خبر ونظر
پرواز رحمانی
مملکتِ سعودی عرب میں
مملکتِ سعودی عرب سے پریشان کن خبریں ویسے تو کئی سالوں سے آرہی تھیں لیکن اب گزشتہ چند روز سے آنے والی خبروں نے مملکت کا نظریاتی نقشہ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ تازہ دور کی خبروں کا آغاز تبلیغی جماعت پر پابندی سے ہوا تھا۔ اس پر دنیا کے مسلمانوں کا ردعمل جاری ہی تھا کہ دوسری خبر ثقافتی انقلاب کی آئی کہ ممبئی کے کچھ فلمی اداکاروں نے سعودی پبلک میں دھاوا بول دیا ہے اور اس کی دعوت خود سعودی حکومت نے دی تھی۔ کئی دن تک ناچ گانے، تماشے، بینڈ باجے ہوتے رہے۔ تقریباً پوری سعودی آبادی ان میں مگن رہی۔ سعودی عرب میں یہ تبدیلیاں چھ سال قبل شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے آئی ہیں۔ ولی عہد ماڈرن خیالات اور نظریات کے حامل ہیں۔ ان کی تربیت اور پرورش مغربی ماحول میں ہوئی۔ ان کے حلقے احباب میں بھی سب امریکی اور اسرائیلی نوجوان ہیں۔ ہر چند کہ انہیں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ہی شہزادہ بن نائف کو برطرف کر کے کروان پرنس بنایا تھا۔ ابتدا میں محمد بن سلمان اپنے والد کی شاہ سلمان کی سرپرستی میں ہی کام کرنے لگے تھے لیکن بعد میں انہوں نے کچھ فیصلے آزادانہ طور پر کرنے شروع کر دیے جو شاہ سلمان کو پسند نہیں تھے۔ اس پر دونوں میں دوریاں بڑھنے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ ثقافتی تبدیلیاں شاہ کو بھی پسند نہیں ہیں۔
شاہ کہاں ہیں
اب یہ سنسنی خیز خبر آئی ہے کہ بن سلمان نے شاہ سلمان کو الگ تھلگ کرکے اقتدار پر پوری طرح قبضہ کرلیا ہے۔ شاہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یوروپ میں یہ خبر گردش کررہی ہے کہ وہ محل میں نظر بند کردیے گئے ہیں۔ ویسے شاہ سلمان 2018 سے منظر عام سے غائب ہیں۔ اس دوران انہیں صرف سلطان قابوس کی موت پر دیکھا گیا تھا۔ اقتدار عملاً بن سلمان کے ہاتھوں میں رہا۔ بیرونی وفود سے ملاقات بن سلمان ہی کرتے تھے۔ چھوٹے بڑے فیصلے بھی وہی کرتے تھے۔ شاہ کے سامنے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اقتدار کے اندر ایک مضبوط دائرہ اقتدار قائم کرلیا تھا۔ شاہ کی سیکیوریٹی کے ذمے دار بھی وہی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دو سال قبل ترکی میں مشہور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بن سلمان سے خود شاہ سلمان کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ حکمراں خاندان کے اندر اس وقت سخت ہیجان برپا ہے۔ کشمکش یہ ہے کہ بن سلمان کے اقتدار کی توثیق کی جائے یا شاہ سلمان کے اختیارات بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔ دنیا کی تمام حکومتوں کی نظریں اس وقت سعودی عرب پر ہیں۔ یوروپی یونین خاص طور سے سرگرم ہے اس لیے کہ یونین اپنا اتحاد مضبوط کررہی ہے اور امریکی اثرات سے نکلنا چاہتی ہے۔
اب کیا ہونے والا ہے
2013 میں جب مصر میں جنرل عبدالفتاح السیسی نے اسرائیل کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کیا تو سعودی حکومت نے اس کی بھرپور مدد کی تھی۔ شاہ سلمان نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب نئے مصر کی مدد کرتا رہےگا۔ ادھر بن سلمان نے بھی اسلام اور نظام اسلام کے بارے میں بولنا شروع کر دیا۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب میں پچھلے حکمرانوں نے اسلام کی شکل وصورت بدل دی تھی، اسے غلط انداز سے پیش کیا اور اسی پر عمل کرنے لگے۔ موجودہ حکومت اسلام کو ’’صحیح ‘‘رنگ میں پیش کرے گی اور دنیا کو اصل اسلام سے متعارف کرائے گی‘‘۔ اور وہ ’’صحیح‘‘ رنگ یہ ہے کہ سب سے پہلے عورتوں کو تنہا گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی عورتوں کے تنہا گھومنے پھرنے اور بغیر محرم حج کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ غیر ملکی گانے والوں موسیقاروں اور فین شو کرنے والوں کے لیے ملک کے دروازے کھول دیے گئے۔ رقص وسرود کے بڑے بڑے پروگرام ہونے لگے اور ’’جدید اسلام‘‘ کا یہ سلسلہ زور وشور سے جاری ہے، اب یہ کہاں جا کر رکے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا، صرف اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب کی اس تبدیلی سے پوری امت مسلمہ سکتے کے عالم میں ہے۔ اس کے پاس اللہ کے حضور ہاتھ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا ہے۔ دست طلب اٹھائیے اور اسلام دشمنوں کے منصوبوں کے کامیاب ہتھکنڈوں کو یاد کیجیے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 02 جنوری تا 08 جنوری 2022