خبرونظر
پرواز رحمانی
وہ ایک گہری رات تھی
رات گہری ہورہی تھی، وہ خاتون گھر میں بے چین تھی، اسے کسی دوا کی ضرورت تھی۔ بالآخر اس نے گاڑی نکلوائی اور دوا کی تلاش میں نکل پڑی۔ تمام بازار بند تھے، دواوں کی دوکانیں بھی بند تھیں۔ اتفاق سے کہیں ایک دکان کھلی مل گئی۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ دکان پر گئی۔ دکان پر ایک نوجوان لڑکا ملا۔ اس نے مطلوبہ دوا دیتے ہوئے خاتون سے کہا ’’دیدی اس دوا سے تیز نیند آتی ہے۔ اس لیے آپ تھوڑی کم لیجیے گا۔ ‘‘ خاتون کو نوجوان کی یہ بات بہت پسند آئی کہ کتنا ذمہ دار محتاط لڑکا ہے۔ خاتون نے دوسری صبح اپنے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ ڈالی ، دوا کی تلاش اور خرید کا پورا واقعہ بیان کیا یہ الفاظ خاص طور سے لکھے ’’کتنا ذمہ دار نوجوان تھا، اس نے دوا کی منفی صفت بتانا ضروری سمجھا ۔ ٹویٹ سے خاتون کا مقصد ہندو ۔مسلم اتحاد کا ذکر کرنا تھا اور کچھ نہیں لیکن بہت سے لوگوں کو خاتون کی یہ بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے سوشل میڈیا اور فون پر خاتون کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ یہ واقعہ بھوپال کا ہے یعنی مدھیہ پردیش کا جہاں کھرگون شہر میں دو تین دن قبل فساد پھوٹ پڑا تھا، شاید اسی لیے ریاست کی فضا گرم تھی اور لوگ دوسرے فرقے کی تعریف سننا نہیں چاہتے تھے۔ یہ خاتون پڑھی لکھی ہیں اور جبلپور کے جواہر لال نہرو ایگر کلچرل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ مدھیہ پردیش بی جے پی کے صدر وی ڈی شرما کی وائف ہیں۔
اس تنقید کا مقصد
خاتون پر تنقید کرنے والوں میں بی جے پی کے کچھ لیڈر بھی تھے۔ سوشل میڈیا کی اس چوطرفہ ٹرول سے خاتون استتی مشرا اس قدر دل برداشتہ ہوئیں کہ دوسرے ہی دن ٹویٹ کو ٹویٹر سے ہٹادیا۔ مدھیہ پردیش بی جے پی کے صدر وی ڈی مشرا سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا۔ استتی مشرا نے اگر کوئی ایسا ٹویٹ جاری کیا ہے تو وہ آزاد ہیں۔ اسے بڑا مسئلہ نہیں بناناچاہیے۔ ایک اور بی جے پی لیڈر نے کہا کہ ’’ایک عام بات کو آپ لوگ اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنارہے ہیں‘‘۔ تاہم سوشل میڈیا پر زیادہ تعداد ان لوگوں کی رہی جنہوں نے خاتون پروفیسر کی باتوں کو پسند نہیں کیا اور یہ سب عین اس ماحول کے مطابق ہے جو آج کل حکمراں بی جے پی اور اس کی مرکزی و ریاستی سرکاروں نے بنا رکھا ہے۔ یہ ماحول منصوبہ بند طریقے سے بنایا گیا ہے۔ دلی کی جہاں گیر پوری کالونی میں اس کا مقصد دلی میں آئندہ ہونے والے میونسپل انتخاب پر اثر انداز ہونا ہے۔ جہاں جہاں بھی بی جے پی کی سرکاریں ہیں وہاں یہی ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جہاں گیر پوری میں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ملی جلی آبادی ہے۔ وہاں لوگ بہت آرام سے اور میل ملاپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس بار ہنومان جینتی کے موقع پر شوبھا یاترا کچھ نئے ڈھنگ سے نکالی گئی۔ صبح سے شام تک تین بار نکلی۔ اشتعال انگیز نعرے بلند کیے گئے۔
حالات کا نوٹس لیجیے
درست کہا ہے مدھیہ پردیش کے بعض لیڈروں نے کہ ٹوئٹر پر ایک دکاندار کے معقول طرز عمل کی رسید کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔ ایک عام بات تھی لیکن بی جے پی نے اسے ایک بڑا مسئلہ بنانا چاہا۔ خصوصاً اس صورت میں کہ ریاست کے ایک مقام کھرگون میں تشدد ہوا تھا جس کی گرمی کافی ہے۔ ٹوئٹر پر مس استتی مشرا کو بڑے پیمانے پر ٹرول کیے جانے کی وجہ بھی غالباً یہی تھی کہ کھرگون کا ڈوز لوگوں کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا اور ان کی سوچ منفی ہوگئی تھی۔ تو کیا بی جے پی اس ٹوئیٹ سے ایک اور فساد کروانا چاہتی تھی؟ کرناٹک میں رہ رہ کر شرارتیں کی جارہی ہیں۔ یوپی میں گراونڈ تیار کیا جارہا ہے۔ مہاراشٹرا میں اگرچہ راج ٹھاکرے ایک آزاد پارٹی کے لیڈر ہیں لیکن انہوں نے غیر متوقع طور پر لاوڈ اسپیکر پر اذانوں کا مسئلہ اٹھا کر بی جے پی کو سرگرم بنادیا ہے۔ ان نا خوش گوار واقعات پر وزیراعظم اور وزیر داخلہ کچھ نہیں بول رہے ہیں۔ اس لیے نچلے لیڈروں اور عام کارکنوں کو اول فول بکنے اور اشتعال انگیز یاں کرنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ اس صورت حال کا تعلق وزارت داخلہ سے ہے لیکن جب وزیرداخلہ ہی کسی مسئلے پر گھما پھرا کر وہی بات کررہے ہیں جو ان کے کارکن اور دلی پولیس جیسی سرکاری ایجنسیاں کررہی ہیں تو صورت حال کی اصلاح کیسے ہوگی۔ ملک کے ہوش مند اور امن پسند شہریوں کو ان حالات کا نوٹس لینا چاہیے۔ ورنہ 2024کے آتے آتے حالات کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے اس کا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 01 تا 07 مئی 2022