خبر ونظر

پرواز رحمانی

پانچ ریاستوں میں
ویسے تو انتخابات صرف پانچ ریاستی اسمبلیوں کے ہو رہے ہیں لیکن ان کا شور پورے ملک میں سنا جا رہا ہے۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور میں انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ سب سے زیادہ شور وغوغا یو پی میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یو پی الیکشن پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں جہاں ایک طرف بی جے پی اپنا اقتدار بچانے کی تگ و دو میں بے حال ہو رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں ہر حال میں اس سے اقتدار چھیننا چاہتی ہیں۔ بی جے پی یہاں پانچ سال سے برسر اقتدار ہے۔ اب دوبارہ حکومت بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اپنی پرانی عادت اور طریقے کے مطابق ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں میں سب سے مضبوط اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی ہے جس نے کچھ دیگر پارٹیوں سے اتحاد کیا ہے۔ بی جے پی کے ایجنڈے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہے۔ وہ تمام ضروری کاموں میں ناکام ہوچکی ہے اس لیے اب اس نے اپنا قدیم آزمودہ ہتھکنڈے فرقہ واریت (مسلم دشمنی) کا سہارا لیا ہے۔ پانچ سال پہلے انتخابات بھی اس نے اسی طریقے سے جیتے تھے، اب پھر اسے امید ہے کہ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف ماحول بنا کر ووٹروں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس لیے اس نے پوری مرکزی ٹیم اور ریاستی وزیروں کو میدان میں اتار دیا ہے اور وہ ووٹروں کو مشتعل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پورا کیڈر سرگرم ہے۔

درگت کے اسباب
اتر پردیش میں بی جے پی کی اس درگت کے اسباب متعدد ہیں۔ کسانوں کے ساتھ پارٹی اور اس کی حکومت نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ جب ان کا آندولن چل رہا تھا تو وزیر اعظم ان سے بات کرنے کو تک تیار نہیں تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ کسانوں کے گھر گھر جا کر انہیں منا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے یوگی آدتیہ ناتھ نے ذاتوں اور فرقوں کو منقسم کر رکھا ہے۔ ان کے وزیر اور ایم ایل اے انہیں چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کسانوں کی تحریک کا اثر مغربی یو پی میں خاص طور سے دیکھا جا رہا ہے۔ سب سے بڑی بات جو بی جے پی کو پریشان کررہی ہے وہ جاٹوں اور مسلمانوں میں باہمی قربت ہے۔ 2013 میں جاٹوں اور مسلمانوں کے مابین فسادات ہوئے تھے۔ اس وقت دو برادریوں کی دوری سے بی جے پی نے بہت فائدہ اٹھایا تھا، فسادات کو ہوا بھی دی تھی اور مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کا محاذ بھی کھول رکھا تھا۔ 2017 میں عام انتخابات کے موقع پر بی جے پی نے امیت شاہ کو یو پی کا انچارج بنایا تھا، انہوں نے اپنی تخریبی سرگرمیوں سے ماحول کو مسلمانوں کے خلاف کر دیا تھا جس کا فائدہ پارٹی کو انتخابات میں ہوا لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ خاص طور سے مغربی یو پی میں جہاں جاٹ بہت مضبوط ہیں اور مسلمان بھی چالیس فیصد کے قریب ہیں، دونوں برادریوں میں قربت پیدا ہوئی ہے اور دونوں بی جے پی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی، بے روزگاری، امن وقانون کی خرابی ایسے مسائل ہیں جن سے سبھی پریشان ہیں۔ بی جے پی کی لیڈر شپ اور اس کا میڈیا نیٹ ورک دونوں پوری ریاست میں پوری قوت سےکام کر رہے ہیں لیکن مخالف میڈیا کچھ اور ہی تصویر پیش کررہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دس مارچ کو کیا نقشہ سامنے آتا ہے۔

کون کہاں ہے
پانچ سال قبل یو پی میں سماج وادی پارٹی برسر اقتدار تھی۔ اکھلیش وزیر اعلیٰ تھے ان کے والد ملائم سنگھ ان کے سرپرست تھے۔ ملائم سنگھ کسی نہ کسی درجے میں بی جے پی کے ساتھ پوشیدہ ملی بھگت رکھتے تھے لیکن اکھلیش یادو ایسے نہیں ہیں، اس لیے مشرقی اور وسطی یو پی کے ووٹروں میں مقبول ہیں۔ اب مغربی یو پی میں راشٹریہ لوک دل اور کچھ چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ گٹھ بندھن بناکر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کانگریس کا عالم یہ ہے کہ 1990 میں شکست کے بعد سے وہ ریاست میں ابھی تک نہیں ابھر سکی۔ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی چار بار حکومت بنا چکی ہے اور اس بار بھی میدان میں ہے لیکن اس میں کوئی دم نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اصل مقابلہ بی جے پی گٹھ بندھن اور ایس پی گٹھ بندھن کے درمیان ہی ہے۔ 2024 میں لوک سبھا کے عام انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی ان انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی یو پی کا یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ عام مبصرین اور سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ بی جے پی، یو پی میں کوئی کام نہ کرنے کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ وہاں وزیر اعظم بھی بے اثر ہو گئے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ جو وزیر اعظم کے بعد مرکزی حکومت میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ بار بار یو پی گئے، گھر گھر جا کر پرچے بھی بانٹے، اپنے ہر دورے میں مسلمانوں کے خلاف بولے، ووٹروں کو مسلمانوں کے خلاف بے شرمی کے ساتھ اکسانے کی کوشش کی۔ پاکستان، محمد علی جناح اور مغل دور حکومت کا حوالہ بھی دے رہے ہیں لیکن بات نہیں بن رہی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022