خبر ونظر
پرواز رحمانی
عدلیہ کی صورت حال
ممتاز سیاست داں اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے ابھی ابھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ پر اب عوام کا اعتماد کم ہو رہا ہے۔ اس کے طور طریقوں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جناب کپل سبل جب یہ بات کہہ رہے تھے تو یقیناً ان کے ذہن میں عدالت عظمیٰ کے کچھ تازہ فیصلے رہے ہوں گے جن پر عوام و خواص کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ سبل صاحب کے اس بیان کے ساتھ ہی عدالتوں کے دو عجیب و غریب فیصلے آئے، ایک ہے بنارس کی گیان واپی مسجد اور شرنگار گوری سے متعلق اور دوسرا ہے کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب کے خلاف فیصلہ۔ گیان واپی مسجد و شرنگار گوری معاملہ میں عدالت نے مسلم فریق کی درخواست خارج کر دی۔ اب مسلم فریق کو ہائی کورٹ جانا ہو گا جس کی تیاری مساجد کمیٹی کر رہی ہے اور کرناٹک کے حجاب کے فیصلے کے بارے میں متعدد وکلا اور قانون دانوں نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اکثریت کی چاپلوسی پر مبنی ہے۔ اس میں مسلم فریق کے دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ فیصلے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تعلیم کے حقوق سے اقلیتوں کو دستبردار کرانا چاہتی ہے۔ 15 ستمبر کو سپریم کورٹ میں سینئر وکیلوں نے حجاب کے حق میں زور دار دلائل دیے ہیں۔
دنیا میں طرز انصاف کا ذکر
بات کپل سبل کے اس بیان سے شروع ہوئی تھی کہ شہریوں میں عدالت عظمیٰ کا وقار گھٹ رہا ہے، اور ان کی بات کے ثبوت میں اسی وقت عدالتوں کے دو فیصلے بھی آگئے تھے۔ ہر چند کہ ان فیصلوں کا تعلق سپریم کورٹ سے نہیں ہے لیکن تمام عدالتیں سپریم کورٹ کے دائرے ہی میں آتی ہیں۔ گویا سبل صاحب نے بات عدلیہ یا عدالتی نظام کی کہی ہے۔ یہ دونوں فیصلے ججوں کی جانب داری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ ایجنسیاں یعنی سی بی آئی، آئی بی، ای ڈی، الیکشن کمیشن وغیرہ تو پوری طرح حکومت کے زیر اثر جا چکی ہیں، پولیس، ریاستی حکومتوں کے دباو میں رہتی ہے۔ ایک عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ ہے جو سیاست کے دباو میں نہیں ہے لیکن اب یہ یقین بھی متزلزل ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بابری-مسجد رام جنم بھومی تنازع میں جن ریمارکس کے ساتھ حتمی فیصلہ سنایا ہے اس کا ذکر پوری دنیا میں عام ہے۔ اس حوالے کے ساتھ جج صاحبان نے ہندو فریق پر کئی باتوں کے لیے تنقید کی۔ سخت الفاظ کہے۔ مسلم فریق کی ستائش کی لیکن فیصلہ ہندو فریق کے حق میں سنا دیا۔ ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ آخر یہ کون سا طرز انصاف ہے؟
ملک کا مستقبل؟
دیانتدار ماہرین قانون کہتے ہیں اور بہت سے متعدد دانشوروں کی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ملک بدل چکا ہے، ملک کے حالات بدل چکے ہیں، جو لوگ اس بدلاو کے لیے تقریباً سو سال سے الٹے سیدھے داو پیچ کھیل رہے تھے وہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ ملک کی اکثریت یعنی نچلی جاتیاں، آدی واسی اور پہاڑی آبادیاں، بیک ورڈ اور پچھڑی آبادیاں، پیری یار اور امبیڈکر کے فالوورس، یہ سب ڈاکٹر امبیڈکر کے حوالے سے آئین و قانون کو بچانے کی بات تو کرتے ہیں، لیکن ان میں کوئی دم نہیں رہا۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی طرف جا سکتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ عددی طاقت انہی کے پاس ہے۔ دانشور اور پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے، ان کی عددی قوت کچھ نہیں۔ اور صورت واقعہ یہ ہے کہ ایک طرف ایک دانشور ہے اور دوسری طرف 99 ان پڑھ ہیں اور طاقت ان پڑھوں کے ہاتھ میں ہے اور ان ان پڑھوں کو استعمال کرنا برسر اقتدار لوگ خوب جانتے ہیں اور وہ دو سو سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اب ملک کا بھلا کن لوگوں کے ہاتھوں ہو گا، یہ انسانوں کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر جمیعۃ العلما، جماعت اسلامی، ملی کونسل، مجلس اتحاد المسلمین، مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت کچھ کرسکتے ہوں تو آگے بڑھیں اور کریں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022