط کرنے کا اشارہ دیا ہے جو نہایت خطرناک رجحان ہے کیونکہ یہ رویہ عام طور پر صرف مسلمانوں کے خلاف اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال بنگلورو سانحہ کے تین بعد 14 اگست کو اعظم گڑھ کے بانس گاؤں میں برپا ہونے والے تشدد کے تعلق سے خود حکومت یوپی کا رویہ ہے۔

بانس گاوں کے پردھان ستیہ میو جیتے کے قتل کے بعد حالات کشیدہ ہوئے تو بونگریا سڑک جام کردی گئی اور اس دوران ایک 12سال ہ بچے کی گاڑی کی زد میں آنے سے موت ہوگئی۔ اس کے بعد لوگوں نے راسے پور پولیس چوکی کو پھونک دیا۔ مظاہرین نے گاڑیاں بھی جلائیں اور آس پاس آگ زنی کی اور پولیس نے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کی ۔ انکاؤنٹر کے لیے بدنام زمانہ اتر پردیش کی پولیس نے بھی سینے پر گولی نہیں چلائی ۔ اتر پردیش کی مثال تو کرناٹک میں دی جا رہی لیکن اعظم گڑھ کے بانس گاؤں میں تشدد کرنے والوں سے نقصان کی بھرپائی کا مطالبہ کسی نے نہیں کیا تو کیا یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ جے ڈی ایس رہنما ظفر اللہ خان نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت، عدالت کا کام نہیں کرسکتی۔ ابھی تو پرتشدد احتجاج کے بعد ہونے والی گولی باری کی جانچ سی سی بی نے مکمل بھی نہیں کی ہے۔ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے تشدد کے واقعہ کی مذمت کرنے کے بعد پولیس سے درخواست کی کہ وہ ابتدائی جانچ کے بعد بے قصور لوگوں کو رہا کرے۔ یہ معاملہ چونکہ کانگریس کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس لیے پردیش کانگریس کمیٹی نے سانحہ کی وجوہات اور حقائق کا پتہ لگانے کے لیے سابق وزیر داخلہ جی پرمیشور کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس معاملے میں جو لوگ مسلمانوں پر عدم برداشت کا الزام لگاتے ہیں یا مسلم سماج کے اندر انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں انہیں دوران تشدد رونما ہونے والے دو واقعات پر غور کرنا چاہیے ۔ ان میں سے ایک انفردای اور دوسرا اجتماعی نوعیت کا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سارے فساد کی جڑ نوین تھا اس کے باوجود ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں نوین کی والدہ نے اعتراف کیا کہ آج وہ محض مسلم نوجوان کے جان بچانے کی وجہ سے زندہ ہے۔ رکن اسمبلی اکھڈی سرینواسا مورتی کی بہن جینتی کو گھر میں آگ لگانے سے کچھ منٹ قبل مسلم نوجوانوں نے بحفاظت نکال کر دوسری عمارت میں پہنچا دیا تھا۔ یہ سلوک ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والے عدم برداشت کے الزام کی تائید نہیں بلکہ تردید کرتا ہے۔ جینتی کے مطابق ہنگامہ 8 بجے کے قریب شرو ع ہوا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ سینکڑوں لوگ چونکہ سڑک پر تھے اور گاڑیاں جل رہی تھیں اس لیے فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ ایسے میں تقریباً 10بجے کے قریب ایک مسلمان انہیں دوسری عمارت میں حفاظت کے ساتھ لے گیا۔ اس قدر ہیجان انگیز ماحول میں مسلم نوجوانوں کے یہ انسانیت نوازی قابل تحسین ہے۔ ایک زمانے میں مسلمان جذبات میں آکر نادانستہ بی جے پی کو اپنے خلاف ہتھیار فراہم کر دیتے تھے جس کے ذریعے وہ اپنے سارے کرتوت پر پردہ ڈال دیتی تھی لیکن اب مسلمان ہوشیار ہوگئے ہیں ۔ انہیں معلوم تھا کہ سرینواس کے گھر اور پولیس تھانے کی توڑ پھوڑ کے واقعے کو اچھال کر انہیں بدنام کیا جائے گا لیکن ایک عام ہندو کو متنفر کرنے کے لیے ان کے مذہبی مقام کی بے حرمتی سب سے سہل حربہ ہے۔ ماضی میں سنگھ کے لوگ خود ایسی حرکت کرکے اس کا الزام مسلمانوں کے سر منڈھتے رہے ہیں ۔ اتفاق سے سرینواس کی رہائش گاہ کے عین سامنے ایک ہنومان مندر ہے ۔ اس کو اگر کوئی غیر مسلم بھی نقصان پہنچا کر غائب ہو جاتا تو الزام مسلمانوں پر ڈال کر عام ہندو کو اسلام سے دور کرنے کی سازش رچی جاسکتی تھی ۔ اس متوقع کوشش کو ناکام کرنے کے لیے مسلم نوجوانوں نے انسانی زنجیر بنا کر اس کی حفاظت کی۔ اس کا اچھا اثر ہوا۔ میڈیا کے اندر مسلمانوں کے اس اقدام کی تعریف و توصیف ہونے لگی ۔ اس کی ویڈیو بناکر اسے وائرل کیا گیا جو ٹیلی ویژن پر بھی چلی ۔ کانٹے کو کانٹے سے نکالنے کا فن وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انتطامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے اندر غم و غصے کو جاننے کے لیے دو واقعات کی یاد دہانی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ بیدر کے شاہین اسکول میں امسال ۲۱ جنوری کو بچوں کے ذریعہ سی اے اے مخالف ڈرامہ اسٹیج کیا گیا ۔ اس کے خلاف 26؍ جنوری کو بی جے پی کے مقامی رکن نیلیش رکشیال کی شکایت پر پر آئی پی سی کی دفعہ 124 اے اور 504 کے تحت شاہین اسکول اور اس کی انتظامیہ کے خلاف نو ٹاؤن پولیس تھانے میں بغاوت کا معاملہ درج کیا گیا ۔ اس کے بعد ۸۰ بچوں کو تفتیش کے نام پر ذہنی اذیت دی گئی اور ان کے والدین اور ڈارمہ کے ناظرین تک کو پریشان کیا گیا۔ اسکول کی انچارج فریدہ اور چھٹی جماعت کی طالبہ نغمہ کی ماں نجم النساء کو گرفتار کیا گیا۔ انتظامیہ کی جانب سے دکھائی جانے والی اس دلچسپی کی قلعی عدالت میں کھل گئی۔ جج صاحبہ نے پیشگی ضمانت کی سماعت کے دوران کہہ دیا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے پہلی نظر میں غداری کا معاملہ بنتا ہو۔ اپنے حکم میں عدالت نے یہ بھی لکھا کہ سی اے اے کے خلاف اسکول کے بچوں کے ذریعہ کھیلا گیا ڈرامہ سماج میں کسی بھی طرح کا تشدد یا بے یقینی ماحول پیدا نہیں کرتا ۔ ایک طرف تو مسلمانوں کے خلاف بیدر میں کرناٹک پولس کی یہ مستعدی اور دوسری جانب بنگلورو میں وہ لاپروائی! یہ تفریق و امتیاز نہیں ہے تو کیا ہے؟

اسی طرح کا معاملہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف 20 فروری کو بنگلورو کے فریڈم پارک مںی منعقد ہونے والے جلسہ میں پیش آیا جہاں کالج کی ایک طالبہ امولیہ لوینا نے اسٹیج سے پہلے پاکستان زندہ باد اور پھر ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔ منتظمین نے اول تو اس کے ہاتھ سے مائک چھین کر اسے روکا اور پھر پولیس نے حراست میں لے لیا۔ امولیہ پر بھی ملک سے غداری کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔ اس کے بعد اسٹیج پر موجود رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے لیکن بی جے پی نے ان کی وضاحتوں کو مسترد کردیا۔ سیشن کورٹ نے امولیہ لوینا کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی تاہم، نچلی عدالت کے ایک مجسٹریٹ نے تکنیکی بنیاد پر انہں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ کیونکہ پولیس گرفتاری کے 90 دنوں کے اندر فرد جرم عائد کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔ امولیہ کے وکیل پرسنّا نے کالج کی طالبہ کو محض ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ بلند کرنے پر بغاوت کا مقدمہ درج کر کے جیل بھیجنے اور تفتیش کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دینے پر افسوس کا اظہار کیا۔پرسناّ نے بتایا کہ بہت سے مقدمات میں سپریم کورٹ یہ واضح کر چکا ہے کہ محض کچھ کہہ دینے سے کوئی باغی نہیں ہو جاتا۔ یہ سب حکومت کی جانب سے اپنے مخالفین کو ڈرانے کی کوشش ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ اس طرح کے ماحول کا سیاسی فائدہ کس طرح اٹھاتے ہیں اس کی ایک مثال بھی کرناٹک ہی کے ایک اور شہر چِکمگلور سے آئی۔ 8ویں صدی میں ہندو فلسفی آدی شنکر آچاریہ کی مورتی سرنگیری قصبے میں نصب ہے اس لیے ہندو اسے مقدس مانتے ہیں۔ بنگلورو تشدد کے دو دن بعد اس مورتی کی چھتری کے اوپر ایک بھیگا ہوا عید میلاد النبی کا جھنڈا پایا گیا جس پر گنبد خضرا کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس خبر کے آتے ہی بی جے پی کی رکن پارلادن شوبھا کرندلاجے نے ٹوئٹ کی ’’یہ جھنڈا ایس ڈی پی آئی کا ہے اور دانستہ طور پر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ اس ٹویٹ سے علاقہ میں کشیدگی پھیل گئی۔ اس پیغام کی دونوں باتیں جھوٹ تھیں۔ اول تو وہ ایس ڈی پی آئی کا جھنڈا نہیں تھا دوسرے اسے دانستہ طور پر ماحول خراب کرنے کے لیے نہیں لہرایا گیا تھا بلکہ رکن پارلیمان نے از خود افواہ پھیلا کر اس جرم کا ارتکاب کررہی تھیں ۔ اس طرح اگر تشدد پھوٹ پڑتا تو وہ اس کے لیے ذمہ دار ہوتیں اس لیے ان پر سماجی منافرت پھیلانے کا مقدمہ قائم کیا جانا چاہیے ۔ پولیس نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر جھنڈا رکھنے والے ملند ولد منوہر نامی شخص کو گرفتار کر کے اس پر مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام عائد کر دیا ۔اس واقعہ کی جانچ پڑتال کے دوران نہایت دلچسپ حقائق سامنے آئے ۔ ایس پی کے مطابق شرابی ملند کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایس ڈی پی آئی یا کسی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا بلکہ بینر پر گنبد خضریٰ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ایس پی نے تفصیل بیان کی کہ واردات کے دن کافی بارش ہو رہی تھی ۔ ملند اپنے آپ کو بارش سے بچانے کے لئے کچھ ڈھونڈ رہا تھا تو وہ بینر ہاتھ آگیا اور اس نے اول تو خود کو اس ڈھانپ لیا۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ مقدس چیز ہے اس لیے اس نے اسے ’بھگوان‘ کے پاس محفوظ رکھ دیا۔ اس کا مقصد ماحول خراب کرنا نہیں تھا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کے نشے میں دھت بی جے پی ارکان پارلیمان سے بہتر تو وہ شرابی ہے جس کو نشے کی حالت میں بھی دیگر مذاہب کے تقدس کا احساس رہا۔ اس اثناء میں آسام کی بی جے پی رکن اسمبلی شیلادتہ دیو نے بھی اسی طرح کی ایک متنازعہ بیان بازی کردی ۔ انہوں نے آسام سے تعلق رکھنے والے مصنف، ناول نگار اور فلسفی پدم شری آنجہانی سید عبد الملک کو ’دانشور جہادی‘ کے خطاب سے نواز دیا ۔

آسام کے ہوجائی حلقۂ انتخاب کی اس رکن اسمبلی نے گزشتہ مہینے بی جے پی لیڈران پر انہیں نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی تھی ۔ مسلمانوں کے خلاف بدزبانی کرنے والی شیلادتیہ نے بعد میں پارٹی سے رجوع کرلیا لیکن سید عبدالملک کے بیان پر اس کی اپنی ہی پارٹی کے لیڈران کی جانب سے ہدف تنقید بن گئیں۔ آسام اقلیتی بہبود بورڈ کے سربراہ اور بی جے پی رہنما مومن الول نے شیلادتیہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر وہ عوامی طور پر معافی نہیں مانگتیں تو میں ہمیشہ ان کے خلاف سخت رُخ اختیار کروں گا۔‘‘ اس معاملے کا فائدہ اٹھانے کے لیے کانگریس بھی سرگرم ہوگئی ۔ آسام کے سابق وزیر اعلیٰ ترون گگوئی نے شیلا دتیہ دیو کے تبصروں پر سخت تنقید کی۔ کانگریس کے رکن پارلابھن عبد الخالق نے تو اسے پاگل قرار دے کر پاگل خانہ بھیجنے کا مشورہ دیا۔کانگریس نے اسے متنازہ بیانات دینے والی راکھی ساونت قرار دےدیا۔ اس معاملے میں کانگریس کے اقلیتی شعبہ نے شیلا دیو کے خلاف گوہاٹ کے دہانٹی گاؤں پولیس تھانہ مں شکایت درج کرائی چنانچہ رکن اسمبلی شیلادتیہ دیوکی گرفتاری عمل میں آئی ۔ اسی طرح کا سلوک چکمگلور کی بی جے پی رکن پارلیمان شوبھا کرندلاجے کے ساتھ بھی ہونا چاہیے تبھی جاکر ان موقع پرست سیاستدانوں کی عقل ٹھکانے آئے گی جو فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر اپنی سیاسی دوکان چمکاتے ہیں ۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں ۔


صاحب مضمون معروف دانش ور، صحافی اور ادیب ہیں۔