خالد سیفی کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا ہے!!
دکنی دنیا (دعوت نیوز نیٹ ورک)
دلی تقریباً چار دنوں تک فرقہ پرستی کی آگ میں شعلہ پوش رہی۔ اس آگ میں ہزاروں گھر جل گئے، ہزاروں کا کاروبار اجڑ گیا اور پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ ابھی تک مظلوموں کی آہیں، کراہیں اور سسکیاں فضاؤں میں گونج رہی ہیں لیکن مرکزی حکومت ان کی داد رسی کرنے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے الٹا انہی کو قصور وار قرار دے رہی ہے اور انہیں مجرم ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ امت شاہ دلی پولیس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے ہیں جبکہ سب کو معلوم ہے کہ دلی پولیس نے کس طرح تعصب اور تنگ نظری سے کام لیا اور فسادیوں کو کھلی چھوٹ دی تاکہ وہ دلی کو جتنا چاہیں جلا سکیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ دلی پولیس اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے جس کو چاہتی ہے اٹھا کر جیل میں ڈال دیتی ہے۔ انہی میں سے ایک خالد سیفی ہیں۔ پچیس دن سے زیادہ ہو گئے ہیں انھیں جیل میں رکھا گیا ہے، ان کو جیل صحیح سلامت لے جایا گیا تھا لیکن اب ان کی حالت دگرگوں ہے، جسم پر کئی زخم ہیں۔ سماجی کارکن اور سیاسی قد آور لیڈر یوگیندر یادو، خالد سیفی کے ساتھ کئی دنوں سے کام کر رہے تھے۔ شہریت ترمیمی قانون کی لڑائی میں دونوں ایک ساتھ تھے۔ یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے بینر تلے خالد سیفی سرگرم تھے۔ یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ خالد سیفی نے کئی مقامات پر دہلی تشدد کے دوران امن وسلامتی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن پھر بھی دلی پولیس نے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ یوگیندر یادو مزید کہتے ہیں کے جب وہ دلی کی منڈولی جیل میں خالد سیفی سے ملنے گئے تو انہیں پولیس کی بربریت اور ظلم کا پتہ چلا۔ خالد سیفی کے پیر توڑ دیے گئے، ایک ہاتھ کی انگلی ٹوٹ گئی ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب خالد سیفی ٹھیک سے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔ یوگیندر یادو نے خالد سیفی پر پولیس ظلم کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ دلی پولیس نے ظلم و زیادتی کی ہے جو ہمیشہ نفرت کے خلاف لڑ تا آیا ہے۔
خیال رہے خالد سیفی پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور دہلی تشدد کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا ہے۔ اور کورٹ نے ابھی تک انہیں ضمانت بھی نہیں دی ہے۔ پولیس کس کے اشارے پر کام کر رہی ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ یہ وہی پولیس ہے جو جامعہ میں طلبہ کے ساتھ ظلم وزیادتی کرتی آئی ہے اور یہ وہی پولیس ہے جو جے این یو میں تشدد کے بعد شرپسندوں کو کھلے عام جانے دیتی ہے۔ دلی پولیس چاہے جس کے مشورے پر کام کر رہی ہو لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کاغذ کی ناؤ پر سوار ہیں۔
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر