خبر و نظر: اِس شرارت کے پیچھے

پرواز رحمانی

 

اِس شرارت کے پیچھے
9 نومبر کو سپریم کورٹ نے جب اجودھیا کے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا تو عام خیال تھا کہ اب رام مندر والے مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گے اور اپنی شرارتیں بند کر دیں گے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈر بھی انہیں سمجھائیں گے کہ اجودھیا کا فیصلہ اب تمہارے حق میں ہو چکا ہے لہٰذا اب پر امن طریقے سے اس کی تعمیر میں لگ جاؤ اور اپنی غیر ضروری سرگرمیاں ترک کر دو۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر وہ واقعی رام کے سچے پیروکار ہوتے تو شاید بیٹھ بھی جاتے لیکن یہاں تو معاملہ ہندوتوا والوں کے ہاتھوں میں تھا وہ چین سے کیوں کر بیٹھتے چنانچہ انہوں نے نئے نئے مسائل اٹھانے شروع کر دیے۔ مندر نرمان کے نام پر چندہ مانگا جانے لگا جب کہ مندر کے لیے بے پناہ دولت پہلے ہی سے موجود ہے۔ ہر گاؤں سے ایک ایک اینٹ منگائی جا رہی ہے۔ اجودھیا ریلوے اسٹیشن کو مندر کے طرز پر دوبارہ بنانے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ رام مندر کے علاوہ اِس قبیل کی جو سرگرمیاں تھیں وہ بند تو کیا ہوتیں الٹا ان میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ لکھنو کے ایک گروپ نے عدالت میں درخواست دی ہے کہ ’’متھرا کے شری کرشنا مندر سے متصل شاہی عید گاہ مسجد کو وہاں سے ہٹا کر کہیں اور بنایا جائے وہ جگہ مندر کی ہے، مسجد وہاں زبردستی بنائی گئی تھی‘‘۔
یہ قضیہ پرانا ہے
متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد اور بنارس کی گیان واپی مسجد کا قضیہ بھی بہت پرانا ہے۔ 90 کی دہائی کے آغاز میں جب لال کرشن اڈوانی نے اجودھیا کا مسئلہ اٹھا کر ماحول خراب کیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اِن مساجد کا ذکر بھی چھیڑا تھا۔ بعض نے کئی سو مساجد کی ایک لمبی فہرست بھی تیار کر رکھی تھی اور ان کی جگہ مندروں کا مطالبہ کرکے امن و قانون کے مسائل پیدا کر رہے تھے۔ اس لیے مرکزی حکومت (وی پی سنگھ، آئی کے گجرال، دیوے گوڑا) نے غالباً عدالتِ عظمیٰ کی مدد سے یہ طے کیا تھا کہ مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں میں مسئلہ صرف اجودھیا کی بابری مسجد کا ہے اس کے علاوہ کسی اور مسجد یا مذہبی مقام کا کوئی قضیہ نہیں ہے اس لیے کسی اور مسجد یا مقام کو متنازعہ بنا کر شور شرابہ کرنا بالکل غلط ہے۔ اس طرح متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کا مسئلہ بھی ختم ہوگیا تھا لیکن بعد میں اس فیصلے کا کیا ہوا نہیں معلوم۔ شرارتی عناصر خاموش نہیں رہے۔ دراصل یہ ہندوتوا کی ضرورت ہے اور بھی کئی مسائل ہیں جو اِن لوگوں نے 2014ء میں مرکزی حکومت بدلنے کے بعد شروع کیے تھے۔رام مندر، یکساں سول کوڈ، کشمیر کی دفعہ 370، طلاق ثلاثہ، گئو رکشا، شہریت کا مسئلہ۔ اِن میں سے کچھ مقاصد تو انہوں نے حاصل کر لیے ہیں اور کچھ باقی ہیں۔
ِاس حکمت عملی سے خبر دار
شاہی عیدگاہ مسجد سے متعلق لکھنو کی عدالت نے کرشن بھکتوں کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسی طرح ہر کرشن بھکت عدالتوں میں درخواست دینے لگے تو اس سے تو عدالتی اور سماجی نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ سول جج سنیئر ڈویژن چھایا شرما نے 30 ستمبر کو کہا کہ کرشن بھکتی کے دعوے کی بنیاد پر عدالت اس درخواست پر غور نہیں کر سکتی۔ لکھنو کے جن لوگوں نے درخواست دی تھی وہ سب پڑھے لکھے لوگ ہیں اور گمان ہے کہ ان کا تعلق آر ایس ایس کے سنگھ پریوار سے ہے۔ اگر رسمی طور پر تعلق نہ بھی ہو تو وہ کام بہر حال سنگھ پریوار ہی کا کر رہے ہیں۔ اس قبیل کے مسائل اٹھانا اور سوسائٹی میں بے چینی پیدا کرنا سنگھ پریوار کی ضرورت ہے۔ آج کل مرکزی حکومت کو اس کی ضرورت اِس لیے بھی ہے کیوں کہ حکومت چو طرفہ مسائل میں بری طرح سے گھری ہوئی ہے۔ اس کی ریاستی سرکاریں بھی پریشان ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حکومت سماج میں فساد پھیلانے والوں کے خلاف کچھ نہیں کہتی۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم اِن شرارتیوں کو نصیحت اس لیے نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ خود بھی اِسی راستے سے لائم لائٹ میں آئے ہیں۔ مسلمانوں کو چھیڑ کر انہیں احتجاج اور مظاہروں پر آمادہ کرنا بھی حکمراں پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

آج کل مرکزی حکومت کو اس کی ضرورت اِس لیے بھی ہے کیوں کہ حکومت چو طرفہ مسائل میں بری طرح سے گھری ہوئی ہے۔ اس کی ریاستی سرکاریں بھی پریشان ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حکومت سماج میں فساد پھیلانے والوں کے خلاف کچھ نہیں کہتی۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم اِن شرارتیوں کو نصیحت اس لیے نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ خود بھی اِسی راستے سے لائم لائٹ میں آئے ہیں۔ مسلمانوں کو چھیڑ کر انہیں احتجاج اور مظاہروں پر آمادہ کرنا بھی حکمراں پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020